Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریض گاہک ، ڈاکٹر سوداگر اور اسپتال دکان نہ ہو

* * * * *محب اللہ قاسمی۔نئی دہلی* * * * *
طبیب کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ بھی ایک جسم رکھتا ہے جس پر اس کا کوئی اختیار نہیں ، وہ بھی علاج کا محتاج ہوسکتا ہے یہ خیال عام ہے کہ دنیا فطرت کے مطابق چلتی ہے، اگر ہم اس سے اعراض کرتے ہوئے سہولت کی خاطر غیر فطری طریقے اختیار کرلیں تو اندیشہ ہے کہ مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے۔ موجودہ دور میں وقتی سہولت کو ترجیح دیتے ہوئے غیر فطری طریقہ کار اختیار کرنے سے لوگ بالکل پرہیز نہیں کرتے۔مثلا اشیائے خورد ونوش میں قدرتی غذاؤں کے بجائے ، جنک فوڈ وغیرہ کا کوگ خوب استعمال کرتے ہیں۔ گھنٹوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے بس کام کیے جاتے ہیں، کبھی کبھی تو پہلو بھی نہیں بدل پاتے۔اس کے نتیجہ میں معدہ کی کمزوری اور اعضائے جسم کا منجمدہوجانا لازمی ہے۔ یہی حال علاج معالجہ کا ہے۔ پہلے علاج معالجہ اور دیگر انسانی ضرورتوں کی بنیادی اشیاء کس قدر عام اور بآسانی دستیاب تھیں۔اس وجہ سے لوگوں کو علاج میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی اور نہ قدم قدم پر بڑی رقم خرچ کرنے کی نوبت آتی تھی، جس کے سبب عام انسان کے لئے اپنا علاج کروانا اتنا مشکل نہیں تھا، جتنا کہ اب مشکل ہوگیا ہے۔ اس غیر فطری زندگی کی تیز رفتاری نے طرح طرح کی بیماریاںپیدا کردی ہیں۔ مثلاً ایک بخار جسے ڈینگوکا نام دیا جاتاہے، آج کل عام ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ مچھر کا کاٹنا ہے۔ عام اور غریب انسان، جسے اپنا نام سلیقہ سے یاد ہونہ ہو مگر اس بیماری کے نام سے وہ بہ خوبی واقف ہے۔اس کا طریقہ علاج کیا ہے وہ بھی جان لیجئے ،سب سے پہلے مریض کواسے ڈینگوٹسٹ کروانا ہوگا،جس میں پلیٹ لیٹ ٹسٹ بھی شامل ہے۔
بیماری ہویا نہ ہو یہ ٹسٹ لازمی ہے، جس کی لاگت تقریباً 2ہزار سے ڈھائی ہزار تک ہے۔جیسا مریض ویسی قیمت ، اس کے بعد مسلسل دو3 بار پلیٹ لیٹ کی جانچ ضروری ہے،جس کا خرچ ہر بار تقریباً ڈیڑھ سوسے200تک ہے۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے دواؤں کا ، کھانے کی خوراک اتنی ہویا نہ ہومگر دوائوںکی خوراک ہر وقت پابندی سے لینا ضروری ہے۔ آپ چاہے20 سے 30روپے کاکھانا کھائیں مگر ایک وقت کی دوا کی قیمت تقریباً 100سے 200روپے ضرور ہوگی ،جسے آپ بادل نہ خواستہ لینے پر مجبور ہیں۔ ارے بھائی انگریزی نام کا بخار ہے ، اتنی آسانی سے تھوڑا ہی جائے گا۔اس کے لئے پیسوں کوقربان ہونا ہی ہے۔جناب ابھی ڈاکٹر کی فیس باقی ہے۔ تقریباً 500 سے700روپے تک !ارے بھائی اے سی کا نظم ہے ، اتنی بڑی بلڈنگ ہے ، لفٹ اور دیگر بہت سی سہولیات ہیں، کیا ہوا اگر آپ نے ان کا استعمال نہیں کیا مگر چارج تودینا ہی پڑے گا نا۔
اب ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ پہلے کی طرح محسن اور ممنون کا نہیں بلکہ ایک بکرے اورقصائی کا ہے۔ پہلے علاج ہوتا تھا ،اب علاج بکتا ہے، پہلے مریض کو جلد سے جلد رخصت دی جاتی تھی اور علاج کو لمبا کرنے سے گریز کیا جاتا تھا مگر اب مریض گویا ایک اے ٹی ایم کارڈ ہے، لگاتے جاؤ، پیسہ نکالتے جاؤ۔ پھر اتنی جلدی اس پیسے فراہم کرنے والی مشین کو کیسے الوداع کہہ دیا جائے۔یہ تو ایک تجارت ہے جہاں انسان کی زندگی کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ خوف دلاکر یا پھر بیماری سے نجات کا دلاسا دے کر گو مریض کو مرنا پھر بھی ہے۔ اپنی زندگی گزار کر یا اپنی صحت کے عوض ان کی من مانی قیمت چکاکر۔ پہلے طبیب نبض دیکھ کردرجہ حرارت بتادیا کرتے تھے۔ اب یہ کام مشین کرے گی، پہلے لوگ زبان اور مریض کی کیفیت دیکھ کر اس کا علاج کرتے تھے ،اب یہ کام جانچ کی مشین کرے گی ، تو بھائی اس کی قیمت بھی ہوگی۔ جب سب کام یہی مشین ہی انجام دے رہی ہے تو پھر ڈاکٹر کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے ، اتنا بڑا اسپتال ہے ، جس کا ایک مستقل نام ہے۔ اس کی حیثیت کا سوال ہے۔ رہی بات فیس کی تو فیس اگر کم رکھی گئی تو اسپتال کی حیثیت مجروح ہوگی، ڈاکٹر س کی ضروریات زندگی میں فرق آئے گا، پھر آپ کا علاج کیسے ہوسکے گا؟ یہاں ٹھہر کر سوچیں تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ اگر یہی بات ہے تو لوگ کیوں نہیں سرکاری اسپتالوں میں چلے جاتے ، وہاں تو علاج مفت ہوتا ہے۔ بات درست ہے مگر وہاںآپ کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں جب تک کوئی آپ کا جاننے والا نہ ہو۔ اسی طرح وہاں کی صورت حال ایک انار اور سوبیمار کی سی ہے۔
ایسے میں معمولی درجہ کا عقل رکھنے والا انسان بھی اپنی قیمتی زندگی کی بقا کے لئے کچھ تو کرے گا اور لازماً اسے ان ہی پرائیوٹ اسپتالوں میں آنا ہوگا، جہاں معمولی بیماری کوبھی ہمیشہ سیریس کیس مانا جاتاہے اور طریقہ علاج وہی گراں جس کا ذکر کیا گیا۔اب بتائیے کہ یہ ہے نا غیرفطری اور غیر اصولی زندگی! جہاں سب کچھ مشین کرتی ہے اور انسان کی مجبوری اور اس کے جذبات کو کیش کیا جاتاہے۔پورا پیشہ طب تجارتی ہوکر رہ گیاہے، جہاں مریض گاہک ہے، ڈاکٹر سوداگر اور اسپتال گویا دکان ہے۔ مگر زندگی کا ایک تصور وہ بھی ہے جس میںانسان کو اس کی فطرت سے روشناس کرایا جاتا ہے اور انسانوں کا باہمی تعلق الفت و محبت کا ہوتاوہاںاس انسان کو بہترین انسان قرار دیاجاتاہے جس سے لوگ خیر کی امید کریں اور اس سے کسی قسم کے شرکا کوئی اندیشہ نہ ہو۔وہ دوسروں کا ہمدر د وخیر خواہ ہو۔یہ ہے اسلامی زندگی جس نے انسانوں کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے بلند مقام پر رکھا ہے،جس میں دھوکہ دینا حرام تصور کیا جاتاہے چہ جائے کہ کسی کوتکلیف اور نقصان میں مبتلا کیا جائے۔ اللہ نے انسان کو معزز مخلوق بنایا، اسے قابل قدر اور باعث احترام بتایا۔
اللہ کا قانون وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اللہ زمین پر کسی انسان کو راہ چلتے ہوئے کانٹا چبھے ، اس لئے راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادینے کو بھی شریعت نے صدقہ قرار دیا، چہ جائے کہ انسان ایک دوسرے کو دھوکہ دے اور قتل وغارتگری کے درپے ہو۔اللہ انسانوں میں اچھے اوصاف کو پسند کرتا ہے اور صالحین کا تذکرہ فرشتوں کے درمیان کرتا ہے۔ہدایت الٰہی کے مزاج کا تقاضہ ہے کہ انسانوں کے اندر ہمدردی اور محبت کا جذبہ بھرپور اور نمایاں طور پر ہو تاکہ اللہ کی خاص رحمتیں ان پر نازل ہوں۔ ایسے اوصاف کے حامل لوگوں کے تعلق سے اللہ کے رسول کا ارشادہے:’’رحم وکرم اوردرگزرکرنے والوں پررحمن رحم کرتاہے لہذاتم زمین والوں پررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔‘‘(ترمذی)۔ اس حقیقت کی کسی شاعر نے بڑی اچھی ترجمانی کی ہے: کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر ہمدردی کی خوبی انسانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کو فروغ دیتی ہے۔ جب انسان کسی کے ساتھ ہمدردی کرتاہے اور اس کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھتا ہے تو لوگوں پر اس کا غیرمعمولی اثر پڑتا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتاہے جب کہ مادیت کے حصول میں پھنسا انسان لاکھ کچھ حاصل کرلے مگر اسے یہ دولت حاصل نہیں ہوتی۔ دوسری جگہ اللہ کے رسول نے یہ بھی فرمایا: ’’جولوگوںپررحم نہیں کرتاخدابھی اس پررحم نہیں کرتا ہے۔‘‘ (مسلم)۔ اسلام دھوکہ کو پسند نہیں کرتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص لوگوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کرے۔اسی لئے وہ اس شیطانی عمل سے باز رہنے کی تلقین کرتاہے۔ اللہ کے رسول کا ایک واقعہ سبق آموز ہے: ایک مرتبہ آپ بازار سے گزرے ،وہاں ایک شخص غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ نے غلے میں ہاتھ ڈالا تواس کو بھیگا ہوا پایا۔ آپ نے دکاندار سے فرمایا:اے غلہ والے یہ کیا ماجراہے ؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول رات بارش کی وجہ سے بھیگ گیا تھا۔
آپ نے فرمایا:تو تم نے بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگوں کونظر آتا۔ پھر آپ نے یہ ارشاد فرمایا: ’’جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (ترمذی)۔ جب انسان میں دھوکہ دہی کی عادت پڑجاتی ہے تووہ لوگوں میں معیوب اورناپسندیدہ تصور کیاجاتاہے۔ لوگ اس سے دور رہنے لگتے ہیں اور اس سے انسیت میں کمی آجاتی ہے جب کہ انسان یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے محبت کریں اور اس سے میل جول اور ہمدردی بھی رکھیں۔ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول نے صاحب ایمان انسان کے ایک اچھے وصف ، کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔‘‘ (مسند احمد)۔ اگر انسان اسوہ رسول کو اپنائے اوراپنے خالق و مالک کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے تو پھر وہ کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوگا۔ طبیب بھی اپنی ذمہ داریاں بہ خوبی ادا کرے گا ، اس جھوٹی دنیاوی چمک دمک اور عیش پرستی کے حصول کومقصد نہیں بنائے گا۔ اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوگا کہ وہ بھی ایک جسم رکھتا ہے، جس پر خود اس کا بھی کوئی اختیار نہیں ، وہ بھی علاج کا محتاج ہوسکتا ہے۔ یہ احساس ہو تو طبیب کومریض سے حاصل ہونے والے پیسے کی نہیں بلکہ اس کی جان کی فکر ہوگی ۔دوسرں کے درد کو وہ اپنا درد تصور کرے گا اور مریض کے علاج کو گویا اپنا علاج مان کر پوری ہمدردی اور رعایت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے گا۔ اس طرح انسان کی زندگی کی قیمت بھیڑ بکریوں کی سی نہیں ہوگی بلکہ وہ انمول ہوگی،جسے بچانے کی بھرپور کوشش بھی کی جائے گی۔تب صرف طبیب ہی نہیں بلکہ ہر پیشہ سے وابستہ انسان اسلامی تعلیمات کو اپنا کر یقینا اپنے کام میں پوری ایمانداری کا ثبوت دے گا۔اس طرح صرف ڈاکٹر ،مریض اسپتال ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پرامن اور خوشحال معاشرے کی طرف لوٹ آئے گی۔

شیئر:

متعلقہ خبریں