Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک حادثے نے دل کی آنکھ کھول دی اور پھر۔۔۔۔۔۔۔

بہن کے انتقال سے اندر سے ٹوٹ گئی تھی کہ یہ ہے زندگی ، مجھے ابدی سفر پر نکلنا پڑے تو میرے پاس کیا زاد راہ ہے؟ ایک حادثے نے دل کی آنکھ کھول دی اور پھر۔۔۔۔ بہن
***اُم عزام۔ سڈنی،آسٹریلیا***
(پہلی قسط)
میں بستر پر لیٹی کروٹ پہ کروٹ بدل رہی تھی اور نیند تھی کہ آکر نہ دے رہی تھی۔ آج سارا دن بہت مصروف گزرا۔ شاید تھکن زیادہ ہونے کی وجہ سے نیند آنکھوں سے کوسوں دور لگ رہی تھی۔ صبح سے آنا جانا بھی لگا تھا۔ پیکنگ تو کل کرلی تھی مگر پھر بھی جب تک سوٹ کیس کو لاک نہیں لگ گیا، کچھ نہ کچھ یاد آتا رہا کہ یہ بھی رکھنا تھا وہ بھی رکھنا تھا۔ کل صبح 8 بجے کی فلاٹ سے ہمیں جدہ جانا تھا۔ سونے کی کوشش میں ناکامی ہورہی تھی سو میں سوچ کے گھوڑے پر سوار چند لمحوں میں مہینوں پیچھے چلی گئی۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہ تھی۔ساڑھے 3سال قبل میں شادی کے بعد آسٹریلیا آبسی۔ اتنا عرصہ لگتا ہے کتنی جلد گزر گیا۔ میاں کی ملازمت بہت اچھی ہے۔
سو بہت آرام دہ، آسودہ زندگی گزر رہی تھی لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ پیسے کی اس ریل پیل میں بالکل ہی اپنے اللہ کو بھولی ہوئی تھی۔ نمازکی عادت تو شروع سے ہی تھی، سو عادتاً نماز پڑھ ہی لیتی تھی۔ رمضان آیا تو روزے بھی رکھ لیتی۔ زکوٰۃ دینا تو مجھے ہمیشہ اچھا لگتا تھا کیونکہ پیسہ کبھی ہمارا مسئلہ نہیں رہا۔ بس میرے لئے یہی اسلام تھا۔ اسی پر میں قانع تھی۔ کافی حد تک مطمئن بھی۔ مجھے یاد ہے۔ تقریباً 3 سال پہلے کی بات ہے۔ شادی کے فوراً بعد ملازمت سے چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے ہمیں فوراً آسٹریلیا آنا پڑا۔ جب چند ماہ کے بعد کچھ چھٹیاں ملیں تو ہم نے کہیں گھومنے پھرنے کا ارادہ کیا۔ قرعہ فال راحیلہ چچی کے نام نکلا جو کئی سال سے آئر لینڈ میں مقیم ہیں۔ بہت مرتبہ دعوت بھی دے چکی تھیں۔
خیر آئر لینڈ میں2 ہفتے بہت اچھا وقت گزرا۔ بہت برسوں بعد ملاقات ہوئی تھی ۔سو خوب گپ شپ رہی ۔ خوب گھومے پھرے۔ راحیلہ چچی و سرتاپا بدل چکی تھیں۔ کسی اسلامک آرگنائزیشن کی سرگرم رکن تھیں۔ گھر میں ٹی وی تک نہ تھا۔ سو میں تو کچھ بور بھی ہوئی۔ بہت ساری باتوں میں جو ایک بات جانے کیوں یادداشت میں رہ گئی وہ یہ کہ اس سال راحیلہ چچی کا دوسری مرتبہ حج پر جانے کا پروگرام تھا۔ سو وہ فارغ وقت میں حج کے حوالے سے کچھ نہ کچھ مطالعہ بھی کرتی تھیں تاکہ حج کے ارادے کے ساتھ جذبہ اور تڑپ بھی بیدار رہے۔ ایک دن وہ کتاب پڑھتے کسی کام سے اٹھ کر گئیں تو میں نے ویسے ہی کتا ب اٹھاکر اسی صفحہ سے پڑھنا شروع کردیا۔ سید موددی کی ـ " خطبات" تھی جس میں فریضہ حج کی اہمیت پر مضمون کی آخری چند سطروں میں لکھا تھا (جو مجھے یاد رہ گئیں) کہ وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمہ ہے۔ دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں۔
آگے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے۔ پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا۔ وہ کیسے مسلمان ہوسکتے ہیں؟ ابھی اتنا پڑھا تھا کہ راحیلہ چچی اپنا کام نمٹاکر واپس آگئیں۔ میں نے ذرا مضحکہ خیز انداز میں اس پیراگرف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان مولویوں کا تو بس نہیں چلتا کہ سب کو جائے نماز پر بٹھاکر تسبیح ہاتھ میں دے دیں۔ (دراصل کل شام ہی میں اور میرے میاں پروگرام بنا رہے تھے کہ اگلے سال ورلڈ ٹور کا پروگرام بنائیں۔
عفت پھوپھو ناروے میں ہوتی ہیں، دو تین ملکوں کا چکر لگاتے ان کے پاس جائیں گے اور پھر واپس آسٹریلیا آنے سے قبل پاکستان بھی ہوتے آئیں گے۔ دل میں جو چور تھا نا! مجھے لگا جیسے یہ بات مجھ پر ہی ہورہی ہے لیکن میری ابھی عمر ہی کیا ہے جو حج کیلئے سوچوں) راحیلہ چچی کو یہ بات کچھ بہت اچھی نہیں لگی ۔ کہنے لگیں تم نے سورۃ آل عمران کی آیت نہیں سنی کہ جس کا مفہوم ہے " اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو، وہ اسکا حج کرے اور جس نے کفر کیا (یعنی قصداً حج نہ کیا) تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے" (آل عمران 97 ) اور پھر یہ کہ " جس کو نہ کسی صریح حاجت نے روکا ہو، نہ کسی ظالم سلطان نے ، نہ کسی روکنے والے مرض نے اور پھر اس نے حج نہ کیا ہو اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو خواہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے" اسی کی تفسیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کچھ آدمیوں کو شہروں میں بھیجوں وہ تحقیق کریں کہ جن لوگوں کو حج کی طاقت ہے اور انہوں نے حج نہیں کیا، ان پر جزیہ مقرر کردیں۔
ایسے لوگ مسلمان نہیں، ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ راحیلہ چچی بہت جذبے سے یہ سب کہہ رہی تھیں مگر میں کیا کرتی کہ دل کے کان تو بند تھے۔ سو ایک کان سے سنا اور جھٹک دیا کہ ابھی میری عمرہی کیا ہے۔ زندگی پڑی ہے۔ حج بھی کرلیں گے۔ ابھی ذرا لائف انجوائے تو کریں۔ خیر زندگی کے پہئیے نے ایک اور چکر مکمل کیا۔ ہماری زندگی میں ماہم کی صورت میں ایک خوبصورت اضافہ ہوا۔ اگلے سال کی چھٹیوں میں ہم نے منصوبے کے مطابق عفت پھوپھو سے ملنے کے بہانے ورلڈ ٹور کا پروگرام بنایا۔ فلائٹ میں ابھی چند روز باقی تھے کہ ایک شام پاکستان سے کبھی نہ بھولنے والی کال سنی۔ بھائی نے میرے میاں کو بتایا کہ میری چھوٹی بہن عظمیٰ کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اگلے ماہ اسکی شادی تھی ، ارادہ تھا کہ اسکی شادی میں شرکت کرتے ہوئے واپس آسٹریلیا آئیں گے۔ یہ خبر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچنے اور میرے اوسان خطا کرنے کیلئے کافی تھی۔ سب پروگرام بھول بھال ٹکٹ لے کر روتے دھوتے پاکستان پہنچ گئی۔ پتہ چلا کچھ نہیں ہوا تھا، سر میں کچھ درد اٹھا، ٹیبلٹ لے کر لیٹ گئی اور دوبارہ اٹھی ہی نہیں۔
زندگی اتنی بے ثابت ہے اس تلخ حقیقت کا ادراک کروانے کو میری بہن کی موت کافی ہوگئی۔ قرآن و حدیث پڑھتے، مسلمان ہوتے ہوئے بھی ، سب کچھ جانتے ہوئے بھی کبھی یقین کی آنکھ سے اسے نہ دیکھا اور عظمیٰ کی موت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا آپ منوا جائے گی۔ کبھی سوچا تک نہ تھا۔ میں اندر تک بہت ہل کر رہ گئی تھی۔ یہ ہے زندگی۔ جھٹکے سے ختم ہوکر مجھے ابدی سفر پر نکلنا پڑے تو کیا زاد راہ ہے میرے پاس؟ دو ماہ بعد بہت دکھی دل کے ساتھ واپس آسٹریلیا آئی تو اس شازیہ اور2 ماہ قبل والی شازیہ میں بہت فرق تھا۔ اب زندگی سے کچھ کشید کرنا چاہتی تھی۔ کچھ زاد راہ اکٹھا کرنا چاہتی تھی تاکہ اگلے سفر کے مراحل آسان ہوں۔ دل کی آنکھیں کھل چکی تھیں۔ زندگی کی بے ثباتی روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی تھی۔ میرے گھر سے ایک گلی چھوڑ کر اسلامک سینٹر میں قرآن کی کلاسز ہورہی تھیں۔ جس کی دعوت پہلے بھی مختلف دوست دیتی رہیں مگر تب دل کی آنکھیں کان سب بند تھے۔ صرف سنتی اور مسکرا دیتی کہ وقت ملا تو ضرور آؤنگی۔ ظاہر ہے مسلمان تھی صاف انکار بھی نہ کرسکتی تھی۔
مگر اب پاکستان سے آتے ہی کلاسز کا ٹائم ٹیبل پتہ کیا۔ دل دکھی تھا نا! دنیا میں لگتا ہی نہ تھا۔ ان دنوں کلاس میں تیسواں سپارہ ترجمہ و تفسیر سے پڑھ رہے تھے۔ مجھے میری دوست نے بتایا کہ اگلے ماہ پہلا سپارہ شروع ہوجائے گا۔ تب باقاعدہ کلاسز جوائن کرلینا۔ لیکن مجھے تو ابھی ابھی زندگی کی بے ثباتی کا ایسا کڑوا سبق ملا تھا۔ میں اس سفر میں ایک ماہ اور گزارنے کی گارنٹی کس سے مانگتی ۔ سو اگلے ہی دن کلاسز میں جانا شروع کردیا۔ تیسویں پارے کی ہر سورہ یہی کڑوا گھونٹ بار با ر پینے کی دعوت دیتی نظر آتی کہ یہ زندگی خشک ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسل رہی ہے۔ جتنی اس پر گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کروگے اتنی ہی تیزی سے نکلتی چلی جائے گی۔ اس دنیا میں اتنا دل نہ لگاؤ کہ اچانک چھوڑنا پڑے تو سوائے حسرت کچھ ہاتھ نہ آئے۔ دل لگانا ہے تو اس ہمیشگی کے سفر کی تیاری میں دل لگاؤ۔

 

 

--------------------------------------------

ای میل ایڈریس

****** [email protected] ******

00923212699629

شیئر: