Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اغیار کی اندھا دھندتقلید میں ٹیکنا لو جی کا کیا قصور

 
یہ فکری و عملی جہا لت ہے جس نے اسکے استعمال کے معیاری اطوار سے دور رکھا
 تسنیم امجد ۔ریا ض
  ترقی اور نئی را ہو ں کو اپنا نا انسا نی فطرت کا تقا ضا ہے۔اسکول کے زمانے کا ایک شعر یا د آرہا ہے کہ 
سکو ں محال ہے قدرت کے کا ر خا نے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زما نے میں
انسان کو اشر ف المخلو قات ہو نے کا شرف حا صل ہے۔دنیا کی ہر شے کو اپنے قا بو میں کر کے خا طر خواہ انداز میں ڈھا لنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ما حول کے اثرات اس کی شخصیت کو بھی یکسر بدل کر رکھ دیتے ہیں۔بعض حالتو ں میںیہ خود کو نہ بھی بدلنا چاہے تب بھی تبدیلی کے عمل سے بچنا نا ممکن ہوجاتاہے ۔ٹیکنا لو جی کی ترقی کے ا ثرات نے انسا نیت کو بری طرح متا ثر کیا ہے۔میںاور صرف میںکے پر دے کے پیچھے کو ن کتنا تڑپا ،کسی کو جاننے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔تہذیبی ترقی کے اثرات سے ثقافت یوں بھی متا ثر ہو گی،شایدمو جد نے کبھی سو چا بھی نہ ہو گا۔نصا ب کی کتاب میں لکھی علامہ اقبال کی ایک نظم ، اردو کی ٹیچرنے کچھ اس طرح سے سمجھا ئی کی حالات کے مطا بق یا د آ جاتی ہے۔ اس نظم کا ایک شعر ہے کہ:
ہے دل کے لئے موت مشینو ں کی حکو مت
ا حساسِ مر وت کو کچل دیتے ہیں آلا ت
مادی ترقی کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہو نا چا ہئے کہ ہم خود بھی بے حس بن جا ئیں۔با ہمی اخوت و محبت خون کے رشتو ں میں بھی تلاش کر نا پڑ رہی ہے۔انسان کی قدرو منز لت نا پید ہو چکی ہے۔اقدار کا احترام کیا کرنا، جائے بھا ڑ میں ،یہ کہہ کر لا شعور ی احساس کو جھٹک دیا جاتا ہے ۔
دھنک کے صفحے کی تصویر ہر اس پرا نی شے کی تر جما نی کر رہی ہے جو اس کر ب سے گز ر رہی ہے ۔چندروز قبل ہی ایک خاتون رو رو کر بتا رہی تھیںکہ بھا بی نے اما ں کو چھت وا لے کمرے میںمنتقل کر دیا ہے ۔بیچاری گھسیٹ گھسیٹ کر چڑ ھ تو گئیں لیکن اترنا ان کے لئے مشکل ہے۔سیڑ ھیا ں بھی کم نہیں، کوئی 40تو ہوں گی۔بیچاری اوپر کی منزل پر اکیلی پڑ ی نیچے سے آنے والی کسی ہستی کی منتظر رہتیں کہ شاید کوئی آجائے کچھ سننے، کچھ سنانے ۔میں نے ڈرتے ڈرتے بھا بی سے کہا کہ میرا اوپر جا نا بھی مشکل ہو رہا ہے ،سانس پھو ل جاتی ہے ،ذرا ان دنو ں اما ں کو نیچے لے آﺅ، اس پر وہ تڑق کربو لیں کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟آپ کا انتظام بھی اوپر ہی کرا دیتی ہو ں۔نیچے کا کمرہ اب بیٹے کے لئے وقف کر دیا ہے ۔اماں کسی کے ساتھ نہیں رہ سکتیںکیونکہ سارا دن کھا نستی اور تھو کتی ہیں۔کسی کو میں گھر نہیں بلا سکتی۔اسی لئے اب انہیں اوپر کا کمرہ دیا ہے ،لیکن ان کی تنہا ئی ؟ میں ابھی بات مکمل بھی نہ کر پا ئی تھی کہ وہ بو لیں” میرا دما غ نہ کھا ئیں، میں نے جو کر دیا، کر دیا ۔کھا نے کی ہر شے پہلے اوپر بھیجتی ہو ں، اب اور کیا کرو ں؟
میں سوچتی رہی ،وہ کھا نا کھا تی ہیں یا یو نہی پڑا سڑ تا رہتا ہے۔کسی کو خبر نہیں۔بھا ئی صبح کے گئے رات کو لو ٹتے ہیں۔ ان سے شکوہ کرنا مناسب نہیں لگا۔شکوہ کر تی بھی تو وہ کیا کر سکتے تھے۔آخر انہیں بھی تو سب نظر آ ہی رہا ہے۔حس مر جا ئے تو کیا کر سکتے ہیں؟اما ں کا کہنا ہے کہ میں سو رہی ہو تی ہو ں تو کھا نا رکھ جا تے ہیں۔کم سے کم آواز ہی دے جا ئیں۔رو ٹی سو کھ جا تی ہے تو چبائی نہیں جاتی۔میں بھی اوپر اماں کے کمرے میں سامان لے گئی کہ چند دن ان کے ساتھ رہ لوں۔میں نے مری جانے کااپنا پرو گرام آئندہ تعطیلات تک ملتوی کر دیا۔اب ایک دلخراش فکرو کرب میں مبتلا ہو ں۔
میڈ یا کا کردار معا شر تی اصلا ح میں نہایت اہم ہے ۔خا مو ش دا ستا نیںحقائق سے پر دے اٹھا کر ہمیں جھنجھو ڑ تی ہیں کہ شایدیہی مکافات عمل بھی ہے۔آج معا شرہ آپا دھا پی کا شکار ہے۔کیو ں اور کس لئے ؟اولاد بو ڑ ھے والدین کو بھی کچرا سمجھنے لگی ہے حالانکہ یہ تو جیتی جاگتی ہستیاں ہیں، ان کے لئے پرا نی بے جا ن اشیاءکی کیا حقیقت ہے ؟لیٹر بکس اور انسا نو ں میں فر ق نہیں رہا ۔اب کسی طور بھی ممکن نہیںکہ پرانی اشیاءکو ان کی ا صل جگہ دی جائے۔خط لکھے جائیں گے تو لیٹر بکس کی اہمیت نظر آئے گی ۔اکثر لوگ محلے میںان پر سوکھی یا بچی ہو ئیں کھانے کی اشیاءرکھ جا تے ہیں جو جلد ہی اٹھا لی جا تی ہیں۔ 
ٹیکنا لو جی نے انسان کو بے حس کر دیا ہے۔اس کے دل میں سوزو گداز نہیں رہا ۔غر بت ،جہا لت ،بیماری، بیروز گاری اور ما د یت جیسے مسا ئل نے جینا دو بھر کر دیا ہے۔نسل نو نے پہلے کا زمانہ نہیں دیکھا ورنہ وہ بھی اس دور میں لو ٹنا چا ہتی جہا ں خلو ص و ایثار تھااور وہ محبتیں تھیں جن کاآج عشر عشیر بھی مشکل سے نظر آتا ہے ۔اخلا قی اقدار آخر کیو ں مٹ گئیں؟اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ جواب ہما رے پاس ہے لیکن ہم یہ جواب دینا نہیں چا ہتے کیو نکہ اس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔تر قی نے ہما ری زند گیا ں آسان کیں۔ہمیں اپنی توا نا ئیاں مثبت سمت لگانے کے موا قع فرا ہم کئے لیکن ہم نے اپنی کو تا ہیو ں کے الزام اس ترقی کے سر تھوپ دیئے۔اس میں کھو کر ایک دوسرے سے دور ہو گئے ،یہ کہنا بجا ہو گاکہ :
بھاگ ان بردہ فرو شو ں سے کہا ں کے بھا ئی
بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا برادر ہووے
آج شہری معاشرہ جس افراتفری کا شکار ہے ، دیہی معا شرہ تاحال اس افرا تفری سے محفوظ ہے۔ٹیکنا لو جی وہا ں بھی پہنچ چکی ہے لیکن اس نے لوگوں کا خون سفید نہیں کیا۔وہا ں لیٹر بکس آج بھی محفوظ ہیں،ڈاکئے کا انتظار اب بھی ہو تا ہے ۔ما ئیں کسی سے خط لکھوا تی اور پڑ ھواتی نظر آتی ہیں۔سو نے جا گنے کے او قات وہی ہیں کیو نکہ تڑ کے تڑ کے فصلو ں کو پا نی دینا ،مویشیو ں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ ترتیبِروز و شب وہی ہے۔خاندان کے لڑ کے شہر پڑ ھنے جا تے ہیں تو ڈگریا ں حا صل کر کے وا لدین کو دکھاتے ہیں۔سا دگی و بھا ئی چارہ اب بھی وہا ں مو جو د ہے ۔روایتی زندگی کا اپنا ہی مزہ ہے۔کاش ہم یہ راز جا ن جائیں، اپنے آباءکے اطوار اپنا ئیں۔اپنے اندر وہ صفات پیدا کریںجن کی بدولت ہما رے اسلاف کو دائمی عزت و تو قیر ملی۔وہ اپنی اقدار پر مر مٹتے تھے۔مغرب کا وجود تب بھی تھا ، اس وقت بھی اولادیں پڑ ھنے کے لئے بیرون ملک جا تی تھیں اور لوٹ کر وطن آنا اپنا فرض جا نتی تھیں۔پہنا وے میں فرق دیکھ کر بز ر گو ں کی ڈانٹ کھا تی تھیںاور اُف نہ کرنا اپنا فرض گردانتی تھیں۔بقول شا عر:
میں تجھ کو بتاتا ہوں ،تقدیرِ اُمم کیا ہے
 شمشیر و سنا ں اول ،طا ﺅس و رباب آخر
ہما رے نو جوان بے روز گا ری کا رونا روتے ہیںلیکن رات بھر کی چاٹنگ نہیں چھو ڑ تے۔وقت پر انٹر ویو کے لئے نہیں پہنچ پاتے،رات بھر کے جگراتے سے دن کے معمولات خراب ہوتے ہیں تو بھلا قصور کس کا ہے ؟اغیار کی بے سروپاءتقلید میں ٹیکنا لو جی کا کیا قصور ؟ امتحان میں خا طر خواہ نتائج نہ لانے کی وجہ ٹیکنالوجی کو کیو ں ٹھہرایا جا تا ہے ۔یہ جہا لت ہی ہے ،فکری و عملی جہا لت، جس نے اس کے استعمال کے معیاری ا طوار سے دور رکھا ۔ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔اپنے لئے صراط مستقیم کا تعین کرناچاہئے۔اپنے ذہن سے کوئی راستہ تخلیق نہیں کرنا چاہئے کیو نکہ انسان اپنے گما ن و قیاس سے راستے وضع کرکے گمراہ ہو سکتا ہے۔ہم خود وضع کردہ کسی بھی راستے کوسیدھا راستہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ صراطِ مستقیم صرف وہی ہے جسے خا لق کا ئنا ت نے ہمارے لئے منتخب فرمایا ہے :
افراد کے ہا تھو ں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
 
 
 
 
 
 

شیئر: