Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حضرت لقمان کی نصیحتیں ، تربیت کے زریں اصول

دعوت و تبلیغ کا کام رک جا نے کے نتیجے میں عمومی جہا لت کا غلبہ ہو جا تا ہے اور جہالت کی وجہ سے معا شرہ مسا ئل کی آما جگا ہ بن جا تا ہے
* * * * محمد کبیر بٹ۔ ریاض* * *
قرآن مجید میں جا بجا اہل ایما ن کو انفرا دی حیثیت میں اور پوری امت کو اجتماعی طور پر اس عظیم ذمہ دا ری کی ادائیگی کو احسن طریقے سے پورا کرنے کی تا کید کی گئی ہے اور اسے ایما ن وا لوں کی ایک اہم صفت کے طور پر بھی ذکر کیا گیا ہے جبکہ شر پھیلا نے، نیکی کا را ستہ روکنے وا لوں کو منا فق اورفا سق قرار دیا گیا ہے ۔ اس ذمہ داری کی ادا ئیگی میں کوتا ہی کی بد ترین سزا ہے جو آج پوری امت کو مختلف صورتوں میں مل رہی ہے ۔
ہم سے پہلے بنی اسرا ئیل کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقا م و فضیلت عطا فرما یا تھا،انھوں نے اس کا حق ادا نہ کیا جس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کی لعنت و پھٹکا ر کے مستحق قرا ر پا ئے ۔ اگر امت اس فرض کی ادائیگی سے لا تعلق ہو کر دنیا بنا نے میں لگ جا ئے تو اس کی گر دن میں غیروں کی غلا می اور ذلت کا طو ق ڈا ل دیا جا تا ہے جیسا کہ طبرا نی کی ایک روایت کا مفہوم ہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام رک جا نے کے نتیجے میں عمومی جہا لت کا غلبہ ہو جا تا ہے اور جہالت وہ نا سور ہے جس کی وجہ سے معا شرہ مسا ئل کی آما جگا ہ بن جا تا ہے ۔ فحا شی اور بے حیائی ، گا نے اور مو سیقی ،زنا اور شرا ب ، جھوٹ اور بد دیا نتی معا شرے کا چلن بن جا تا ہے ۔ خیر پر شر غا لب آ جا تا ہے اور قوم کے بد ترین لوگ عہدوں اور منا صب پر پہنچ کر ملک اور قوم کو تبا ہ کر ڈا لتے ہیں ۔
آج ہما رامعا شرہ ان تما م خرا بیوں سے اٹا پڑا ہے ۔ سبب یہی ہے کہ ہم نے انفرا دی اور اجتما عی حیثیتوں سے اپنے اس فرض منصبی کی ادا ئیگی میں سخت غفلت برتی ہے ۔ ’’جب کسی اجتما عیت میں مصلحین کی دعوت اور جد وجہد کے با وجو د مفسدین کا غلبہ اور وہ قوم اپنے طرز عمل سے ثا بت کر دے کہ اب اس کے پا س کو ئلے ہی رہ گئے ہیں تو پھر زیا دہ دیر نہیں لگتی کہ وہ بھٹی سلگا دی جا تی ہے جو ان کو ئلوں کو پھو نک کر رکھ دیتی ہے ‘‘۔اللہ ہمیں اس انجا م بد سے بچائے،آمین۔ صبر کی تلقین : اپنے لخت جگر کو امر با لمعروف اور نہی عن المنکرجیسے بلند درجہ کا ر ِعظیم کی ادا ئیگی کے بعد حضرت لقمان یہ ہدا یت دیتے ہیں کہ صبر کا دامن تھا مے رکھنا ،کسی مصیبت اور آزما ئش کی گھڑی میں تمہا رے قدم جا د ۂ حق سے متزلزل نہ ہوں ،یہ بڑے ہی حو صلے اور عزم وا لے لوگو ں کے کا م ہیں۔ صبر کو اما م ابن قیم ؒ نے نصف ایما ن قرا ر دیا ہے ۔ یہ انبیا ء ؑ اور اہل ایما ن کی ایسی صفت ہے جس کے بغیر نیکی کے را ستے پر قا ئم رہنا ممکن نہیں اس لئے قرآن مجید با ر با ر اہل ایما ن کو صبر کی تا کید کرتا ہے ۔ صبر سے مرا د اللہ کی اطا عت پر قا ئم رہنا اس کی نا فر ما نی سے اجتنا ب کرنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی طرح کی بھی آزما ئش یا مصیبت آئے اُس پر صبرکے سا تھ حق پر جمے رہنا ۔
آزمائش پر صبر ہی دراصل کھرے اور کھو ٹے کی وہ کسو ٹی ہے جس پر جا نچنے اور پر کھنے کے بعد اللہ تعا لیٰ انعا ما ت سے نوا زتا ہے ۔ارشاد ِ با ری تعالیٰ ہیـ: اور صبر کر نے والوں کے لئے بشا رت (کا میا بی )ہے، جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف ہم نے لو ٹنا ہے ، یہی لوگ اپنے رب کی رحمتوں کے حق دار ہیں اور یہی ہد ایت کی سیدھی راہ پر ہیں۔ خیر کو پھلا نے اور شر سے منع کرنے کاکام دراصل اولوالعزم انبیا ء ورسول ؑکا فرض منصبی تھا ۔اب یہ اس امت کا اہم ترین فر یضہ ہے۔ جو بھی اس کی ادائیگی کا حق ادا کرے گا ،اسے آزمائشوں کی گھا ٹیوں سے گزر نا اور کا نٹوں کی جھا ڑ کو عبور کرنا پڑے گا ۔ یہ کا م صبر واستقا مت کے بغیر نا ممکن ہے ،اس لئے حضرت لقما ن اپنے لخت جگر کو اس عظیم ذمہ داری کے اداکرنے کے فورا ًبعد صبر کی تا کید کرتے ہیں ۔ سورۃ العصر میں بھی یہی با ت ارشا د ہو تی ہے: ’’قسم ہے زما نے کی، انسان خسا رے میں ہے ،سوائے ان لوگوں کے جو ایما ن لا ئے (انھوں نے حقوق ُ اللہ ادا کیے)اور نیک عمل کیے(حقوق العبا دمیں بھی کوتا ہی نہیں کی)حق کی وصیت اور صبر کی تلقین کرتے رہے ۔‘‘
صبر اس را ستے کا وہ زادِ را ہ ہے جس کے بغیر مو منین اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے ۔ تکبر سے بچو : بہترین اخلا ق کی تعلیم کے بعد حضرت لقما ن اپنے لخت جگر سے مخا طب ہو کر فرما تے ہیں:میرے بیٹے !گا ل پھلا کر یا گردن اکڑ اکرلوگوں سے با ت مت کرنااورنہ ہی زمین پر اکڑکر چلناکہ اللہ تعا لیٰ کسی شیخی خورے متکبر کو پسند نہیں کرتا۔ غرور اور تکبر وہ بدترین اخلاق رزیلہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہیں حتیٰ کہ نبینے فرما یا : ’’کسی کے دل میں را ئی کے دا نے کے برا بر بھی تکبر ہوگا تو جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘‘(احمد)۔ اللہ تعا لیٰ کو بندے کی عا جزی اور انکسا ری حلیمی اور خا کسا ری بہت ہی پسند ہے۔ نبیسے پو چھا گیا کہ ایک آدمی پسندکرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتا اچھا ہو تو کیا یہ بھی تکبر ہے ۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حسین ہے اور حسن و جمال (صفائی اور پاکیزگی ) کو پسندہ کرتا ہے، تکبر یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو حقیر سمجھے اور حق بات کو ٹھکرا دے۔
زمین پر نرم چال چلنا بھی اہل ایمان کی اہم صفت ہے۔ آدمی کی چال ڈھال دراصل اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اللہ کے بندے زمین پر سکینت اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں۔ بچوںکی اگر تعلیم و تربیت پر توجہ نہ دی جائے تو بعض اوقات مال دار لوگوں کے بچے اپنے رہن سہن ، لباس اور خوراک اور گاڑیوں وغیرہ کے متعلق دوسروں کے ساتھ فخر و مباہات کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جو آگے چل کر ان میں اپنی بڑائی اور دوسروں کی حقارت کی صفت کے طور پر جڑ پکڑ لیتی ہے اس لئے ہمیں بھی اپنے بچوں کو دوسروں کے ساتھ اچھے رویوں کی تلقین کرنا چاہیے۔ چال میں میانہ روی اور زبان میں شیرینی کے ساتھ اپنی آواز کو پست رکھنا بہترین اخلاق ہیں جس کی تاکید حضرت لقمان اپنے بیٹے کو کرتے ہوئے گدھے کی طرح ہانکنے یعنی خواہ مخواہ دوسروں پر دھونس جمانے کے لئے زور زور سے بولنے سے منع فرماتے ہیں ۔ بعض لوگ جب خلافِ مزاج کوئی بات سنتے ہیں یا غصے میں ہو تے ہیں تو آپے سے باہر ہو کر چیخ و پکار کرنے لگتے ہیں اور گالی گلوچ تک پہنچ جاتے ہیں جو ایک مومن کو ہر گز زیب نہیں دیتا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِن اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کا نمونہ بننے کی توفیق دے ، آمین۔

شیئر: