Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گائے کے نام پر

بی جے پی کا دوہرا معیار اس کے دوغلے کردار کو واضح کرتا ہے، اصل مقصد گئو کشی روکنا نہیں بلکہ اس کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے
* * * * * معصوم مرادآبادی * * * * *
وزیراعظم نریندرمودی نے گئو رکشا کے نام پر بڑھتے ہوئے تشدد کیخلاف ایک بار پھر زبان کھولی ہے۔ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس سے قبل آل پارٹی میٹنگ کے دوران انہوں نے جو کچھ کہا ہے، اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ملک میں گئو بھکتی کے نام پر جاری قتل وغارتگری اور ہجومی تشدد سے سخت نالاں ہیں اور اسے کسی بھی صورت میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ گائے کو ہمارے یہاں ماتا کہاجاتا ہے اور اس سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں لیکن لوگوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گائے کی حفاظت کیلئے قانون موجود ہے۔
قانون ہاتھ میں لینا قطعی برداشت نہیں کیاجائے گا۔ میٹنگ میں وزیراعظم نے یہ بھی کہاکہ نظم ونسق صوبائی حکومتوں کی اہم ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کو ایک ایڈوائزری بھی جاری کی جاچکی ہے کہ جولوگ ایسی حرکتیں کررہے ہیں اور ایسے جرائم میں ملوث ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ وزیراعظم نریندرمودی نے اس مسئلے پر زبان کھولی ہے بلکہ وہ اس سے قبل کم ازکم 4مرتبہ اسی قسم کا بیان دے چکے ہیں اور اس سے زیادہ سخت الفاظ بھی استعمال کرچکے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے سابرمتی آشرم میں گئو بھکتوں کو مہاتماگاندھی اور ونوبابھاوے کا حوالہ دے کر بھی مخاطب کیا تھا لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے اتنے سخت بیانات کا ابھی تک گئو رکشکوں پر کوئی اثر نظر نہیں آتا کیونکہ ملک میں اس قسم کی وارداتیں کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جارہی ہیں اور ان کی سنگینی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ملک بھر میں بھیڑ کے ہاتھوں ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر راجیہ سبھا میں کافی ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔
اپوزیشن رہنما غلام نبی آزاد نے الزام لگایا ہے کہ دلتوں اور اقلیتوں کیخلاف مجرمانہ واقعات مرکز میں حکمراں پارٹی کی شہ پر انجام دیئے جارہے ہیں اور ملک کا ماحول خراب کیا جارہا ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ باہمی رضامندی سے ان واقعات کو انجام دیا جارہا ہے کہ’’ ہم بیان دیں گے اور تم اپنا کام کرو۔‘‘ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ گئو رکشکوں کی دہشتگردی کا خاص نشانہ مسلمان ہیں، جنہیں گائے ذبح کرنے اور کہیں گائے کا گوشت کھانے کا مجرم قرار دے کر موت کے گھاٹ اتاراجارہا ہے۔ ملک میں ہجومی تشدد کی ایک ایسی نفسیات پیدا ہوگئی ہے کہ ملک میں جنگل راج کا سااحساس ہونے لگا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نظم ونسق صوبائی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے اور وہ اس معاملے میں کارروائی کرنے کی مجاز ہیں لیکن گائے کے تحفظ کی آڑ میں مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کا تعلق محض گئو بھکتی سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اس منافرت اور مسلم دشمنی سے ہے جس میں بی جے پی کی بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں جو حملے گاؤ کشی کی آڑ لے کر کئے گئے تھے ،وہ اب محض شبہ اور نفرت کی بنیاد پر کئے جارہے ہیں۔ پ
چھلے دنوں دہلی سے متھرا جارہی ایک ٹرین میں جواں سال حافظ جنید کا وحشیانہ قتل کرنے والے گئو رکشک نہیں تھے بلکہ وہ ٹرین کے عام مسافر تھے جن کے ذہنوں میں مسلمانوں کیخلاف اتنی نفرت بھری ہوئی تھی کہ انہوں نے نوجوانوں کی داڑھی اور ٹوپی دیکھ کر ان پر دھاوا بول دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سنگھ پریوار کے مکروہ پروپیگنڈہ کے سبب مسلمانوں کو حرفِ غلط سمجھتے ہیں اور انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اترپردیش کے مین پوری ضلع میں ایک ٹرین میں سفر کررہے مسلم خاندان کو جس بری طرح وحشت وبربریت کا نشانہ بنایاگیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس حملے میں عورتوں اور بچوں کو بھی بری طرح پیٹا گیا۔ اس قسم کی وارداتوں سے مسلمانوں میں زبردست خوف وہراس پھیل رہا ہے اور وہ سفر کرتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف مرکزی حکومت گئو بھکتوں کیخلاف کارروائی کرنے کیلئے صوبائی حکومتوں کو ایڈوائزری جاری کررہی ہے اور دوسری طرف گاؤ کشی کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت قانون نافذ کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ گزشتہ ماہ جب جھارکھنڈ میں 2مسلمانوں کو گئو کشی کے جھوٹے الزام میں انتہائی وحشت وبربریت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا تو صوبائی حکومت نے پولیس کو جہاں ایک طرف یہ احکامات جاری کئے تھے کہ حملہ آوروں کو فوری طورپر گرفتار کیاجائے تو وہیں دوسری طرف اس سے زیادہ سخت الفاظ میں گئوکشی کرنے والوں کیخلاف کارروائی کا حکم دیاگیا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کی منشا اس معاملے میں ٹھیک نہیں ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس روز گئو رکشا کے نام پر تشدد برپا کرنے کو ناقابل برداشت قرار دینے سے متعلق وزیراعظم کا بیان شائع ہوا ہے، اسی روز کے اخبارات میں یہ خبر بھی تفصیل سے آئی ہے کہ سرکار نے گائے کے پیشاب سمیت گائے سے متعلق مادوں اور ان کے فوائد پر سائنسی طورپر قانونی ریسرچ کرنے کیلئے 19رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں آر ایس ایس اور وشوہندوپریشد کے 3ممبران کو شامل کیاگیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن کی قیادت والی کمیٹی ایسے پروجیکٹ کا انتخاب کر ے گی جو نیوٹریشن ، صحت اور ایگری کلچر جیسے میدانوں میں گائے کے گوبر ، پیشاب ، دودھ،دہی اور گھی کے فائدے کو سائنسی طورپر تسلیم شدہ بنانے میں مدد کرے ۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ حکومت گائے سے متعلق مختلف پروگراموں پر اربوں روپے خرچ کررہی ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں چل رہی گئو شالاؤں کو کروڑوں روپے کی گرانٹ دی جارہی ہے۔ گائے کے اندر 90فیصد انسانی صفات کا سراغ لگانے والی حکومت کے نزدیک گائے کے نام پر بے گناہ انسانوں کے قتل پر اگر سرد مہری پائی جاتی ہے تو اس میں کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ملک کی کئی ریاستوں میں گئو کشی کیخلاف انتہائی سخت قانون بنائے گئے ہیں اور گئو کشی کرنے والوں کیلئے عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
سنگھ پریوار کے بعض عناصر گائے کا گوشت کھانے والوں کو سرعام پھانسی پر چڑھانے کا مطالبہ بھی کرچکے ہیں۔دوسری طرف بی جے پی کے اقتدار والی ریاست گوا کے وزیراعلیٰ یہ اعلان کررہے ہیں کہ ان کی ریاست میں بیف کے گوشت کی کمی نہیں ہونے دی جائیگی اور ضرورت پڑی تو کرناٹک سے منگوایا جائے گا۔ واضح رہے کہ گوا اور شمال مشرق کی ریاستوں کے عیسائی اور قبائلی باشندوں کی بنیادی خوراک بیف کا گوشت ہے جہاں بی جے پی اپنے سیاسی فائدے کے لئے اس کی کھلی چھوٹ دیتی ہے جبکہ شمالی ہند میں جہاں مسلمان کثیر تعداد میں گوشت کی تجارت سے وابستہ ہیں، وہاں گئو کشی سب سے بڑا جرم تصور کی جاتی ہے۔ بی جے پی کا یہ دوہرا معیار اس کے اصل دوغلے کردار کو واضح کرتا ہے۔ اصل مقصد گئو کشی روکنا نہیں بلکہ اس کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔

شیئر: