Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کامیابی دولت جمع کرنے میں ہے؟

نوجوان اپنی کہانی سناتا رہا اور کہتا رہا کہ اس جرم میں میرا والدبرابر کا شریک ہے، اس نے میری تربیت پر توجہ نہیں دی
*****عبد المالک مجاہد۔ریاض****
(گزشتہ سے پیوستہ)
نبیل نے بولنا شروع کیا: بھائی احمد تم کو کیسے بتائوں… عقل ماننے سے قاصر ہے۔ دل و دماغ اس کی تصدیق سے قاصر ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ آج صبح سویرے پولیس اسٹیشن سے فون آیا، پولیس آفیسر نے مجھے فوری بلوایا، میں نے سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ جب تم پولیس اسٹیشن آئو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ میں فوری طور پر وہاں پہنچ گیااور وہاں میں نے دیکھا، کاش! میں اس کو نہ دیکھتا اور جومیں نے سنا اے کاش! میں سننے کے لئے زندہ نہ ہوتا۔ میں نے تمہارے اکلوتے اور لاڈلے بیٹے کودیکھا، اس کے کپڑے پھٹے ہوئے، خون آلود، حالت نہایت ابتر، وہ پولیس آفیسر کے کمرے میں زمین پر اکڑوں بیٹھا ہواتھا، میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، میں نے پولیس آفیسر سے ماجرا پوچھا:کیا ہوا، یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں، پولیس آفیسر نے مجھے دیکھ کر اپنا منہ پھیر لیا، میرے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔
میں نے تمہارے بیٹے کی طرف دیکھا، اس نے مجھے دیکھا اور اچانک وہ کھڑا ہو گیا، میرے سینے سے لگ گیااوربے اختیار رونا شروع کر دیا، اونچی آواز میں، میں نے پوچھا: بیٹے بتائو تو سہی تم نے کیا کیا ہے؟ مگر وہ مسلسل روتا رہا۔ میں اس کو خاموش کرتا رہامگر اس کا رونا نہ تھما، میں نے پھر پولیس آفیسر کی طرف دیکھا کہ بتائوتو سہی، ہوا کیا ہے؟، بتاتے کیوں نہیں؟ میں بار بار کبھی تمہارے بیٹے سے پوچھوں ٗ کبھی پولیس آفیسر سے مگر تمہارا بیٹا تو مسلسل روتا رہا اور پولیس آفیسر خاموش، کوئی جواب نہیں، بار بار پوچھنے پر پولیس آفیسر نے جواب دیا اور جواب سننے کے بعدمیرے ہوش وحواس گم ہو گئے۔ اس نے کہا:تمہارا بھتیجا، یہ شہزادہ، یہ امیر زادہ ہیروئن پیتا ہے اور اس نے اپنی ماں کو قتل کر دیا ہے۔ احمد نے جب یہ سنا کہ اس کے اکلوتے بیٹے نے اپنی ہی والدہ کو قتل کر دیا ہے تو اس نے چیخ ماری،آہ، افسوس، ہائے، میری زندگی ختم ہو گئی، کیایہ ممکن ہے، ایک بیٹے نے اپنی مشفق ماں کو قتل کر دیا ہو۔
یہ کیا بن گیا ہے۔ یہ کیسے ہو گیا۔ اس کی ماں تو اس پر جان دیتی تھی۔ وہ تو اس کا اکلوتا لخت جگر تھا۔ اس کی آنکھوں کا تارا تھا۔ وہ تو اس کے بغیر چند گھنٹے نہیں گزارتی تھی۔ اس کی زندگی کا سہارا تھا۔ اس کا خواب، اس کا مستقبل،اب نبیل نے احمد کو اس حادثے کی تفصیل بتانا شروع کی۔ تمہارے اکلوتے فرزند نے کچن کی چھری سے اپنی ماں پر پے در پے وار کئے یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہو گئی،پھر وہ پولیس اسٹیشن آیا اور صرف دو جملوں میں کہا، میں فلاںکا بیٹا ہوں اور میں نے اپنی والدہ کو چھری سے قتل کر دیا ہے۔ تفتیشی آفیسر نے اس سے بہت سارے سوالات کیے مگر اس نے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا، پولیس نے اس کی تلاشی لی، اس کا میڈیکل چیک اپ کرایا تو اس کے کپڑوں سے ہیروئن کی پڑیا ملی۔
میڈیکل رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ وہ ہیروئن پیتا ہے۔ باپ نے زور و شور سے چلانا شروع کیا: میری رفیقۂ حیات ،وہ تو اپنے بیٹے اور مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتی تھی، اس نے ایسا کیوں کیا ؟ نبیل نے کہا: یہی تو وہ راز ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ ایک بیٹے نے اپنی ماں کو کیوں قتل کیا ہے، ممکن ہے جب تمہاری اپنے بیٹے سے بالمشافہ ملاقات ہو تو وہ تمہارے سامنے اس راز سے پردہ اٹھائے۔ اگلے دن پوسٹ مارٹم کی کارروائیوں کے بعد میت کو دفن کر دیا گیا۔ احمد نے اپنی بیوی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا، اس دوران پولیس والے اور صحافی مسلسل اس سے سوالات کرتے رہے، پورے شہر میں ایک کہرام بپا تھا،کوئی عام آدمی ہوتا تو اخبارات والے چند لائنوں کی خبر دیتے۔ یہاں تو ملک کا ممتاز صنعت کار ، ارب پتی آدمی کی بیوی کو اس کے بیٹے نے قتل کر دیا تھا۔ اخبارات نے صف اول پر اس خبر کو چوکھٹے میں شائع کیا۔ ایک اخبار نے اپنے خاص ذرائع سے اس حادثہ کی تفصیل شائع کی تھی،اخبار نے مختلف طبیبوں کی آراء کو شامل کیا اور ان کے انٹرویو کی روشنی میں جو کہانی شائع کی اس کا اختصار یہ تھا کہ جو شخص ہیروئن پیتا ہے، ایک ہفتہ کے اندر اندر کھوکھلا ہو جاتا ہے۔
یہ ایسا مرض ہے کہ جس کا علاج بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔ جسم کے اندر زہر پھیل جاتا ہے۔ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اس کو ماں یا بہن کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔ اس کو اچانک غصہ آتا ہے اور وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ جنسی طور پرکمزور ہو جاتا ہے۔ دورے کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ سستی و کاہلی کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ اس کی یادداشت یک دم کمزور ہو جاتی ہے۔ا سکول اور کالج کا کام کرنااس کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔ جب تک وہ نشہ کی حالت میں ہوتا ہے اس کو قدرے سکون ملتا ہے مگر جیسے ہی نشہ ٹوٹتا ہے، وہ اس کے حصول کے لئے سرگرداں ہو جاتا ہے۔ ہیروئن پینے والے شخص کے اندر اخلاق نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی۔ اس کے حصول کے لئے وہ ہر چیزکو فروخت کرنے ، چوری کرنے، کسی کو قتل کرنے پر بھی تیار ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے اپنی ماں، بہن، بیوی کی عزت کا سودا کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ یہ نوجوان چونکہ ہیروئن کا عادی مریض تھا کیونکہ اس کے کپڑوں کی تلاشی کے وقت اس سے ہیروئن برآمد ہوئی ہے جبکہ پولیس کو اس کے کمرے کی تلاشی کے وقت بھی ہیروئن ملی اور اس لڑکے کو ہیروئن خریدنے کیلئے رقم کی اشد ضرورت تھی، لہٰذا اس نے اپنی والدہ سے رقومات طلب کیں۔ اس کی والدہ جو کہ ایک ارب پتی کی بیوی تھی، اس نے اس کورقم دینے سے جب انکار کیا تو اس نے کچن سے چھری اٹھائی۔ اس وقت وہ نشہ کی حالت میں تھا، پہلے تو اس نے اپنی والدہ کو ڈرایا دھمکایا اور جب اس نے انکار کیا تو چھری سے پے در پے وار کر کے اس کو قتل کر دیا۔
اس کی والدہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ اس کا بیٹا اس کو قتل بھی کرسکتا ہے۔ اگراس کو ادنیٰ سا بھی شبہ ہوتا تو یقینا وہ رقم دے کر اپنے آپ کو قتل ہونے سے بچا سکتی تھی۔ ماں کے جسم سے جب خون کے فوارے ابلتے ہوئے دیکھے تو بیٹے کو جھٹکا لگا اور وہ نشہ سے باہر آیا مگر اس وقت تک حادثہ ہو چکا تھا، اس کی ماں کی روح پرواز کر چکی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنے آپ کو خود ہی پولیس کے سپرد کر دیا۔ اخبار نے مزید لکھا کہ اس حادثہ کا سبب کیا ہے؟ ایک پڑھی لکھی فیملی جس کا سربراہ ایک معروف کمپنی کا مالک ہے، ارب پتی ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے کاروبار، فیکٹریاں اور بنک بیلنس ہیں۔ دراصل اپنی فیملی پر توجہ نہ دے سکا۔ ایک سال قبل اس کے بیٹے کویونیورسٹی سے ہیروئن کے استعمال کے جرم میں نکال دیا گیا تھا۔
احمد نے اخبار میں لکھے ہوئے الفاظ کو بار بار پڑھا، اپنے آپ کو ٹٹولا کہ اس حادثے کا ذمہ دار وہ خود تو نہیں، اس نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں اپنے لاڈلے اور پیارے بیٹے سے ملاقات کروں اور اس جرم کی تفصیل خود معلوم کروں۔ اب وہ خود اپنے آپ سے مخاطب تھا،تم کہاں ہواے ارب پتی، تمہارا بیٹا یونیورسٹی سے ایک سال قبل ہیروئن استعمال کرنے کے جرم میں نکال دیا گیا تھا اور تمہیں معلوم تک نہ تھا، تمہارا بیٹا نشہ کر رہا تھااور تمہیں معلوم تک نہ تھا، اس کی سوسائٹی، اس کے دوست، تم نے کبھی معلوم کرنے کی کوشش نہ کی، تم کہاں ہو۔ یہ مال و دولت جو تم نے جمع کی ہے اب تمہارے کس کام کی ہے۔کیا تھوڑی سی دولت تمہارے لئے کافی نہ تھی۔
اولاد کی تربیت، گھر کی دیکھ بھال اس سے کہیں اہم تھی، مال و دولت کی کثرت، اس کی محبت میں غرق ابن درہم اور دینار۔ ادھراکلوتا بیٹا نشے کا ، ہیروئن کا عادی،بیچاری ماں، میں دولت کے نشے کا، ایک بے گناہ عورت کا قتل، مال آیا، فیملی برباد ہو گئی، ماں کا قتل، بیٹا جیل میں اور میں مسلسل عذاب میں۔ باپ اور بیٹے کی حوالات میں ملاقات بڑی ہی دردناک تھی۔ ہیڈ وارڈن نے دروازہ کھولا، باپ بیٹا آمنے سامنے، طویل خاموشی، ایک حسرت ناک ملاقات،کہاں سے گفتگوکا آغاز ہو،کیا کہیں۔ بیٹے نے اپنی طاقتوں کوجمع کیا، باپ سے ملاقات ہوئے کئی ماہ گزر چکے تھے، پوچھا:بیرون ملک سے کب آئے؟ باپ نے بمشکل جواب دیا:2 دن قبل۔بیٹا گویا ہوا:واپس کب جائو گے؟باپ نے کہا:ممکن ہے اس ملاقات کے فوراً بعد۔بیٹے نے بڑی حسرت اور ندامت کے ساتھ پوچھا: کہاں جائو گے؟ باپ نے اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے کہا: تمہاری پیاری ماں کے پاس۔ دونوں دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ بیٹابولا:میرے پیارے ابو، مجھے آپ کی آغوش کی ضرورت ہے، مجھے سینے سے لگائیں۔ ایک مدت سے میری تمنا تھی کہ میں آپ کے پاس بیٹھوں، آپ سے باتیں کروں۔
جب بھی آپ سے ملنے کی تمنا اور خواہش کی، آپ عموماً سفرپر ہوتے یا آپ کی نہ ختم ہونے والی میٹنگز، آپ دولت کے پیچھے لگے رہے ، مجھے بری سوسائٹی مل گئی۔ غلط دوست ،شیطان کے پجاری، انہوں نے اپنے گھروں کے دروازے میرے لئے کھو ل دیے، پھر میں اپنا دین، ایمان، اخلاق، سب کچھ بھول گیا، ان گھروں میں ہم نے سارے شیطانی کام کیے۔ آپ کی بے پناہ دولت اس کام کے لئے بڑی مفید اور کارگر تھی۔ دوستوں کو بھی اسی سے غرض تھی چنانچہ میں فسق و فجور میں ڈوبتا چلا گیا۔پھراس نے اپنے آنسو پونچھے اور کہا:ہاں ابا جان !مجھے اعتراف ہے کہ میں نے اپنی ماں کو قتل کیا ہے، میں مکمل طور پر اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ جب ہوش آیا تو ہر چیز ختم ہو چکی تھی۔جب میری ماں کے مقدس جسم سے خون کا فوارہ نکلاتو میرے اوپر خوف طاری ہوا، پھر جنون طاری ہوااور پھرمیں چھری کے وار کرتا گیا، پے در پے، ہاں میری ماں اس کی ہر گز مستحق نہ تھی، کبھی بھی مستحق نہ تھی۔ ابو جان! مجھے رونے دیجیے ۔ آج مجھے اپنے سینے سے لگائیں ، میرے غموں کا مداوا بن جائیں۔
ہاں کبھی مجھے اکیلا نہ چھوڑنا، کاش!آپ ہمارے درمیان رہتے تو یہ حادثہ کبھی نہ ہوتا۔ چند منٹ کی خاموشی کے بعد اس نے داستان غم پھر سے سنانی شروع کی۔ اس دوران احمد سوچتا رہا،میں اس کو کیا جواب دوں ،اس کے ساتھ کیا سلوک کروں، محبت اور پیار کا سلوک کروں، اس بیٹے کے ساتھ، جس نے میری شریک حیات کو ،میری پیاری بیوی کو، جو اس کی اپنی ماں تھی ، جس نے اس کودودھ پلایا، اس کی پرورش کی، جس کے بغیر اس کا گزارا نہیں ہوتا تھا،قتل کردیاہے؟! بیٹے نے حادثے کی تفصیل سناتے ہوئے کہا: گزشتہ 2سال سے میں ہیروئن سے متعارف ہوا۔ مجھے میرے غلط دوستوں نے بتایا، اس سے تم اپنے تمام غم ٗ مشکلیں اور پریشانیاں بھول جائو گے ٗ تمہیں جنسی طاقت ملے گی، سرور ٗ کیف ٗ نشہ ٗ ایک نئی دنیا مگر اس کو استعمال کرنے کے بعد نتیجہ بالکل مختلف تھا۔ اپنے آپ سے بیزار ٗ مسلسل تھکن ٗ نیند کا غلبہ، قوت ارادی ختم ہو گئی ٗ حافظہ کمزور ہو گیا ٗ جسم میں طاقت ختم ہو گئی۔
اپنے بیگانے کی پہچان ختم ٗ سوچنے کی طاقت ختم،میرے ساتھی جو اس گندے کھیل میں میرے شریک کار تھے ٗ ان کی حالت بھی مجھ سے مختلف نہ تھی، کتنے ایسے تھے جن کا کاروبار ختم ہو گیا ٗ مسلسل نقصان ٗ جو ملازم پیشہ تھے ان کی ملازمت چھوٹ گئی ٗ جو کالجوں میں طالب علم تھے ان کی تعلیم ختم ہو گئی۔ یونیورسٹی و کالج سے نکال دیے گئے،ہمارے سامنے ایک ہی ہدف تھا۔ رقم کا حصول ٗ پیسے کی تڑپ تاکہ اس سے ہیروئن خرید سکیں۔افسوس میں نے اپنی ماں کو کتنا دھوکہ دیا، گھر سے کتنی بار چیزیں چوری کیں ٗ کتنے جھوٹ بولے۔ وہ بیچاری مجھ پر اندھا اعتماد کرتی رہی ٗ میرے جھوٹ کو سچ جانتی رہی۔ جب بھی مانگا اس نے انکار نہ کیا ٗ میں نے اس کے ساتھ کتنا فراڈ کیا۔ پھر ایک دن اس کے سامنے میری حقیقت کھل گئی۔ اس کو معلوم ہو گیا کہ میں اس رقم کا کیا کرتا ہوں۔ وہ ناراض ہوئی ٗ اس نے دھمکیاں دیں،میں تمہارے والد کو بتائوں گی، اس نے کتنا سمجھایا ٗ محبت سے ٗ پیار سے۔ کبھی ناراض ہوئی ٗ کبھی گلے سے لگایا مگر میں اس کی تمام تر باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا رہا۔ اس نے مجھے بڑے پیار سے کہا، تم ہسپتال میں داخل ہو جائو ٗ وہاں تمہارا علاج کراتی ہوں، میں نے انکار کر دیا، پھر اس نے سختی سے کہا مگر میں نے ہر دفعہ علاج کرانے سے انکار کیا۔ عورت آخر عورت ہے ٗ ہر چند کہ میری والدہ تھی مگر بہرصورت ایک کمزور عورت تھی، وقت کے ساتھ میں نشہ کا اور زیادہ عادی ہوتا گیا۔ ہیروئن خریدنے کے لئے مجھے رقم کی زیادہ ضرورت ہونے لگی تھی۔ میری والدہ نے اب مجھے رقم دینا بند کر دیا ٗاس کا رویہ سخت ہوتا گیا، وہ ہر حالت میں میری اصلاح چاہتی تھی۔ نوجوان تھوڑی دیر کے لئے رکا اور پھر اس کی زبان چل پڑی:جس دن میں نے اس جرم کا ارتکاب کیا اس روز مجھے اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے ہیروئن خریدنی تھی۔
میں نے والدہ سے ایک ہزار پونڈ مانگے، میںنے جھوٹ بولا کہ میری گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے مگر اس کو خوب معلوم تھا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں، چنانچہ اس نے مجھے رقم دینے سے قطعی انکار کر دیا۔ اب میرے ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ اور خیال آیا۔ میں نے والدہ سے کہا: دیکھو! اگر تم نے مجھے رقم نہ دی تو میں اپنے والد کو بتائوں گا کہ تمہارے کسی شخص کے ساتھ غیر اخلاقی تعلقات ہیں۔ والدہ سخت ناراض ہوئیں،تمہیں یہ الزام لگاتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ میں تمہاری والدہ ہوں۔ اس نے غصے میں آکر میرے منہ پر تھوک دیا۔اس جھوٹے اور شیطانی منصوبے کو میں نے واقعی حقیقی طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔اس وقت ہیروئن کا نشہ میرے اوپر طاری تھا۔ میرے اوپر ایک دورے کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ میں نے دیکھا کہ میری والدہ واقعی کسی غیر مرد کے ساتھ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مبتلا ہے، ایسی خائن اور بدکار عورت کا اب اس دنیامیں رہنے کا کوئی جواز نہیں،ٗ اب اس کو مر جانا چاہیے ٗ موت کی حقدار ہے کہ اس نے اپنے خاوند کے ساتھ بے وفائی کی ہے چنانچہ اس خیال کے زیر اثر میں کچن میں داخل ہوا۔ گوشت کاٹنے والی چھری سامنے پڑی تھی ٗ میں نے اس کو اٹھایااور تیزی سے باہر نکلا ٗ میری والدہ غصے کی حالت میں بڑبڑا رہی تھی’فوراً ایک ہزار پونڈ نکالو، میں نے چھری اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
اس نے انکار کیا، میں نے پوری طاقت سے چھری سے اس پر وار کیا ٗ میرے ہوش و حواس کھو چکے تھے ٗ پھر میں نے کئی وار کیے، پے در پے، اس کے پاکیزہ جسم پر۔ وہ چیختی اور چلاتی رہی ٗ مدد کے لئے پکارتی رہی، اس طرح وہ شریف اور عفیف ماں میرے غلیظ ہاتھوں سے قتل ہو گئی۔ بیٹے نے یہ دردناک کہانی ختم کی، والد نے نفرت اور غصے کے ساتھ اپنا منہ پھیرا اور حوالات سے تیزی سے باہرچلا گیا۔ جیلر نے حوالات کے دروازے کو بند کیا۔ نوجوان نے ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو اکیلا محسوس کیا۔ اس نے اپنے باپ کو پکارا:ابو، ابو، میری بات تو سنیں،مجھے اکیلا نہ چھوڑیں، مجھے ڈر لگ رہا ہے، یہ مجھے ماریں گے، پھانسی کا پھندہ مجھے قریب نظر آرہا ہے۔باپ نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر پکارا، پھر آواز دی، کوئی جواب نہیں، اب اس نے پوری قوت سے آواز دی:ابو، اصل ذمے دار تم ہو، اباجان! اس سانحے کی ذمہ داری تم پر ہے، تم ہی اس کے ذمے دار ہو۔ اس طرح یہ نوجوان تمام ملاقاتیوں کو ٗصحافیوں کو اپنی کہانی سناتا رہا اور اس کی ذمہ داری اپنے والد پر ڈالتا رہا۔
اس جرم میں میرا والدبرابر کا شریک ہے۔ اس نے میری تربیت پر کبھی توجہ نہیں دی، سبب تو وہ بنا۔ نوجوان پر مقدمہ چلانے کی نوبت ہی نہ آسکی، چند دن کے بعد وہ مکمل طور پر پاگل ہو چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کو پاگل خانے بھجوا دیا۔ پاگل خانے میں اس کو جو بھی ملتا وہ یہی کہتا : ’’ میرا باپ ذمہ دار ہے۔ میری والدہ تو دنیا کی سب سے محترم خاتون تھیں۔‘‘ قاہرہ میںدقی نام کا ایک محلہ ہے۔ اس کے درمیان ایک خوبصورت سی مسجد ہے۔ قارئین اگر کبھی آپ کو اس مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہو تو وہاں آپ کو سفید لبادے میں ایک شخص ملے گا، سامنے رحل پر قرآن پاک اور وہ اس کی تلاوت کرتا ہوا،تلاوت کے بعد وہ ہاتھ اٹھائے لمبی دعا مانگتا ہے: ’’اے میرے رب!مجھے معاف کر دے، میری مغفرت فرما۔ میں نے اپنی بیوی اور بیٹے کے حقوق میں جو کوتاہی کی ہے اسے معاف فرما۔ یہ شخص احمد ہے۔ کروڑ پتی ٗ مشہور بزنس مین ٗ صنعت کار۔
اپنی ساری جائیداد اس نے وقف کر دی ہیروئن کو ختم کرنے والے ادارے اینٹی نارکوٹکس کے نام، اپنا ٹھکانا مسجد میں بنا لیا۔ نماز ٗ روزہ اور قرآن کی تلاوت میں شب و روز گزارتا ہے۔ اگر کبھی اتفاق سے آپ اس کے ساتھ نماز ادا کریں تو وہ بڑی محبت سے ہاتھ ملائے گا ٗ تھوڑا وقت مانگے گا اور پھر پوری تفصیل سے یہ قصہ ٗ یہ سانحہ آپ کے گوش گزار کرے گا۔
قارئین کرام! اس عبرتناک واقعے کے اندر ہمارے لئے کتنے ہی دروس اور اسباق موجود ہیں۔ دن رات دولت کے پیچھے بھاگنا، دنیا کی اندھی ہوس میں مبتلا رہنا، بری سوسائٹی اختیار کرنا، بچوں کو مناسب وقت نہ دینا اور ان کی نگرانی سے غفلت کرنا ، بیوی اور رشتہ داروں کے حقوق بھول جانا، جب ایسی قباحتیں اور غلطیاں انسان سے سر زد ہوتی ہیں تو پھر اس کے نتائج وہی نکلتے ہیں جو آپ اس کہانی میں پڑھ چکے ہیں۔

شیئر: