Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احساسِ عدم تحفظ خون میں ہے

ہمارا دماغ سوائے اسکے کچھ اور کیوں نہیں ہوسکتا کہ جو ہاتھ لگتا ہے لے اڑو کل کس نے دیکھا
* * * *وسعت اللہ خان * * *
جیسے ہی سینما میں کسی مقبول فلم کے پہلے شو کیلئے ٹکٹ بابو کی کھڑکی کھلتی ہے لائن ٹوٹ کر جمگھٹے میں بدل جاتی ہے اور ایک ساتھ 8 مٹھیاں کھڑکی کے چھوٹے سے موکھے میں گھسنے کی کوشش کرتی ہیں اور دھینگا مشتی بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ لات مکی میں بدل جاتی ہے مگر اس عمل کے دوران جن کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں یا منہ چبے ہوجاتے ہیں وہ بھی اسی ہال میں انہی کے برابر فلم سے لطف اندوز ہوتے ہیں جنہیں بغیر لائن توڑے بھی ٹکٹ مل گیا تھا۔ جیسے ہی ٹرین آتی ہے ہر مسافر سر پے سامان رکھ کے لپکتا ہے مگر جو مسافر ڈبوں کے اندر پہلے ہی کھچاکھچ ہیں وہ اوروں کو گھسنے نہیں دیتے چنانچہ کوئی کھڑکی کے ذریعے اندر کودنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی 2بوگیوں کو جوڑنے والے پائپ پر کھڑے ہو کر مطلوبہ ڈبے میں گھسنے کی اسکیم لڑاتا ہے تو کوئی آہستہ آہستہ پلیٹ فارم چھوڑنے والی ٹرین کے دروازوں سے لٹک جاتا ہے تو کوئی جاتی ٹرین کو کھڑا کھڑا گالیاں دیتا رہ جاتا ہے۔
وہ مسافر جو کسی نہ کسی طرح اندر پہنچ جاتے ہیں 3,2 اسٹیشن گزرنے کے بعد وہ بھی اگلے اسٹیشنوں پر ڈبے میں چڑھنے والے مسافروں کو ویسے ہی روکتے ہیں جیسے خود انہیں پچھلے اسٹیشنوں پر ڈبے میں گھسنے سے روکا گیا تھا۔ جیسے ہی شادی کے کھانے کی ا سٹیل ڈشوں کے نیچے بیرے ا سپرٹ لیمپ روشن کرتے ہیں،مشاق کھلاڑی کھانے سے سجی طویل میز کی جانب آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کردیتے ہیں اور جیسے ہی بیرے ٹنا ٹن کی آواز کے ساتھ ڈھکن اٹھاتے ہیں پہلا دستہ تیزی سے پیشقدمی کرتے ہوئے ڈشوں میں پڑے کفگیروں پر قبضہ کرکے اچھی اچھی بوٹیوں کا پہاڑ اپنی پلیٹ میں بنا کر وہیں کھڑا کھڑا کھانا شروع کردیتا ہے اور باقی ہجوم کے حصے میں محض شوربا اور ہڈیوں سے لگا تھوڑا سا گوشت ہی رہ جاتا ہے۔کچھ منچلے تو پوری پوری قاب اغوا کر کے اپنی میز تلک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔یوں کچھ پروفیشنل مہمانوں کے پیٹ حلق تک بھر جاتے ہیں ، کچھ صرف بھوک ہی مٹا پاتے ہیں اور کئی بھوک بھی نہیں مٹا پاتے اور گھر جا کے کھانا زہرمار کرتے ہیں۔ جیسے ہی امدادی اشیا کا ٹرک آتا ہے تومسٹنڈے مصیبت زدگان کمزور مصیبت زدوں کو پیچھے دھکیل کر ٹرک گھیر لیتے ہیں،رضاکارو ں کو بھی چونکہ واپسی کی جلدی ہوتی ہے لہذا وہ ہر بڑھے ہوئے ہاتھ کو مستحق فرض کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ تھما کر نکلنے کی سوچتے ہیں۔جسکے ہاتھ جو لگتا ہے وہ تو لگتا ہی ہے مگر وہ دوسرے سے بھی مزید کمبل ، خوراک یا برتن جھپٹنے کی کوشش کرتا ہے۔کمزور مصیبت کے مارے دور کھڑے بے بس آنکھیں پٹپٹانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔
جب باپ مرتا ہے تو تیسرے دن سے سگے بہنوں اور بھائیوں کی آنکھیں بدلنی شروع ہوجاتی ہیں۔ترکے کے بٹوارے کے بارے میں سوچ سوچ کر خون پتلا اور پھر سفید ہونے لگتا ہے۔اچھا برا بچپن ساتھ گزارنے والے یہ بچے ٹکے کی چند فانی اشیا ء حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کو چھیدنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یاد ہے! جب مشرقی پاکستان ساتھ تھا ؟ 25 برس تک وہ چیختے رہے ہمیں ہماری سیاسی نمائندگی کے برابر حقوق دو ، ہمارے وسائل پہلے ہم پر خرچ کرو اور پھر وفاق پر ، ہم تم سے تمہاری کپاس کا پیسہ نہیں مانگتے ،بس ہمارے پٹ سن اور چاول کا پیسہ ہم پر لگا دو ، بنگالی ثقافت کو بھی پاکستانی ثقافت ہی سمجھو ، بنگالی بولنے والے بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے اردو بولنے یا سمجھنے والے۔
ہزار میل کے فاصلے کو گھٹا کر سو میل کرو۔ایسا نہ ہو کہ یہ ایک لاکھ میل لگنے لگیں۔انگریز سے ملی آزادی سب میں برابر بانٹو۔ہم نے گوروں کی زنجیریں اسلئے نہیں توڑی کہ ان کے بدلے کالوں کی غلامی میں آجائیں۔ مگر ہمارا جواب کیا تھا؟یہی نا ںکہ ان پستہ قد ، کالے ، غلط اردو بولنے والے مچھلی چاول کے گولے بنا کر نگلنے والے ، ہندو ثقافت کے اسیر نام نہاد مسلمان مخلوق کو ہم شلوار قمیض پہناکر جناح کیپ اوڑھاکر ایک دم سچا پاکستانی بنا کے دم لیں گے۔ایسے پاکستانی جو اپنے حقوق کے بارے میں بھول کر صرف وفاق کے اشاروں پر چلیںاور پھر آپ نے دیکھا کہ کیا ہوا ؟ قرار دادِ پاکستان پیش کرنے والے بنگالیوں کیلئے ہی پاکستانیت ایک گالی ہوگئی۔ آخر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہمارا یہ طرزِ عمل کیوں ہے ؟ اتنے جھٹکے کھانے کے باوجود سوچ میں تبدیلی کیوں نہیں آتی؟ہمارا احساسِ عدم تحفظ کم ہونے کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی کیوں جا رہا ہے؟ہمیں اپنی ناک سے آگے دیکھنا کیوں نہیں سکھایا جاتا یا ہم اس صلاحیت سے ہی محروم ہیں ؟ ایسی کیا نفسیاتی پیچیدگی ہے کہ ہماری نیت ہمیشہ ہماری ضرورت سے آگے ہی رہتی ہے اور قربانی ، کشادہ قلبی ، نفس پر قابو ، ہمسائے کے حقوق کے بارے میں ہوش سنبھالنے سے لے کر قبر تک سنتے سنتے کان پکنے کے باوجود ہمارے رویے ہمارے ہی شاندار لفظی قلابوں کا منہ چڑاتے رہتے ہیں۔ پنجاب میں پرانے لوگ آج بھی یہ محاور بولتے ہیں ’’ کھادا پیتا واہے دا ، باقی احمد شاہے دا ‘‘،یعنی جو کھا پی سکتے ہو وہی تمہارا ہے جو بچ گیا وہ احمد شاہ ( ابدالی ) لُوٹ کر لیجائیگا۔اس ایک مثال سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے احساسِ عدم تحفظ کے تاریخی برگد کی جڑیں اس جغرافیے میں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں اور ہمارا دماغ سوائے اسکے کچھ اور کیوں نہیں ہوسکتا کہ جو ہاتھ لگتا ہے لے اڑو کل کس نے دیکھا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں