Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ چلتے چلتے یاد آیا رستے میں،بچپن رکھ کے بھول آیا ہوں بستے میں‘‘

اس قدر مہنگائی میں اب لینا چاہتا ہوں، وہ لمحہ جو خرید نہ سکا تھا سستے میں۔۔!
* * خالد مسعود ،ریاض* * *
(پہلی قسط)
جب میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو ایک بوسیدہ مکان میں پایا۔۔۔ آنگن میں ایک کنواں بھی تھا جس میں ڈول ڈال کر کبھی اماں تو کبھی خالہ کو رسی سے پانی کھینچتے دیکھا جس سے پانی کی ضروریات پوری ہوتی تھیں۔۔۔کھانا پکانا ہو۔۔۔ نہانا ہو۔۔ کپڑے د ھونے ہوں، پانی ڈول کھینچ کر نکالا جاتا۔۔۔۔ تب زندگی اتنی آسان نہ تھی جتنی آج ہے۔۔گھر میں والدہ تھیں ،چچی تھیں جو میری خالہ بھی تھیں جنھیں میں امی کہتا تھا ۔میری خالہ کو میری چچی بننے کی وجہ یہ بنی کہ میرے چچا جنھیں میں ابی کہتا تھا۔ میرے والد سے بے حد محبت کرتے تھے اس لئے ان کا خیال تھا کہ ایک گھر میں 2 بہنیں ہوں گی تو ہم سب ساتھ رہیں گے اورگھر ٹوٹے گا نہیں۔۔اس طرح ہم دونوں بھا ئی کبھی جدا نہیں ہونگے۔
آج یہ محبت ناپید ہے۔۔ساتھ میں دادا، دادی جان تھیں، میری 2 پھوپھی اور سب سے چھوٹے میرے چچا جو طالب علم تھے اس طرح ہماری جوائنٹ فیملی تھی۔۔میری دادی جان مجھے اپنے ساتھ سلاتی تھیں کیونکہ جب تک میں ان سے قصے کہانی سن نہیں لیتا تھا سوتا نہیں تھا ۔دادی جان جب تکئے پر سر رکھتیں تو میں اکثر دیکھتا ان کے سر کے درمیان بالوں کا کافی بڑا حصہ غائب ہے ۔
جس میں گہرے زخم کا نشان نظر آتا ،ایسا ہی نشان میں نے اپنے چھوٹے چچاکے سر پر بھی دیکھا۔۔میرا معصوم ذہن اکثر یہ سوچتا کہ یہ کیسا نشان ہے۔۔۔ ؟۔۔۔آخر میں نے ایک دن دادی جان سے پوچھ ہی لیا تب انھوں نے بتایا کہ بیٹا یہ پاکستان بنتے وقت کی نشانی ہے۔۔ ہم نے یہ ملک جان' مال' اولاد کی قربانی دے کر حاصل کیا ہے ۔۔۔ بیٹا۔۔۔!!!! جب پاکستان کا مطالبہ زور پکڑ گیا تو ہندو بلوائیوں نے ہمارے گاؤں ’’ہرلا‘‘ جو صوبہ بہار میں تھا پر اچانک حملہ کر دیا۔زیادہ تر مرد اس وقت روزگار کے سلسلے میں گاؤں سے با ہر تھے جو موجود تھے انھوں نے بلوائیوں کا مقابلہ کیا ۔گاؤں کی جوان عورتوں کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اپنی عزت بچانے کیلئے گاؤں کے کنویں میں چھلانگ لگا دینا مگر خود کو ہرگز ان کے حوالے نہ کرنا۔۔۔!!اس طرح کنواں جوان لاشوں سے بھر گیا تھا اور مجھے ( دادی جان ) اور چھوٹے چچا کو مار کر گندم کے کھیت میں پھینک دیا گیا تھا۔۔۔ اس وقت چچا کی عمر چند ماہ کی تھی۔۔۔اللہ نے زندگی دی تھی۔۔۔ جب امداد آ ئی تو ہم لوگ زخمی حالت میں پائے گئے ۔اس طرح ہمارا خاندان لٹا پٹا زخمی حالت میں ہجرت کرکے مشرقی پاکستان کے شہر راجشاہی پہنچا۔۔۔! چونکہ صوبہ بہار مشرقی بنگال کے قریب تھا اس لئے صوبہ بہار کے زیادہ تر لوگوں نے مشرقی پاکستان کی طرف ہجرت کی اور اس بوسیدہ گھر میں رہائش اختیار کی جو ہندو چھوڑ کر گئے تھے اور وہ گھر اب ہمیں حکومت کی طرف سے بطور رہائش فراہم کیا گیا تھا۔ میرے والد اور چچانے معمولی کاروبار سے اپنی زندگی شروع کی۔پہلے اخباروں کی ایجنسی لی۔ پھر بک شاپ کھولا اور اسطرح ترقی کرتے ہوئے شہر کے اکلوتے بڑے بک سیلر اور نیوز ایجنٹ بن گئے۔۔۔اور ہم اللہ کی رحمت سے بوسیدہ مکان سے نکل کر ایک نئے اور بڑے مکان میں آگئے جو میرے والد اور چچانے مل کر بنایا تھا۔ اسطرح ہم سب بھائی ،بہن اور کزن اس نئے مکان کے سائے تلے شیر و شکر ہوکر رہنے لگے۔آج کہ دور کو دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے وہ خلوص اور محبت سب خواب ہوگئے۔
* چلتے چلتے یاد آیا رستے میں *بچپن رکھ کے بھول آیا ہوں بستے میں اس قدر مہنگائی میں اب لینا چاہتا ہوں، وہ لمحہ جو خرید نہ سکا تھا سستے میں۔۔! ہمارے محلے کے آس پاس ہماری طرح چند گھر اردو بولنے والے مہاجروں کے تھے بقیہ یہاں کے اصل باشندے بنگالی تھے۔ ہم سب محلے میں اکھٹے کھیلتے اور سارے پڑوسی ایک خاندان کا درجہ رکھتے تھے۔ محبت و خلوص کے ساتھ رہتے تعصب نام کی کو ئی چیز نہیں تھی ۔ ہم سب کی پہچان صرف ایک پاکستانی کی تھی۔۔۔۔
(باقی آئندہ)
- - - - - - - - -- - - -
(نوٹ:محترم قارئین : ہمارا نیا سلسلہ جاری ہے جس کا عنوان ہے ’’میرابچپن‘‘۔ہر انسان کا بچپن سہانا ہوتا ہے کچھ تلخ یادیں بھی ہوسکتی ہیں مگر بچپن کی معصومیت ان پر حاوی ہوجاتی ہے ہم چاہتے ہیں کہ آج کے بچے اور نوجوان آپ کے بچپن کی اٹکھیلیاں،شرارتیں،تہذیب اور عزت سے اپنے لئے کچھ سیکھ سکیں
لہٰذا آپ بھی اس سلسلے میں شامل ہوجائیں اور ہمیں اپنے بچپن کے واقعات لکھ کر بھیجیں ۔زبان اور الفاظ کی بے ترتیبی ہم خود ہی سنوار لینگے،تصاویر بھی ہوں تو زیادہ اچھا ہوگا۔ہم سے رابطہ کریں [email protected]یا 00923212699629 )

شیئر: