Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرقی پاکستان میں بہاری بنگالی کی تفریق بچپن سے دیکھی

6ستمبر 1965ء کو مغربی پاکستان پرہند کے اچانک حملے کے بعد مشرقی پاکستان میں کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات چادر پھیلائے اپنے فوجی بھائیوں کیلئے امداد جمع کرتے رہے،اسپتالوں میں خون کا عطیہ کرنے والوں کی لمبی قطاریں دیکھیں
* * * خالد مسعود،ریاض* * *
(چوتھی قسط)
اس طرح ہم محلے کے لڑکوں کے ساتھ گروپ کی شکل میں اسکول آتے جاتے ۔ ہمارے محلے کا لڑکا موسیٰ جو کسرتی جسم کا مالک اور طاقتور تھا ہم اسکے ساتھ چلتے ہوئے بہت فخر محسوس کرتے۔ بہاری ' بنگالی کی تفریق ہم نے بچپن سے دیکھی تھی۔ کبھی راستے میں کسی کی شرارت کی وجہ سے اگر لڑا ئی ہو جاتی تو موسیٰ ہمارے کام آتا ۔وہ اکیلے ہی لڑتا جبکہ بنگالی لڑکے اپنے کسی ساتھی کو پٹتا ہوئے دیکھتے تو وہ بھی ان کی مدد کے لئے لڑا ئی میں شامل ہو جاتے لیکن ہم اردو بولنے والے صرف کھڑے تماشہ دیکھتے ۔موسیٰ اکیلے سب کا مقابلہ کر رہا ہوتا۔ میں اکثر اس رویئے پر غور کرتا لیکن میری سمجھ میں یہی آتا کہ شاید لڑنے والے طاقتور ہوتے ہیں اور کمزور صرف تماشہ دیکھنے کیلئے۔
ہمارے اسکول کے ایک نہایت شفیق اور پیار کرنے والے استاد منظر صاحب بھی بہت یاد آتے ہیں۔ سر منظر ہمیں اسلامیات پڑھاتے تھے ۔اکثر نبی کی سیرت بیان کرتے وقت آ بدیدہ ہو جاتے اور کبھی تو انکی ہچکی بندھ جاتی۔ انکا لیکچر اتنامتاثرکن ہوتا کہ اسلامیات کی کلاس کا ہم بے چینی سے انتظار کرتے۔۔سر امتیاز ' سرجمال 'سر فیروز اور سرانصاری سب ہی بہت محنت سے ہمیں پڑھاتے ۔
پاکستان کیا دولخت ہوا سب بچھڑ گئے ۔نہیں معلوم کون کہاں ہے۔ کون زندہ اور کون اللہ کو پیارا ہو گیا۔۔، مجھے یاد ہے کہ مشرقی پاکستان میں 14 اگست اور 23 مارچ بہت دھوم دھام سے منایا جاتا ہر گھر میں چراغاں ہوتا۔پاکستانی پرچموں کی بہار ہوتی ۔14اگست کو صبح ہوتے ہی سب سے پہلے ہم اپنے گھروں پر پاکستان کا پرچم لہراتے جو پہلے سے ہمارے پاس بحفاظت تہہ کیئے رکھا ہوتا۔۔۔اسطرح پورا شہر راجشاہی پاکستان کے پرچموںسے سجا ہوتا۔میں اسکائوٹ میں شامل تھا ۔14 اگست کی صبح اسکائوٹ کا لباس پہن کر اسکول جاتا پھر ہمیں شہر کے مرکزی مدرسہ میدان میں لے جایا جاتا جہاں سارے اسکول کے اسکائوٹ جمع ہوتے۔شہر کے عمائدین اور کمشنر صاحب پرچم کشا ئی کرتے اور پریڈ کی سلامی لیتے اور اسطرح قومی ترانے پر پروگرام کا اختتام ہوتا۔ 23مارچ کا پروگرام بھی اسی ترتیب سے ہوتا۔۔
رات ہوتے ہی سارے گھروں سے جھنڈے اتار دئیے جاتے کہ جھنڈے کی بے حرمتی نہ ہو۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں لوگوں کے دلوں میں قومی پرچم کا کتنا احترام تھا ۔آج اسطرح کا احترام ناپید ہے۔یہ جوش و خروش علیحدگی کے بعد موجودہ پاکستان میں ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ویسا ہی جوش وخروش نظر آیا ورنہ اس سے پہلے 14 اگست اسطرح گزر جاتا کہ ہمیں احساس بھی نہیں ہوتاتھا۔خدا کا شکر ہے کہ یہ روایت اب تک برقرار ہے۔۔
6ستمبر 1965ء میں جب ہندوستان نے مغربی پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا اس وقت ہم ساتویں کلاس میں تھے ۔7ستمبر کی صبح اسکول سے واپسی پر ہم نے دیکھا کہ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات چادر پھیلائے اپنے فوجی بھائیوں کیلئے امداد جمع کررہے ہیں اور ہر کو ئی اپنی بساط کے مطابق جھولی میں رقم ڈالتے جارہا ہے۔ہسپتالوں میں اپنے فوجی بھائیوں کیلئے خون کا عطیہ کرنے والوں کی لمبی قطاریں دیکھیں۔۔ہر محلے میں شہری دفاع کی تربیت دی جا نے لگی۔بلیک آئوٹ میں اور سائرن بجنے کی صورت میں احتیاطی تدابیر کیا کر نی ہے سب بتایا جاتا میں نے یہ بھی دیکھا کہ رات میں محلے کا ایک ہندو گھر سے باہر نکل کر سگریٹ پی رہا تھا تو لوگوں نے مار مار کر اسے ادھ مئوا کر دیا اس شبہ میں کہ یہ ضرور ہندوستانی ایجنٹ ہے۔عوام میں پاکستان سے محبت کا جذبہ اس حد تک کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔۔پھر پاکستان کیوں ٹوٹا ؟ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیوں بنا اسکی کہانی آئندہ۔۔۔

شیئر: