Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھروں کے آگے کچرا اور پھنے خانی خواتین

پاکستان گئے تو ہر طرف کچرے کے ڈھیر بے شمار ملے، اسکول آپکا ہے ہر چیز کی حفاظت فرض ہے
ڈاکٹر انیلا صفدر۔ الخبر
ہم اکثر وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بچپن کی حسین بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں کیونکہ بچپن کبھی نہیں بھولنا چاہے کتنے ہی پچپن گزر جائیں۔ ذکر خیر بچپن اس لئے ہوا کہ جب ہم صاف ستھرے یونیفارم میں ملبوس اسکول (وہ بھی پرائمری دور میں )میں داخل ہوئے تو صاف ستھری چمکتی ہوئی گیلری کے آخری کونے پر بڑا سا بورڈ لگا ہوتا۔ 
یہ اسکول آپ کا ہے اس کی ہر چیز کی حفاظت کرنا آپ کا فرض ہے۔ اس کی صفائی کلاس روم ہوں یا گیلری ہال ہو یا کھیل کا میدان حتیٰ کہ اس کی کیاریوں کی صفائی کا خیال رکھنا آپ کا فرض ہے۔ پھول خوبصورتی بڑھاتے ہیں اس لئے پھول مت توڑیں اور کیاریاں صاف رکھیں۔ پینے کا پانی ضائع مت کریں۔ اپنی باری پر پانی پئیں۔ 
بہت دنوں سے ہمیں بلکہ جولائی اگست سے اکثر و بیشتر یہ بورڈ خیالوں کے علاوہ خوابوں میں بھی آنے لگا۔ میں سوچنے پہ مجبور ہو گئی جب روز اس بورڈ کو ہم دیکھتے تھے اور پڑھتے تھے نہ صرف دیکھنے او رپڑھنے پر اکتفا کرتے بلکہ اس پر عمل کرنے کی بھی صد فیصدکوشش پیہم کرتے ۔ نہ صرف خود عمل کرتے اس پر نہ عمل کرنے والے بچے کو سب مل کر مجبور کر دیتے کہ اس پر عمل کرو۔ ایسے میں تو یہ بورڈ شریف خواب و خیال میں کبھی نہیں عود کر آیا۔ اب کیا ہوگیا کہ دماغ فعل ماضی سے ہی چھٹکا را نہیں پا رہا۔ ان گرمیوں میں خیر سے وطن عزیز جانے کا اتفاق ہوا او ریہ عہد باندھ کر گئے تھے کہ اس بار کسی گرمی، کسی حبس، کسی برسات کی پروا نہیں کرنی اور جی بھر کر آوارہ گردی کر کے آنی ہے۔ آوارہ گردی کیا کرتے۔ میکے شریف کے بائیں طرف ن لیگ کے رہنما رہتے ہیں اور دائیں طرف تحریک انصاف کے رہنما رہائش پذیر ہیں اور ان دونوں کے گھروں کے عین بالمشافہ کچرے کا اتنا بڑا ڈھیر ہے جس کو ایک بڑے پلازے کے احاطے کے برابر کہہ سکتے ہیں۔ دیکھتے ہی ٹھٹکے کہ ارادہ تو طول و عرض میں جانے کا تھا۔ یہاں سرمنڈاتے ہی اولے پڑگئے ہیں کہ ابھی گھر تو پہنچے ہی نہیں کہ کچرے نے آن گھیرا ۔ خیر جبرجان پر کرتے ہوئے گھر پہنچے تو ہماری اولاد نے سیاست دانوں کی شان میں قصیدے پڑھنے شروع کردیئے۔ اف سامنے رہتے ہیں۔ ان کو خیال نہیں۔ اس سے کتنی بیماریاں پھیلیں گی۔ تو بہ توبہ کیا کرتے ہیں۔ 
خیر آہستہ آہستہ دماغ سے پھسلی یہ گندگی لیکن افسوس صد افسوس ہم نے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا اور گھومتے پھرنے کے لئے گھر سے قدم باہر نکالے تو جا بجا کچرا ہی پایا۔ سوائے کچھ پوش ایریا او رکینٹ کے جا بجا ڈھیر ملے او ربے شمار ملے اور لوگوں میں صفائی کی آگاہی ان کے گھروں تک محدود ہے بہت چھلانگ لگائی تو دس فٹ اپنے گھر کے سامنے سے صفائی کرلی۔ باقی کیا ہے اگلے گھر والے جانیںان کی بلا سے کہ آگے کسی اور کا گھر ہے آپ کی اپنی گلی او رمحلہ گندا ہوتا ہے تو ہوئے ہمارا گھرا تو صاف ہے۔ پہلے کہا جاتا ہے۔ غریب ملک کے امیر باشندے۔ اب ہم یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ گندے ملک کے صاف باشندے۔ اصل میں قصور کسی کا نہیںپاکستان کے حالات ہی جلیبی بن گئے ہیں۔ گدلے ، گھٹن زدہ ،شہروں میں گلیوں میں جیسے ہی آپ گھروں میں جائیں۔ ہوٹلوں میں جائیں، مال میں جائیں، اسٹوڈیو میں جائیں حتیٰ کہ اسمبلی جہاں اتنی آلودگی ہے۔ اس میں جائیں تو ائیرکنڈیشنڈ معطر ماحول آپ کو ملے گا لیکن کبھی ہم کہتے تھے۔ کمروں سے باہر چلیں کھلی او رتازہ ہوا میں بیٹھیں۔ آج کل کے بدلتے ہوئے موسم میں چار بجے کی چائے باہر کھلی فضا میں بیٹھ کر پینے کا مزہ ۔ وہ پرندے بالخصوص کوے ،گروہ در گروہ گھر لوٹتے، چڑیاں درختوں پر چہچہاتیں۔ لگتا شام کا وقت سارا عشق لیلیٰ مجنوں ، سسی پنوں ، ہیر رانجھا، سوہنی ماہیوال سب کو اپنی گود میں بھر لیتاہے۔ اوہ خدااتنا عشق یکبارگی۔۔۔۔۔
لیکن اب باہر بیٹھوں تو دھوئیں اور گرد کی لپٹیں آ آکر آپ کی ناک سے اٹھکیلیاں کرتی ہیں۔ اوپر سے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گیس کے جنریٹر فضامیں آلودگی کو چار چاند لگا دیتے ہیں ۔ پاکستان کو دیکھ دیکھ کر دل صدقے قربان ہو جاتا ہے کہ میرے پیارے وطن میں کہاں کہاں آلودگی نہیں ۔ سیاست ہی دیکھ لیں۔ پیارے وطن کے بڑے بڑے راج دلارے سیاست دان کیسے کیسے اس میدان کو آلودگی سے تربتر کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں ناں جتنا بڑا سر اتنی بڑی درد۔
جتنی بڑی سیاسی جماعت اس کا اتنا ہی بڑا لیڈر آلودہ ۔کیا حیلے کیا بہانے، کیا کیا پینترے بدل بدل کر بات کرتے ہیں۔ خیر بات کچھ او رہو رہی تھی چلی کہیں اور گئی۔ وہ فصل کا بقایا جات جو کبھی جانوروں کا چارہ بنتا تھا اب ا س کو آگ لگا دی جاتی ہے اور جانوروں کے لئے ناقص غذا کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے ہاتھوں سے کہاں کہاں نقصان کر رہے ہیں۔ فصل کو آگ لگا کر اپنے ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف جانوروں کا چارہ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمارا ہر کام سطحی سطح پر آگیا۔ ارے واہ کیا فقرہ کسا میں نے لیکن کوئی اسے سمجھے بھی تو اگر کسی نے سمجھ بھی لیا تو کوئی کیا کرے گا یا کیا بگاڑلے گا۔ سب اپنی دھن میں ہیں۔ جب اپنے رستے میں اسپیڈ بریکر آتا تو پتہ چلتا کہ کچھ ہوا ہے۔ میں نے اپنے اڑوس پڑوس کی سب پھنے خانی خواتین کو بہت ا کسایا کہ اپنے اپنے بیلن پکڑو او ر جو گھر کے سامنے کچرے کا جم غفیر لوگ بڑھاتے جا رہے ہیں۔ا س کو روکو لیکن سب پھنے خانوں کو ننھی بیگم بننے میں دیر نہ لگی۔ 
کسی شاعر نے کیا خوب کہا
کہ تجھ سے تو تیرا خیال اچھا
اب ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سردی سمٹتی جا رہی ہے۔ چھوئی موئی شرمائی شرمائی کم ہوتی جا رہی ہے او رسردی کے مقابلے میں گرمی برگد کے درخت کی مانند نہ صرف اپنی جڑیں دور دور تک مضبوط کرتی بلکہ پھیلاتی جا رہی ہے اور ایسے ہی اوپر سے گھنا۔ 
سردی توآئی نہیں نومبر آگیا۔ سردی نہیںآئی تو کیا ہوا دھند توآگئی ہے۔ سردی آئے بھی تو کئی جھنجھٹ کرنے پڑتے ہیں مجبوراً ایندھن کے لئے درخت کاٹو، تو درختوں کی کمی۔ آگے نئے کون لگائے۔ کسی کے پاس وقت نہیں نہ عوام کے پاس نہ حکومت کے پاس۔ اس لئے گرمی میں ہی دھند کا حصار سہی جس سے نظر تو آرہا ہوتا ہے۔ اپنی حد تک ہی رہنا پڑتا ہے۔ اسی سے بچاﺅ ہوتا ہے۔ سو باتوں کی ایک بات کہ سردی سے پہلے دھند آگئی ہے کیونکہ ہم نے خود ہی جو بیجا ہے وہ کاٹیں گے۔ 
فیکٹریوں میں فلٹر نہیں ، دھواں جہاں مرضی لہک لہک کر بہکتا ہوا اڑتا جائے او رتیزابی پانی جس مرضی ندی ،جھیل ، دریا میں اچھلتا کودتا اٹھکیلیاں کرتا پھرے۔ درخت جڑ سے کاٹو، نئے نہ لگاﺅ ، چپ چاپ آکسیجن مکاﺅ ، گندگی پھیلاﺅ، گاڑیوں سے دھواں ، جنریٹر کا دھواں، فصلوں کے بقایا جات کو جلاﺅ۔ نہیں تو سڑک پر گھیراﺅ اور دبا کے ٹائر جلاﺅ، کھڑی گاڑیاں جلاﺅ، ان سب سے دھواں سردی سے پہلے آنے والی دھند چھائے گی۔ تدارک کوئی نہیں ، کوئی حفاظتی اقدام نہیں، صرف تباہی ہے۔ فصلوں پر کیڑے مار دواﺅں کا چھڑکاﺅ، جلدی نشوونما کیلئے کیمیکل ڈالو ہم مصنوعی زندگی کی طرف جا رہے ہیں۔ ابھی تو اسموگ کے زیر اثر ہیں۔ سردیوں سے پہلے دھند کے مزے لیں سردی سے دو دو ہاتھ تو بعد میں ہوں گے۔ ہم کیا کیا کررہے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے مستقبل کو داﺅ پر لگا رہے ہیں۔ کوئی نہیں شخصی فائدہ تو حاضر ہے۔ بوتل والے جن کی طرح جو بوتل سے نکلے تو آسانی سے آتا لیکن دوبارہ بوتل میں جن کو بند کرنے کے لئے کتنے ہی جتن کرنے پڑتے ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے لیکن ہم ٹھہرے بے فکرے سب سہیں گے لیکن کوتاہیوں اور غلطیوں سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اپنے ہاتھ اپنے آشیاں کو برباد کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، سب اپنی اپنی محفل سجائے بیٹھے ہیں اور اپنی اپنی دھن پر تھرک رہے ہیں۔ نہ ہم کسی کے ہیں نہ ہمارا کوئی۔ کوئی نہیں
جو سویرہے دھواں دھواں 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: