Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزارت محنت .... امیدیں پوری کرسکتی ہے؟

ابراہیم علی نسیب ۔ المدینہ
میں سعودائزیشن کے حق میں ہوں۔ چاہتا ہوں کہ ہر دکان میں ایک نوجوان کام کررہا ہو اور اسکے پہلو بہ پہلو اس کی بہن بھی ملازمت کے امور انجام دے رہی ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہ خواب وزارت محنت و سماجی بہبود کے مشکل فیصلوں کے ماحول میں کیونکر شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ وزارت محنت اپنے اقدامات اور فیصلوں کی زبانی عوام الناس کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ اس کا مشن صرف پیسے جمع کرنا ہے۔ وزار ت محنت کے فیصلوں نے پوری مارکیٹ کو متاثر کررکھا ہے۔ چند ماہ کے اندر سعودی مارکیٹ پیچھے کی طرف چلی گئی ہے۔ اسکے ثبوت میں اس سے زیادہ اور کیا پیش کیا جائے کہ گھر گھروزارت محنت پر تنقید کی جارہی ہے۔
سوشل میڈیا خصوصاً ٹویٹر ، ہیش ٹیگ پر وزارت محنت کیخلاف تنقید کا بازار گرم ہے۔ وزارت محنت نے” مرافقین فیس“ سے اپنے اقدامات کا آغاز کیا۔ نتیجہ قومی ا داروں کے دیوالیہ ہونے کی شکل میں برآمد ہونے لگا۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا۔ قومی اداروں پر بل کے انبار لگ گئے۔
وزارت محنت کے ہر اقدام نے ایک بڑے قضیہ کو جنم دیا جس سے سعودی شہری کو نقصان پہنچ رہاہے۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ سعودی شہری چلتے وقت ایسا محسوس کرتا ہے گویا اس کے دائیں بائیں چلنے والے لوگ اور ٹریفک الٹی سمت میں جارہا ہے۔ دکانوںپر برائے کرایہ کے بورڈ لگنے لگے ہیں۔ فلیٹ خالی ہورہے ہیں۔ قومی ادارے مارکیٹ چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ایک مصیبت پر دوسری مصیبت سوار ہورہی ہے۔
بھلا یہ بات کون مانے گا کہ 2018ءکے دوران ایک قومی ادارے پر جمع شدہ بل 542 لاکھ 42ہزارریال تک پہنچ چکا ہے۔ ایک اور ادارے کی کہانی بھی اسی جیسی سامنے آئی ہے۔ اس سے کچھ کم اس کا بل ہوگا۔ بہت ساری کہانیاں ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سارے اقدامات قومی اداروں کو تجارت کی دنیا سے نکال کر بے روزگاری یا بیرونی دنیا کا رخ کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔قضیہ یہ ہے کہ وزارت محنت کی اسکیمیں الٹے نتائج دے رہی ہیں جن سے عوام کے خواب زندہ درگور ہونے لگے ہیں۔
امید کی کرن اس بات سے مل سکتی ہے کہ سعودائزیشن کا ہمہ جہتی مطالعہ انتہائی سکون او راطمینان سے سائنٹفک بنیادوں پر انجام دیا جائے۔ وطن عزیز کے مفاد کو مد نظر رکھا جائے۔ نئے ادارو ںکو اپنے قدموں پر کھڑ ے ہونے میں مد د دی جائے۔ نئے اداروں سے رقمیں وصول کرنے کے بجائے انہیں اعانت فراہم کی جائے۔ نئے اداروں سے وصول کی جانے والی رقوم نے نوجوانوں اور قومی اقتصاد کو نقصان پہنچایا۔ زمینی حقائق پر مشتمل منظرنامہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
ہمارے سامنے جو منظر نامہ ہے وہ ایسی مصیبت کا الارم بجا رہا ہے جو ہمیں زیادہ بڑے اور زیادہ خطرناک موڑ کی جانب لے جارہا ہے۔ معاملہ مزید سنگین اس وقت ہوجاتا ہے جب ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ تمام قومی ادارے ہمارے لڑکو ںاور لڑکیوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ انہیں ملازمتیں فراہم کئے ہوئے ہیں۔یہ لڑکیاں اور لڑکے ملازمت کی بنیاد پر ملنے والی ماہانہ تنخواہوں سے روزی روٹی کا انتظام کررہے ہیں۔ تصور کیجئے کہ اگریہ قومی ادارے بند ہوجاتے ہیں، ان کی سجل تجاری ختم کردی جاتی ہے اور وہ مارکیٹ کو خیر باد کہہ جاتے ہیں تو ایسی صورت میں جو مشکل سامنے آئیگی وہ بہت بڑی ہوگی۔ اُس وقت بے روزگاروں کی تعداد حد سے زیادہ ہوجائیگی۔ اُس وقت یہ بات کہی جاسکے گی کہ وزارت محنت کا سب سے پہلا کارنامہ سعودی عوام کو بدترین نقصان کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔
میری آرزو ہے کہ وزرات محنت بند دفاتر سے باہر آئے۔ امید کرتا ہوں کہ وزارت محنت کے ارباب اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرینگے۔ معاملات کو معقول انداز میں حل کرنے کا اہتمام کریں گے۔ زمینی حقائق کا احترام کریں گے۔ ٹھنڈے انداز میں چیزوں کو لیں گے۔جلد بازی سے بچیں گے۔ وزارت محنت بے روزگاری کا مسئلہ سائنٹفک بنیادوں پر تدریجی شکل میں حل کرسکتی ہے۔یہ سب کا خواب ہے۔
حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ وزارت محنت کی اسکیموں نے وطن عزیز ، سعودی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کو نقصان ہی دیا ہے۔ یہ بات میں افسوس کیساتھ کہہ رہا ہوں۔ نقصان چھوٹے اوردرمیانے درجے کے اداروں کو ہوچکا ہے۔ خو ف اس بات کا ہے کہ خطرہ اس سے کہیں زیادہ آگے نہ بڑھ جائے۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: