Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لائن آف کنٹرول پر فائرنگ روز مرہ کا معمول بن گیا

استصواب رائے  کی قردار داد 68 برسوں سے پڑی ہے، کوئی شنوائی نہیں 
کراچی ( صلاح االدین حیدر۔۔ بیورو چیف)ایک عجیب سی صورتحال ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی افواج آمنے سامنے1947ء سے ہیں۔پچھلے ایک سال سے اب ان میں کشیدگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ روزانہ ہی پاکستان آرمی ہیڈ کوارٹر راولپنڈی سے اعلامیہ  جاری ہوتاہے کہ ہندوستانی فوج نے پاکستانی علاقے میںفائرنگ کرکے معصوم شہریوں کو ہلاک یا زخمی کردیا۔اعداد و شمار تو شاید صحیح طور پر نہ مل سکیں لیکن محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ4 ماہ میں اگرسیکڑوں نہیں تو درجنوں معصوم شہریوں، اسکول کے بچوں، نہتی عورتوں کو سرحد پار فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ زخمیوں کی تعداد تو بے شمار ہیں۔ فائرنگ کا یہ سلسلہ رکنے کانام ہی نہیں لیتا۔ ہندوستان کی طرف سے بھی ایسے ہی الزمات لگائے گئے کہ ان کے علاقوں میں پاکستانی افواج کی فائرنگ سے شہروں پر حملے کئے گئے لیکن دونوں طرف کے اعلانات میں واضح فرق یہ ہے کہ پاکستانی آرمی کے ترجمان نے کمبائن ملٹری  اسپتال اورآزاد کشمیر کے علاقے کے چھوٹے  اسپتالوں میں زخمیوں کو دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ خود آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ان زخمیوں کی عیادت کی جو ٹیلی وژن پر دکھائی گئی لیکن ہندوستان کی طرف سے ایسا نہیں کیا گیا۔جس سے پاکستانی پوزیشن سچائی کے بین ثبوت ملتاہے۔کل ہی کی پیر 19.فروری کو پاکستان آرمی نے ہندوستانی پوزیشن پر فائرنگ کرکے2 ہندوستانی سپاہیوں کو ہلاک کرڈالا۔ آرمی کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور پاکستان آرمی نے جوابی فائرنگ کی تھی کیونکہ ہندوستان کی طرف سے بلا جواز فائرنگ کرکے ایک معصوم بچے کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم نہیں چاہتے کہ کشیدگی بڑھے لیکن کیا کریں کہ ہر روز ہم پر گو لہ باری ہوتی ہے۔ ہندوستانی چیک پوسٹوں سے ہمارے علاقوں کو نشانہ بنایا جاتاہے۔چند دن پہلے ہی ایک اسکول بس کو نشانہ بنایا گیا۔ بس کا ڈرائیور شہید ہوگیا۔ مجبوراً پاکستانی افواج کو جوابی کارروائی کرنی پڑی، انہوںنے ان کی چیک پوسٹ اڑا دی، یہ ایک نہیں، ایسے واقعات تو روز ہی ہوتے ہیں۔ذرا سی تاریخ میں جائیں تو پتہ چلے گا کہ 1947ء میں  جب ہنداور پاکستان آزاد ہوئے تو کشمیر کے استصواب رائے کے ذریعے، وہاں کے لوگوں کی مرضی کے مطابق فیصلہ ہونا تھا۔کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے، یا ہندوستان کے ساتھ۔پاکستانی مجاہدین سردار ابراہیم اور سردار عبدل ایوب خان کے زیرِ کمان نے بہت سارا علاقہ ہندوستانیوں کے قبضے سے آزاد کرلیا تھا۔ اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے  اقوام ِ متحدہ میں وعدہ کیا کہ جنگ بندی کی جائے اور پھر لوگوں کی رائے جان کر اس مسئلے کا فیصلہ کردیا جائے لیکن ایک مرتبہ جنگ بندی کیا ہوئی، ہندوستان اپنے الفاظ سے پھر گیا۔آہستہ آہستہ اسے جنت نظیر وادی کشمیر جس میں جموں اور سری نگرجیسے علاقے شامل تھے، زبردستی قبضہ کرلیاگوکہ پچھلے 68سالوں سے علاقوں میں گولیوں کی آواز سے گونجتی رہی ہے ۔کشت و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، پچھلے تقریباً ایک سال سے خاص کشمیر کے رہائشیوں نے ہڑتالیں اور احتجاج کا طویل سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، ان پر فائرنگ ہوتی ہے۔ لاشیں گرتی ہیں لوگ زخمی ہوتے ہیں، اور تو اور ہندوستانی قابض فوجوں نے چھرے والی بندوقوں سے فائرنگ کرکے ہزاروں لوگوں کو اندھا ،بہرہ، اور چہروں کو مسخ کردیا،بے چاری لاچاری زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ قصور صرف یہ تھا وہ آزادی سے جینا چاہتے تھے، جو کہ اُن کا پیدائشی حق ہے لیکن 6لاکھ سے زیادہ ہندوستانی فوجیں ان کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں۔ اقوام متحداہ جہاں پہ ا ستصواب رائے  کی قردار داد 68سالوں سے پڑی ہوئی ہے، کوئی شنوائی نہیں ہے، سیز فائر لائن جسے 1972ء میں شملہ معاہدے کے تحت لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا ، آج بھی دنیا کے ضمیر کو چیخ چیخ کر آواز دے رہی ہے، لیکن دنیا کا ضمیر آرام کی نیند سو رہاہے۔

شیئر: