Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’حیا نہیں ہے باقی زمانے کی آنکھ میں‘‘

بے راہ روی اور بے حیائی کے فروغ میں ٹی وی کا بڑا کردار ہے، مغرب کی اندھی تقلید او رمذہب سے بیزاری نے ہمیں غلیظ گڑھے میں پھینک دیا ہے
سیما سعید۔ کراچی
ٹیلی و یژن کبھی کسی زمانے  میںگھر بھر کی تفریح کیساتھ دنیا سے جوڑنے کا سبب تھا۔  اب مغرب کی اندھی تقلید  سے معاشرے کے بگاڑ وبربادی کا سبب بن گیا ہے۔ بے راہ روی  بے حیائی کے فروغ میں ٹی وی کا بہت بڑا کردار  ہے۔ جیسے جیسے چینلز کی تعداد میں اضافہ ہوا بے حیائی بڑھتی گئی۔ہمارے حکمران  چونکہ دین بیزار  ہیں اس لئے   میڈیا کا کوئی قبلہ کوئی  قانون نہیں۔ سو شتر بے مہار کی مانند  جس نے   جو چاہا دکھایا ۔ ننگ پن فحاشی کے وہ مناظر  دکھائے جانے لگے جنہیں  تنہائی  میں دیکھتے ہوئے  بھی شرم آجائے۔
 اینکرو کمپیئر کا دوپٹہ جو سر  سے نہ ہٹتا تھا گزرتے وقت کیساتھ   دوپٹہ ہی نہیں حیا بھی کہیں گم ہوگئی۔ اس وقت چند اسلامی چینلز  کے سوا  ہر ٹی وی  چینل  پر عریانی اور فحاشی کو ایسے فروغ دیا جارہا ہے "جیسے یہ کوئی لازمی ڈیوٹی ہو"
 ایک نجی نیوز چینل نے تو جیسے  حیا کا جنازہ ہی  اٹھا دیا ...   "یوگا " ایکسر سائز کے نام پر لائیو  زلالت کی انتہا کردی جسکے  لیے فحاشی بھی بہت ہلکا لفظ ہے۔سو چیئے ہمارا اخلاقی زوال کس مقام پر پہنچ گیا ہے  مغرب کی اندھی تقلید اور مذہب سے بیزاری نے ہمیں اس غلیظ گڑھے میں لا پھینکا ہے کہ اب  اب ہم  مردو خواتین  باہم کی ایسی ایکسرسائز  بھی دیکھیں گے  جو ایکسرسائز کم  سامان لذت  زیادہ ہے۔   بے حیائی کا شرمناک مظاہرہ  صبح مارننگ شو میں دکھایا گیا۔بے حسی کا یہ عالم ہے کہ  اتنی گندگی اتنی بے حیائی  پر  بھی لوگ احتجاج نہیں کرتے۔   ان پروگرامز کے خلاف کوئی آواز نہیں  اٹھتی ۔
ساحر لودھی کے شو ز ہوں یا  مارننگ شوز ڈرامے  بے حیائی عروج پر ہے۔طوائفیں رول ماڈلز ہوگئیں اور  شرعی حدیں قید قرار پائیں۔محرم رشتوں کا تقدس پامال کیا جارہا ہے۔   آزادی کے نام پریہ کس معاشر ے کی تصویر پیش کی جارہی ہے۔ اصول ہے مارکیٹ میں وہی چیز لانچ کی جاتی ہے جسکی مانگ ہوتو کیا  پاکستانی معاشرہ اس حد تک   بے غیرتی  و بے حیائی کی دلدل میں اتر چکا ہے۔ مرد گھر کا سربراہ  ہے لیکن گھر خاندان کے بگاڑ سنوار کی ذمہ دار عورت ہے۔وہ جیسے چاہے گھر کی فضا بنائے ۔ نسلوں کی تربیت عورت کے ہاتھ میں   ہے۔ معاشرہ  عورت  سے بنتا ہے جس سوچ کی حامل عورت ہوگی معاشرہ اسکا عکاس ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا نے عورت کو  ہدف بنایا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ صبح کے ان فحش شوز کے  ویورز کون ہیں۔صبح کی نشریات میں کھانا پکانے میک اپ ، فیشن کے نام پر     مارننگ شوز میں  ہماری اقدار  ہماری تہذیب کو ذبح کیا جارہا ہے اور  فحاشی بے حیا ئی کا یہ زہر قطرہ قطرہ کرکے ہماری خواتین کے دل ودماغ میں اتارا جارہا ہے  جو لباس کل تک شب خوابی   کے لئے بھی پہنتے ہوئی لحاظ رکھتی ہونگی کہ  بچے بڑے بھی گھر میں ہوتے  ہیں کہیں اچانک انکی نظر نہ پڑ جائے وہ آج بازاروں میں  انہی باپ، بھائی ،شوہروں کیساتھ گھومتی پھرتی دعوت نظارہ دیتی ہیں ۔
میڈیا نے عورت کو  ایک بازاری  اور جنس کی تسکین کا سامان بنا  دیا ہے۔ میڈیا کا اصل ٹارگٹ  متوسط طبقے کی خواتین  اور نوجوان نسل   ہیں۔یہ اس میڈیا کی ہی تباہ کاریاں ہیں کہ کچھ سال پہلے تک  آٹھ دس سال کی بچیاں جنھیں صرف کھیل کھلونوں اور گڑیوں کی فکر رہتی تھی آج اپنے ساتھی کلاس فیلوز کو  محبت نامہ لکھ رہی ہیں اور والدین کی روک ٹوک  نہ ملنے  دینے پر یہی بچے خود کشی جیسے انتہائی اقدام بھی اٹھالیتے ہیںیا رشتہ نہ ملنے پر مار دیتے ہیں۔
ہم اپنی اسلامی روایات کو بھول چکے ہیں کہ ہم نے خود ہی اپنی تباہیوں کی بنیاد رکھ دی ہے۔ دوسروں کے انداز و اطوار کو اپنا کر اور اپنے دینی اصولوں و ضوابط کو بھول کر ہم نے اپنے دین ہی کو فراموش کر دیا ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے دینی تصور رکھنے والی جماعتیں بھی میڈیا  کی  اس بے غیرتی  بے حیائی  فحاشی پر خاموش ہیں۔ سنتے ہیں  پیمرا  میڈیا  پالیسی کنٹرول کرتا ہے  اگر پیمرا نامی کوئی  ادارہ ہے  تو یہ شوز کیسے آن ایئرآجاتے ہیں۔کیسے بے حیائی کا پرچار عام کیا جارہا ہے۔بے حیائی کے اس سیلاب کے خلاف آواز اٹھا یئے اس سے پہلے کہ فحاشی بے حیائی کا یہ سیلاب ہمارے گھروں ہماری عزتوں کو بھی  بہا کر لے جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭ 

شیئر: