Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معراج ، جسم نبوت کا باکمال اعزاز

 اس کے بعد آپ مزید اوپر’’صریف الاقلام‘‘ تک پہنچے جہاں تقدیر لکھنے والے قلموں کی آواز آ رہی تھی
* * * *
 مولانا محمد الیاس گھمن ۔ سرگودھا
* *  *
    یہ 27ویں رجب المرجب نبوت کا گیارھواں سال ہے۔رات اپنے اوپر اندھیرے کی دبیز چادر تانے ہوئے ہے۔ چاند ’’رخصت‘‘پر ہے۔ ستارے اپنے محور میں رقصاں جھلملا رہے ہیں۔ چشمانِ نبوت میں ماضی کے واقعات تیر رہے ہیں۔ اعلان نبوت سے لے کر اب تک11 برس کا طویل عرصہ بیت چکا ہے۔ اس عرصے کا ہر دن رسول اللہ کی مظلومیت اور آپ کے صبر و استقلال کی داستانیں سنا رہا ہے اور ہر رات لسان نبوت کے ارتعاش سے بارگاہ ربی میں راز و نیاز اور مناجات کے گن گا رہی ہے۔
    10 ماہ قبل شوال 10 نبوی کے آخر میں مکہ سے نجران کی جانب تقریباً 90 کلو میٹر دور طائف کی وادی میں قبیلہ ثقیف کے سرداروں کی باتیں سماعت نبوت کو خراش رہی تھیں۔ قرن الثعالب پر روح الامین(جبرائیل ؑ )کی ملاقات اور عرض داشت آپکی آنکھوں کے دھندلکے دائروں میں گھوم رہی تھی۔ مقصود کائنات کے ملائم و گداز وجود پر طائف کے نوکیلے پتھروں کے نقش ابھی باقی تھے کہ :
    ایک شب حضرت ام ہانیؓ کے دولت کدے پر آپ آرام فرما تھے کہ یکایک مکان کی چھت پھٹی، ملائکہ کے جھرمٹ میں جبرائیل امین اترے اور آپ کو نیم خوابی کے عالم سے بیداری کے عالم میں لائے،چنانچہ آپ اپنے اسی جسم کے ساتھ یہاں سے مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے ۔وہاں آپ حطیم کعبہ میں آرام فرما ہوئے۔ چند لمحوں بعد آپ کو جبرائیل و میکائیل علیہم السلام نے جگایا اور زم زم کے کنویں کے قریب لے آئے۔ یہاں آپ لیٹ گئے۔ آپ کے مبارک سینے کو شق کیا گیا اور قلب اطہر کو نکال کر زم زم کے پانی سے دھویا گیا اور ایک سونے کے طشت کو لایا گیا جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ایمان و حکمت کو آپ کے قلب مبارک میں بھر دیا گیا اورقلب اطہر کو دوبارہ اپنے مقام پر رکھ دیا گیااور دونوں کندھوں کے درمیان ختم نبوت کی ایک مہر لگا دی گئی۔ جبرائیل امین کے ہمراہ بہشت سے ایک سفید رنگ کی سواری ’’براق‘‘ کو بھی لایا گیا جس کا ایک قدم منتہائے بصر تک پہنچتا ہے۔ آپ اس پر سوار ہوئے اور جبرائیل و میکائیل علیہم السلام آپ کے ہمرکاب تھے۔
    رسول اللہ فرماتے ہیں کہ راستے میں میرا گزر ایک ایسی زمین پر ہوا جس میں کھجور کے درخت بکثرت تھے۔ جبرائیل امین ؑ نے عرض کیا کہ یہاں اتر کر نماز(نفل) پڑھ لیجیے۔پھر اس جگہ کے بارے میں بتایا کہ یہ یثرب (مدینہ منورہ) ہے جہاں آپ نے ہجرت کر کے آناہے۔وہاں سے چلے تو وادی سیناء پہنچے ۔جبرائیل ؑ نے عرض کیا: حضور !یہاں بھی 2رکعت پڑھ لیجیے اور بتایا کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا۔ وہاں سے حضرت شعیب علیہ السلام کی بستی ’’مدین ‘‘پہنچے ہیں۔ جبرائیل امین علیہ السلام نے یہاں بھی عرض کیا:2رکعت آپ پڑھ لیجیے۔ وہاں سے چلے تو مقام بیت اللحم پہنچے ہیں۔عرض کی : حضور!یہاں بھی 2 رکعت پڑھ لیجیے۔ وہاں سے چلے تو بیت المقدس پہنچے ہیں۔’’حضور !یہاں بھی 2رکعت پڑھ لیجیے‘‘۔
    صحیح مسلم ، سنن نسائی ،مسند ابی یعلیٰ اور خصائص الکبریٰ میں ہے کہ اس سفر مبارک میں آپکا گزر حضرت موسیٰؑ کی قبر مبارک پر بھی ہوا چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ جس رات مجھے معراج کرایا گیا، میں سرخ ٹیلے کے پاس حضرت موسیٰؑ کی قبر کے قریب سے گزرا۔(میں نے دیکھا کہ)حضرت موسیٰؑ قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ قا رئین کرام!یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس واقعے میں جو چیز بطور معجزہ کے ہے وہ رسول اللہ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کا قبر میں نماز پڑھنا معجزہ نہیں۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرایا گیا میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔میں نے جبرائیل  ؑسے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں( یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
    آپ نے فرمایا کہ میرا گزر ایسے لوگوں پر بھی ہوا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے (انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں۔ ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ سود کھانے والے ہیں۔
    آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے۔کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہوجاتے تھے جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہورہا تھا۔ آپ نے پوچھا :یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ فرض نماز میں سستی کرنے والے ہیں۔
    آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں اور اونٹ وبیل کی طرح چرتے ہیں اور کانٹے دار و خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھارہے ہیں۔آپ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔
    آپکا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے۔یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھارہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ۔ آپ نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل ؑ نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کیساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کیساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑکر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔
    آپ نے اس سفر میں ایک لکڑی دیکھی جو گزرنے والوں کے کپڑوں کو پھاڑ ڈالتی ہے۔ اس کے بارے میں جبرائیل امین نے بتایا کہ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو راستوں میں چھپ کر بیٹھتے ہیں اور ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
    ایک ایسے شخص پر بھی آپ کا گزر ہوا جس نے لکڑیوں کا بھاری گٹھہ جمع کر رکھا اور اس میں اٹھانے کی ہمت نہیں، پھر بھی لکڑیاں جمع کر کر کے گٹھے کو بڑھا رہا ہے۔ پوچھنے پر جبرائیل امین نے بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جو صحیح طور پر امانت ادا نہیں کرتا۔
     آپ کا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کی زبانیں اور باچھیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں۔ جبرائیل ؑ نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے بے عمل عالم ہیں۔ اس طرح آپ کا گزر خوشبو والی جگہ سے ہوا ۔جبرائیل ؑ نے بتایا کہ یہ جنت ہے اور بدبو والی جگہ جہنم  سے بھی گزر ہوا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے جس میں ہے کہ آپ نے دجال اور داروغہ جہنم(جس کا نام مالک ہے) کو بھی دیکھا ہے۔
    روایات میں آتا ہے کہ اس سفر میں آپ کا گزر ایک بڑھیا پر ہوا۔ اس نے آپ کو آواز دی۔ حضرت جبرائیل ؑ نے آپ سے عرض کیا کہ آگے چلئے۔ پھر آپ کا گزر ایک بوڑھے شخص پر ہوا ۔اس نے بھی آپ کو آواز دی ۔حضرت جبرائیل ؑ نے کہا آگے چلئے۔ اس کے بعد آپ کا گزر ایک جماعت پر ہوا جنہوں نے آپ کو سلام کیا۔ جبرائیل امین نے کہا کہ ان کے سلام کا جواب دیجیے۔ پھر عرض کیا کہ بوڑھی عورت دنیا ہے۔ بوڑھا مرد شیطان ہے، دونوں کا مقصد آپ کو اپنی طرف مائل کرنا تھا اور جس جماعت نے آپ کو سلام کیا وہ حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ہیں۔
    امام احمد نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ کو شب معراج کے موقع پر خوشبو آئی تو آپ نے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے ؟ تو جبرائیل امین نے کہا کہ یہ کنگھی کرنے والی(ماشاطہ)اور اس کی اولاد کی خوشبو ہے۔ پھر اس کامکمل واقعہ آپ کو سنایا کہ ماشاطہ فرعون اور اس کی اولاد کو کنگھی کیا کرتی تھی۔ ایک بارجب وہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کر رہی تھی  اچانک اسکے ہاتھ سے کنگھی گر گئی تو اس نے کہا : بسم اللہ۔ فرعون کی بیٹی نے دریافت کیا میرے باپ کے بارے میں کہہ رہی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ جو میرا اور تیرے باپ کا رب ہے یعنی اللہ رب العزت۔ فرعون کی بیٹی نے معاملہ اپنے باپ کے دربار تک پہنچا دیا ۔ فرعون نے ماشاطہ سے پوچھاکہ کیا تو میرے علاوہ کسی کو رب مانتی ہے؟ اس عورت نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ ہاں جو میرا اور تیرا رب ہے، چنانچہ فرعون نے طیش میں آ کر ایک تانبے کے بڑے برتن میں پانی گرم کرایا اورحکم دیا کہ اس ماشاطہ اور اس کی اولاد کو اس کھولتے ہوئے پانی میں پھینک دیا جائے۔ پھر فرعون نے ما شاطہ سے پوچھا کہ تیری کوئی خواہش ہے تو بتا۔ اس نے کہا کہ ہاں میری اور میری اولاد کی ہڈیاں اکٹھی کر کے ایک جگہ دفنا دینا،چنانچہ اس کی اولاد کو ایک ایک کر کے ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیا گیا جب اس کے شیر خوار بچے کی باری آئی تو خاتون کی ممتا نے جوش مارا اور وہ ذرا پیچھے ہٹی تو اس شیر خوار بچے نے کہا: اماں جان !بے خوف و خطر اس میں کود جا۔ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے چنانچہ وہ ماشاطہ اس کھولتے ہوئے پانی میں کود گئی۔
    اسی طرح آپ نے چند اہل جنت کے احوال بھی مشاہدہ فرمائے۔ چنانچہ آپ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو ایک ہی دن میں بیج بوتی اور فصل کاشت کر رہی تھی۔ ان کے بارے میں جبرائیل  ؑنے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے مجاہدین ہیں۔ ان کی ایک نیکی700 نیکیوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے اور یہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے۔اسی طرح بعض صحابہ کرام کے محلات بھی آپ نے اس سفر میں دیکھے۔
     نبی بیت المقدس پہنچے جہاں پہلے سے انبیائے کرام علیہم السلام اور ملائکہ آپ کی انتظار میں تھے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور مصلیٰ امامت پر کھڑا کردیا ۔آپ نے ان سب کو 2 رکعات نماز پڑھائی ۔سارے انبیائے کرام علیہم السلام امام الانبیاء سے مشرف ہوئے۔پھر بعض انبیائے کرام علیہم السلام کی ارواح سے اللہ کی حمد سنی اور آخر میں خود آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ امام زرقانی نے اس واقعے کو مفصل ذکر کیا ہے۔
    اس کے بعد جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے پانی، شراب اور دودھ کا ایک ایک پیالہ پیش کیا گیا ۔ آپ نے دودھ کا پیالہ لیا جس پر جبرائیل امین نے کہا کہ آپ نے دین فطرت کو لیا ہے۔ اگر آپ شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی اور اگر پانی کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت غرق ہو جاتی۔  
    پھربیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کا سفر شروع ہوا،چنانچہ بالترتیب پہلے تا ساتویں آسمان پر آپ نے حضرت آدم ، حضرت عیسیٰ،حضرت یوسف ،حضرت ادریس ، حضرت ہارون ، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام سے ملاقات فرمائی۔ پہلے آسمان پر ملاقات حضرت آدم ؑ سے ہوئی۔ ان کا حق پہلے بنتا تھا کیونکہ آپ ؑ ابو الانبیاء ہیں، پھر حضرت عیسیٰ  ؑسے ہوئی، حضرت عیسیٰ  ؑ وہ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھالیا ہے، پھر دوبارہ اللہ تعالیٰ نے اتارنا ہے،اسکے بعد حضرت یوسف ؑ سے ملاقات کرائی ۔ حضور کو یہ بتانے کیلئے کہ جیسے آپ نے مکہ میں اپنوں سے سختیاں جھیلی ہیں ، یوسف ؑ کے ساتھ بھی اپنوں نے یہ حشر کیا تھا لیکن ایک وقت آیا تھا کہ یہ فاتح بنے تھے۔ انہوں نے اپنوں کو معاف کیا تھا۔حضور!ایک وقت آنا ہے کہ آپ نے بھی فاتح بننا ہے تو یوسف کی طرح آپ نے بھی معاف کردینا ہے،پھر حضرت ادریس ؑسے ملاقات ہوئی ۔حضور نے مکہ سے مدینہ جانا تھا اور بادشاہوں کوخطوط لکھنے تھے تو فرمایا: ادریس سے ملیں ۔انہوں نے خطوط ایجاد کیے ہیں۔پھر حضرت ہارون ؑسے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ جب تورات لینے کیلئے کوہ طور پر گئے تھے تو پیچھے حضرت ہارون تھے۔انکی قوم نے بچھڑے کی پوجا کی ہے،تو انہیں قتل کر دیا گیا۔ حضرت ہارون ؑ کے دور میں شرک ہوا تو انکی قوم قتل ہوئی ۔ اے نبی! اگر آپ کی قوم شرک کریگی تو ان کو میدانِ بدر میں قتل کیا جائیگا۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقا ت کرائی ۔حضرت موسیٰؑ نے شام میں جہاد کیا، حضور! آپ بھی جہاد کیلئے نکلیں گے چنانچہ حضور صل شام کے جہادکیلئے تبوک تک نکلے ہیں۔حضرت موسیٰؑ شام گئے ہیں لیکن فتح خود نہیں کیا بلکہ انکے جانے کے بعد انکے جانشین حضرت یوشع بن نون ؑ نے فتح کیا ہے۔حضور! آپ چلے جائیں گے۔ آپ کے جانے کے بعد آپ کے جانشین حضرت عمرؓ فتح کریں گے۔ آخر میں حضرت ابراہیم ؑ ہیں۔ ایک کعبے کا بانی ہے۔ ایک کعبے کا محافظ ہے۔ اے پیغمبر مصطفیٰ! ابراہیم ؑ نے کعبہ بنایا ہے اور آپ نے کعبہ کی حفاظت کرنی ہے۔
    حضور اوپر گئے ہیں ۔اوپر سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ ’’سدرہ‘‘ بیری کا نام ہے اور منتہیٰ کہتے ہیں اختتام کو ۔یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں نیچے والے اعمال پہنچتے ہیں تو اوپر والے فرشتے یہاں سے اوپر لے جاتے ہیں اور اوپر والے احکام وہاں آتے ہیں تو نیچے والے فرشتے وہاں سے نیچے لاتے ہیں، اس کے بعد آپ مزید اوپر’’صریف الاقلام‘‘ تک پہنچے ہیں، ’’صریف الاقلام ‘‘ جہاں تقدیر لکھنے والے قلموں کی آواز آ رہی تھی ۔اس کے بعد آپ کے لیے ایک اور سواری’’ رفرف‘‘ آئی وہاں سے اوپر گئے ہیں۔ اب مکان ختم ہوگیا اور لا مکان آگیا ہے، میرے نبی عرش معلیٰ تک پہنچے ہیں۔
     اسی موقع پر 5 نمازوں کی فرضیت کا حکم بھی ہوا۔ پہلے پہل تو50 نمازوں کا حکم تھا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش پر بار بار کمی کے بعد5نمازیں باقی بچیں۔ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ البقرہ کی آخری چند آیات بھی اسی سفر معراج میں بطور تحفہ آپ کو عنایت کی گئیں۔
    آپ رات کے مختصر وقت میں تاریخِ انسانی کا سب سے طویل سفر طے کیا جس میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیائے کرام و ملائکہ کی امامت،پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیائے کرام سے ملاقات اور سدرۃ المنتہیٰ ، صریف الاقلام قاب قوسین تک رسائی۔ جنت ودوزخ کا مشاہدہ کر کے واپس تشریف لائے۔
    صبح اٹھ کر آپ نے اپنے رات والے واقعے کو بیان کیا تو قریشی جھٹلانے لگے ۔ قریشی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ اگررسول اللہ نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپ کے پاس خبرآتی ہے۔ اسی وجہ سے سیدنا ابو بکرؓ  کا لقب صدیق پڑ گیا۔ قریش مکہ حضور اکرم سے بیت المقدس کے احوال دریافت کرنے لگے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیت المقدس کو حضور اکرم کے سامنے ظاہر فرمادیا۔ آپ حطیم کعبہ میں تشریف فرما تھے۔ قریشی لوگ سوال کرتے آپ ان کے سوالوں کا جواب دیتے گئے۔
مزید پڑھیں:- - - -سچائی ، اسلامی معاشرے کا بنیادی وصف

شیئر: