Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول بھٹو ،لوگوں کی امیدوں کا مرکز

صلاح الدین حیدر ۔۔بیوروچیف ۔۔ کراچی  
نوجوانی میں ہی شہر ت کی بلندیوں کو چھونے والا ، بلاول ، سے مرحو م ذوالفقار علی بھٹو کے لاکھوں بلکہ کروڑوں پرستاروں نے ڈھیر ساری امیدوں باندھ رکھی ہیں، لیکن کیا بے نظیر بھٹو کا بیٹا جو اپنے نانا اور ماں کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ تو ہے، ہنس مکھ، خوش گفتار اور پر جوش، پر عزم بھی، پچھلے ڈیڑ ھ سال سے مستقل جدوجہد میں لگا ہوا ہے کہ نانا کا صحیح وارث بن سکے۔ لیکن کیسے؟ سیاست داؤ پیچ کا کھیل ہے۔ شطرنج کی طرح ایک معمولی غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اپنے والد محترم آصف علی زرداری کی شاگردی میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ جو بلاول کے ساتھ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین ہیں، ایک شاطر کھلاڑی ہیں سیاست  کے داؤ پیچ کب سمجھتے ہیں، بلاول نے لگتا ہے ان سے بہت سیکھا بھی ہے، ڈیڑھ سال پہلے والے بلاول اور آج کے بلاول میں واضح فرق ہے، جوش ِ خطابت میں وہ اگر زیادہ نہیں تو کسی سے کم بھی نہیں۔ ماں کی تربیت کے اثرات اس پر صاف نظر آتے ہیں، لیکن ابھی انہیں بہت طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔ مشہورشعر ان کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کی صحیح عکاسی کرتاہے کہ
یہ عشق نہیں آساں ، بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے 
انتخابات کی مہم تو شروع ہی نہیں بلکہ تیزی سے بلندی کی طرف جارہی ہے۔ بلاول اپنے والد کے ساتھ تقریباً روز ہی عوامی جلسے اور پارٹی ورکرز سے خطاب کرتے ہیں، وقت کا تقاضہ ہی نہیں وقت کی کمی بھی ۔ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے بلاول کو منزل کا تو پتہ ہے، لیکن پتھریلے راستے اور پہاڑ جیسی بلندی سر کرنا جان جھوکوں کا کام ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ لوگ انہیں سننے کے بھی کبھی تو ہجوم کی شکل میں آتے ہیں۔ ان کے خیبر پختون خوا  کے جلسے  دیکھنے میں تو بہت کامیاب تھے، پنجاب میں بھی لوگوں کی  کمی نہیں  لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ خود زرداری اور بہن فریال تالپور کے کارناموں نے ان کی راہ میں کانٹے ہی بوئے ہیں، پیپلز پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے یہ 26 سالہ نوجوان اچھی  طرح واقف ہے کہ اسے مصطفی زیدی مرحوم کے شعر پر ہی انحصار کرنا ہے۔ 
ان ہی پہاڑوں پر چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے 
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، اکثریت تو خیر شکوک وشبہات میں مبتلا ہے لیکن اُمیدیں بھی لگانے والے بہت ہیں۔ 
صائمہ امتیاز نے ٹوئٹ کیا کہ بلاول بھٹو مزاحیہ ہیں دیکھیں وہ کیا گل کھلاتے ہیں۔ 
ڈاکٹر ماہ جبین ۔ مریم نواز ، بلاول  بھٹو ، اور ممنون حسین کرپشن پر باتیں کریں تو کیسے لگتاہے۔ 
انجینئر شفیق  ماطیلہ میرے پہلے ٹوئٹ کو دیکھیں ،بلاول کسی کا جانشین ہے۔ وہ یقینا ایک دن بلاول بھٹو بنے گا۔ ’’ مگر کب‘‘
سائر ہ رانا : میں جیالی: میں بھٹو ہوں۔ 
صاف ظاہر ہے کہ لوگ ابھی سوچ میں مبتلا ہیں۔ لیکن فیصلہ جلد کرنا پڑے گا اس لئے کہ انتخابات سر پر ہیں۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: