Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کہانی ایک جھوٹے دعویدار کی

یاد رکھیے جتنے بھی جھوٹے اور مکار لوگ ہوتے ہیں، ان کی گفتگو سنیں ،ان کی تحریریں پڑھیں، اس میں الجھاؤ ہو گا، بے سرو پا اور بے تکی باتیں ہوں گی
* * * *عبدالمالک مجاہد ۔ ریاض* * *
ہندوستان کے ایک ضلع کا نام گورداس پور ہے۔اس کے ایک قصبہ قادیان میں 1840ء میں غلام مرتضیٰ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام غلام احمد رکھا جاتا ہے۔ غلام مرتضیٰ کا تعلق مغل برلاس خاندان سے تھا۔ بعد میں یہ لڑکا مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے معروف ہوتا ہے۔ مرزا غلام احمد اپنی خاندانی نسبت میں تذبذب کا شکار تھا ،کبھی خود کو چینی الاصل کہتا‘ کبھی وہ اپنا تعلق اسرائیلی یہودی النسل یعنی بنو اسحاق سے نسبت جوڑتا۔ کبھی بنو فارس اور بنو فاطمہ کے خون کا معجون مرکب بنتا تھا۔
    1857ء کی جنگ آزادی میں اس خاندان نے انگریز سامراج کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ 50 گھوڑوں اور افراد کے ساتھ مدد کی تھی۔ مرزا کا گھرانہ انگریز سامراج کا بڑا خیر خواہ تھا۔مرزا غلام احمد کو انگریزوں کے ساتھ اس تعلق پر بڑا فخر تھا اور وہ خود کو انگریز کا خود کاشتہ پودا کہا کرتا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جب بڑا ہوا تو اس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ آئیے اس شخص کو اس کی تحریروں‘ کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ وہ کس قسم کی دہری شخصیت کا مالک تھا۔اگلی سطور میں جو کچھ عرض کروں گا وہ تمام تر مرزا کی کتابوں سے لے کر لکھا گیا ہے، اس لیے راقم الحروف پوری ذمہ داری کے ساتھ اس مضمون کو لکھ رہا ہے۔
    حوالہ جات اس لیے نہیں لکھ رہا کہ قارئین کے لیے مضمون دلچسپ نہیں رہے گا ورنہ جتنی باتیں لکھی گئی ہیں ،وہ قادیانیوں کی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔اگر ضرورت محسوس ہوئی تو حوالہ جات دئیے جا سکتے ہیں۔ میں ان معلومات کے لیے دارالسلام لاہور کی ریسرچ ٹیم اور خصوصاً ریسرچ ٹیم کے سربراہ طارق جاوید عارفی کا شکرگزار ہوں کہ اس مضمون کی تیاری میں انہوں نے مجھے مواد مہیا کیاتاہم میں نے اسے اپنے الفاظ میں لکھ دیا۔میری یہ دلی خواہش ہے کہ عام لوگوں تک مرزا کا ماضی ‘ اس کا کردار‘ عقیدہ ،منہج، جھوٹ اور دجل و فریب واضح ہو جائے تاکہ اس گروہ کے دجل و فریب سے بچ سکیں۔
    مالی طور پرمرزا کا گھرانہ نہ تو بہت زیادہ امیر کبیر تھا نہ ہی بالکل قلاش تھا کہ گھر میں کھانے کے لالے پڑے ہوں۔مرزا غلام احمد کے بچپن کے حوالے سے سیرت المھدی میں لکھا ہے کہ مرزا کو بچپن میں چڑیاں پکڑنے کا بڑا شوق تھا ۔ جب چڑیاں پکڑ لیتا تو انہیں ذبح کرنے کے لئے چاقو میسر نہ ہوتا تو سرکنڈے کی تیز دھار سے انہیں ذبح کر لیتا۔بسا اوقات وہ ایک قمیص7،7 دن تک پہنے رکھتا۔ اسے دھلوانے یا بدلنے کی نوبت نہ آتی۔ کام کاج میں والد کا ہاتھ نہ بٹاتا جس کی وجہ سے وہ اکثر اس سے ناراض رہتے۔
     بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک بار اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور اِدھر اُدھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے (سیرت المہدی حصہ اول)۔
    بسا اوقات والدہ کی بھی بات نہ مانتا تھا۔ بچپن میں بچوں جیسی چوریاں کرنے کی عادت بھی تھی۔ سیرت المہدی کے حصہ اول میں لکھا ہے کہ ’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک بار بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی کے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیااور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی۔ پس پھر کیا تھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔
    مرزا غلام احمد اتنا سادہ تھا کہ بعض اوقات راکھ سے روٹی بھی کھا لیتا تھا۔سیرت المہدی میں لکھا ہے کہ بیان کیا مجھ سے والد صاحب نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک بار بچپن میں اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا۔ انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ بتایا کہ یہ لے لو۔ حضرت صاحب نے کہا نہیں یہ میں نہیں لیتا۔ انہوں نے کوئی اور چیز بتائی۔ حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا۔ وہ اس وقت کسی بات پر چڑی بیٹھی تھیں۔ سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھا لو۔ حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہو گیا۔ یہ حضرت صاحب کا بچپن کا واقعہ ہے۔
    ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا: حضرت مسیح موعود اپنے جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض مرتبہ حب حضور جراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کا ایڑھی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بار ہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوتاتھا اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لئے گرگابی ہدیہ لاتا تو بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے۔ اور بائیاں دائیں میں چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے۔
    کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا صدری ٹوپی عمامہ رات کو اتار کر تکئے کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانگ دیتے ہیں، وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن دیکھ لے تو سر پیٹ لے (سیرت المہدی حصہ دوم ص 128)۔
    مرزا قادیانی نے قرآن مجید اور فارسی کی چند کتب فضل الہٰی نامی ایک شخص سے پڑھیں۔ 17،18 سال کی عمر میں گل علی شاہ نامی شخص سے نحو‘ منطق اور حکمت کی تعلیم حاصل کی۔ طبابت اپنے والد غلام مرتضیٰ سے سیکھی۔انگریزی کی 2کتابیں ڈاکٹر امیر شاہ سے پڑھتا ہے۔ یہ شخص بڑا قابل یا ذہین فطین نہ تھا۔ نالائقی کا یہ عالم تھا کہ مختاری کے امتحان میں فیل ہو گیا تھا۔
    مرزا غلام احمد 1864سے لے کر 1868تک سیالکوٹ کی کچہری میں 15 روپے ماہوار تنخواہ پر نوکری کرتا ہے۔ اس شخص کی بے ایمانی کا یہ عالم تھا کہ اس کے دوست لنگر خانے کے معاملات میں اس پر خورد برد کا الزام لگایا کرتے ۔
    قارئین کرام!جب ہم اس شخص کے حالات زندگی کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو انگریز نے بڑی ہوشیاری سے اس منصب کے لئے تیار کیا۔ یہ شخص گرگٹ کی طرح اپنے آپ کو بدلتا رہا۔
    مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی جھوٹی نبوت ہموارکرنے کے لئے اپنے آپ کو مبلغ اسلام کے طور پر متعارف کروایا۔ اس نے عیسائیوں ،ہندوؤں اور آریوں کے ساتھ کچھ مناظرے کیے۔ مسلمان قوم جذباتی تو ہے ہی‘ انہوں نے جب دیکھا کہ ایک شخص غیر مسلمانوں کے ساتھ مناظرے کرتا ہے تو اس کی تحسین کی ۔ اس طرح اس نے کچھ مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کیں۔ 1880ء سے پہلے کی بات ہے کہ مرزا نے اسلام کی صداقت پر برا ہین احمد کے نام سے 50 جلدوں پر مشتمل کتاب لکھنے کا اعلان کیا۔ اس نے قوم سے اس کتاب کی طباعت کے لئے چندے کی اپیل کر دی۔ لوگوں نے خطیر رقوم چندے کی مد میں عطا کی۔
     1880ء میں مرزا اس کتاب کی ابتدائی 2 جلدیں منظر عام پر لاتا ہے۔ قارئین کو تعجب ہو گا کہ ان دونوں جلدوں کے صفحات صرف 138تھے۔5 جلدیں شائع کر کے کام کو روک دیا۔ جب قوم نے سوال کیا کہ مرزا صاحب آپ نے تو 50 جلدیں شائع کرنے کا کہا تھا، اب 5 شائع کر کے بس کیوں کر بیٹھے ہیں تو مرزا نے بڑی ڈھٹائی سے جواب دیا کہ 5 اور50 میں صفر کا فرق ہوتا ہے۔ اگر 50 سے صفر ختم کر دیں تو باقی5 رہ جاتا ہے۔
    قارئین کرام!اگر ہم مرزا غلام احمدقادیانی کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مرزا کا تعلق اس خاندان سے تھا جو انگریزوں کا نہ صرف وفادار تھا بلکہ ان سے شدید محبت کرتا تھا۔ مرزا غلام احمد ان محدود چند لوگوں میں سے تھا جو ہندوستانی ہونے کے باوجود اپنے ہم وطنوں کو سدا غلام دیکھنا چاہتا تھا۔انگریز ہندوستان پر لمبی مدت کے لیے حکومت کرنا چاہتا تھا۔ صرف مسلمان ایسی قوم تھی جو اس کے ساتھ مدتوں جہاد کرتی رہی۔انگریز چاہتا تھا کہ اسے کوئی ایسا شخص ملے جو مذہبی لبادے میں مسلمان قوم کو انگریزی حکومت کا وفادار بنائے۔ اس مقصد کے لیے انہیں مرزا غلام احمد بڑا موزوں نظر آتا ہے چنانچہ مرزا غلام احمد کو نبی بنانے کی 2بڑی وجوہ تھیں، ایک تو انگریز کی اطاعت اور فرمانبرداری کو دل و جان سے قبول کرنا۔ دوسرا انگریز حکومت کے استحکام کے لئے جہاد کو حرام قرار دینا۔ان2 بڑے مقاصد کے حصول کے لئے آئیے مرزا کے اپنے الفاظ پڑھتے ہیں۔
    میں نے مخالفت جہاد اور انگریزی حکومت کی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو 50 الماریاں بھر جاتی ہیں۔ میں نے ان کتابوں کو بلاد عرب مصر‘ شام ‘ کابل اور روم تک پہنچا دی ہیں۔ میری کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیر خواہ ہو جائیں ۔ جہاد کے جوش دینے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔
    قارئین کرام! جب انگریز غاصبانہ طور پر ہندوستان پر قابض تھا، عین اس موقع پر قوم کو انگریزوں کی دائمی غلامی کی تلقین کرنا کون سا مذہب ہو سکتا ہے؟دنیا کا کوئی بھی مذہب غلامی اور ذلت کی زندگی بسر کرنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ یہ ایک جھوٹے مدعی نبوت کا جھوٹا مذہب تھا جو اپنے ہم وطنوں کو سدا غلام دیکھنا پسند کرتا تھا۔اس موقع پر ہم علامہ اقبالؒکے تاریخی الفاظ کا تذکرہ کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا:
    ’’میں اپنے دل میں اس حوالے سے کوئی شک و شبہ نہیں رکھتا کہ قادیانی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں‘‘۔
    قارئین کرام!بلاشبہ مرزا غلام احمد اسلام اور ہندوستان دونوں کا غدار تھا۔ وہ انگریز کو اولی الامر قراردیتا تھا۔ وہ انگریز حکومت کو اپنی محسن حکومت قرار دیتا۔ انگریز وہ قوم ہے جنہوں نے ہندوستان لوٹا اور برباد کر کے رکھ دیا۔ وہ مجاہدین آزادی جنہوں نے انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا ،انہیں اپنی تحریروں میں مرزا غلام احمد چور‘ قزاق اور حرامی تک قرار دیتا ہے۔
    مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کا پہلا دور1882ء سے شروع ہوتا ہے جب اس نے براہین احمدیہ کی تیسری جلد شائع کی ۔ 2سال کے بعد براہین احمدیہ کی چوتھی جلد شائع کی تو ان کتابوں میں اسلامی عقائد سے انحراف شروع ہوتا ہے۔ فضول دعوؤں اور الہامات کی بھرمار کر دی گئی۔
     اس نے اللہ تعالیٰ سے مخاطب اور ہم کلام ہونے سمیت متعدد دعوے کر ڈالے۔قا رئین کرام! اس بات کو یاد رکھیں کہ جھوٹا‘ مکار اور فراڈ ی شخص ہمیشہ ذو معنی بات کرتا ہے۔ اس نے کبھی اپنے آپ کو نذیر‘ کبھی مامور من اللہ‘ کبھی محدث‘ کبھی مجدد جیسے الفاظ سے پکارا۔ اسلام اور قرآن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی ابہام نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف میں ارشاد فرمایا:
    ’’سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب (قرآن) نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔‘‘
    مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مستحق حمد و ثنا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایسی کتاب نازل فرمائی جو اپنے مطالب صاف صاف بیان کرتی ہے۔ نہ اس کے مطالب میں کوئی پیچ و خم ہے اور نہ اس کے انداز میں کوئی پیچیدگی یا الجھاؤ ہے۔
    قارئین کرام!یاد رکھئے ،جتنے بھی جھوٹے اور مکار لوگ ہوتے ہیں ان کی گفتگو سنیں ان کی تحریریں پڑھیں اس میں الجھاؤ ہو گا۔ بے سرو پا اور بے تکی باتیں ہوں گی۔ اس طرح کا فلسفہ بگھارا جائے گا کہ عام انسان کو اس کی سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ یہی کام مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا۔ اس نے پہلے ہی دن نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ آہستہ آہستہ وہ آگے بڑھتا ہے۔ پہلے مرحلہ میں وہ 23مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں باقاعدہ لوگوں سے بیعت کرنے کا آغاز کرتا ہے۔
    قارئین کرام! اپنے مریدوں سے بیعت لینا لوگوں کے لئے عام سی بات تھی۔ بر صغیر میں ہزاروں مشائخ اور پیر ہیں جو لوگوں سے بیعت لیتے ہیں۔ چونکہ یہ بطور مبلغ لوگوں میں مشہور تھا اس لئے کسی نے اس کی بیعت لینے پر زیادہ تنقید نہیں کی۔مرزا غلام احمد کی جھوٹی نبوت کا دوسرا دور 1890سے شروع ہو کر 1900تک رہتا ہے۔ اس دور میں مرزا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں واپس آنے ‘ آسمانوں میں ان کا زندہ اٹھایا جانا ،اس کا انکار کرتا ہے۔
    پھر وہ ایک قدم آگے بڑھتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں ہی وہ مسیح موعود ہوں یعنی وہ عیسیٰ جن کے دوبارہ دنیا میں آنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔وہ پھر مثیل مسیح یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی مثل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ پھر اس نے صاحب کن فیکون اور امام زمان ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا۔
    مرزا تھوڑا سا آگے بڑھتا ہے اور 1899ء میں اپنے ظلی بروزی اور لغوی ہونے کا اظہار کر دیا۔ اب جھوٹی نبوت کا تیسرا اور آخری دور شروع ہوتا ہے۔ یہ دور1901ء سے شروع ہو کر مرزا کی وفات 1908تک ہے۔ 1901میں مرزا غلام احمد نے بڑے واضح الفاظ میں اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ جن لوگوں نے اس کی نبوت کو قبول نہ کیا انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
    قارئین کرام!اب ہم مرزا کے غیر اسلامی عقائد اور کفریہ نظریات کی بات کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو الفاظ اس نے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں سچ پوچھئے تو ان کو لکھنے کی ہمت نہیں ۔ اسی طرح وہ اللہ کے رسولکے بارے میں بھی جو الفاظ اپنی کتابوں میں لکھتا ہے انہیں میں بامر مجبوری لکھوں گا کہ نقل کفر کفر نہ باشد۔
    قرآن پاک کے بارے میں اس کا بیٹا بشیر احمد لکھتا ہے کہ قرآن دنیا سے اٹھ گیا ہے۔ محمدبروزی رنگ میں مرزا کی صورت میں دوبارہ تشریف لائے تاکہ قرآن شریف پھر اتارا جائے۔
    حدیث شریف کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ جو حدیث میری وحی کی تائید کرے گی وہ قبول ہو گی اور باقی احادیث کو (معاذ اللہ) ردی کی طرح پھینک دیا جائے گا۔
    مرزا خزائن نامی کتاب میں لکھتا ہے کہ ’’میرا اور محمدکا وجود ایک ہی ہو گیا لہذا جو مجھ میں اور مصطفی کے مابین فرق کرتا ہے اس نے نہ مجھے دیکھا اور نہ ہی پہچانا۔
    مرزا کا بیٹا کہتا ہے: قرآن بار بار پکار کر کہہ رہا ہے کہ محمدایک بار پھر دنیا میں آئے گا اور یہ مرزا قادیانی ہے ۔ آگے لکھتا ہے… پس مسیح موعود (مرزا قادیانی) خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ تذکرہ صفحہ 652میں لکھتا ہے مرزا کو بھی حوض کوثر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کے ہفوات ہیں (کلمہ الفصل ص105‘158) جن کو طوالت کے ڈر سے چھوڑ کے آگے بڑھتے ہیں۔
(جاری ہے)
 
مزید پڑھیں:- - - -عورت کے ٹیڑھ پن سے فائدہ اٹھاؤ ، حسن سے لطف اندوز ہو

شیئر: