Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اعظم گڑھ جلنے سے بال بال بچ گیا

ظفر قطب ۔ لکھنؤ
  مشرقی یوپی میں اعظم گڑھ وہ ضلع ہے جہاں خواندگی کی شرح آزادی سے قبل بھی اور آج بھی ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے بہت اچھی ہے۔ یوپی کا یہ واحد ضلع ہے جہاں سب سے زیادہ اچھے اورپڑھے لکھے افراد رہتے ہیں ۔ان میں اقلیتی فرقہ کو اولیت حاصل ہے اسی لئے تنگ نظروں کی نگاہوں میں یہ ضلع ہمیشہ خار کی طرح چبھتا رہا ہے اسی لئے آر ایس ایس اور اس کی قبیل کی جماعتوں نے اس کا نام آتنک گڑھ رکھ دیا تھا۔ اس کا رشتہ دہشتگردی سے جوڑنے کیلئے انھوں نے بڑی ناکام کوششیں کیں لیکن اسکے مقابلے ملک کے دوسرے حصوں میں انہی کے لوگ دہشتگردی میں زیادہ ملوث پائے گئے۔ اعظم گڑھ اسی لئے ہمیشہ بڑا حساس ضلع تسلیم کیا جاتا رہا اور شرپسندوں کی نظروں میں بھی وہ ہمیشہ کھٹکتا رہاہے اسی لئے حال میں جو تازہ ہنگامہ ضلع کے اہم قصبہ سرائے میر میں پیش آیا وہ اچانک نہیں تھا بلکہ فرقہ پرستوں کی بڑی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔یہاں سوشل سائٹ پر کئے جانے والے ایک انتہائی خطرناک کمنٹ نے زبردست ہنگامہ کی شکل اختیار کرلی ۔ اگر اس میں 2فرقوں کے سمجھ دار حضرات نے دانش مندی کا ثبوت نہ دیا ہوتا تو پورا ضلع ہی نہیں پورا مشرقی اترپردیش آگ و خون کی لپیٹ میں آجاتا لیکن خیریت گزری دونوں فرقوں نے سمجھ داری سے کام لیا اور بہت جلد حالات پر قابو پالیا گیا۔
     امیت ساہو ولد سوہن لال نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعہ انتہائی سنگین نوعیت کا پوسٹ وائرل کردیا جس میں اسلام اور پیغمبر ،امن و انسانیت کی شان میں گستاخی کی تھی۔ ظاہر بات ہے کہ اس خطرناک مواد پر کوئی بھی شریف و انصاف پسند انسان اعتراض کرنے سے نہیں رک سکتا۔ یہ بات نہ صرف سرائے میر اوراعظم گڑھ کے اقلیتی فرقہ کے لوگوں نے محسوس کی بلکہ اکثریتی فرقہ نے بھی امیت ساہو کی گندی ذہنیت کی مذمت کی۔ اصل میں آر ایس ایس کا یہ پراناممبر بہت پہلے سے اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث تھا ۔اسکے ریا ست میں پھیلے ایسی تنظیموں کے ممبران سے قریبی تعلقات تھے جو فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر سماج کے سیکولر تانے بانے کو تار تار کرنے کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں ۔ امیت ساہو اس مشن پر عرصہ سے لگا ہوا تھا لیکن ہماری سائبر پولیس اور مقامی خفیہ محکمہ نے اسکی جانب سے آنکھیں بند کرلی تھیں۔وہ صرف اقلیتی فرقہ کے نوجوانوں کو دور بین لگا کر جائزہ لے رہا تھا کہ کون کہاں آتا جاتا ہے اور کس طرح ہونہار طلباء کو دہشتگرد تنظیموں میں ملوث دکھا کر انکے مستقبل کو خراب کردیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اعظم گڑھ کے حالیہ شورش کا ذمہ دار امیت ساہو جو عرصہ سے فیس بک اور واٹس ایپ پر اس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف تھا ،کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ اسکے ساتھیوں کی نشا ند ہی نہیں کی جاسکی۔ اب بھی اسکے ساتھی سرگرم ہیں لیکن خفیہ محکمہ صرف لکیر پیٹ رہا ہے۔ امیت ساہو نے جس پیغام کو اپنے فیس بک سے دوسروں کو وائرل کیا وہ مواد دراصل2014ء کا ہے جس کو جھانسی سے ایک شدت پسند تنظیم کے ممبر نے امیت ساہو کو بھیجا تھا اور اس نے24 اپریل 2018ء کو اسے وائرل کردیا ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اس پیغام سے ہمارا خفیہ نظام بالکل لا علم تھا ۔ اسکے برخلاف عوام کو اسکا پتہ چل گیا اور وہ تلملا اٹھے۔ اسکے خلاف انتہائی پرسکون طریقے پر لوگوں نے سرائے میر تھانے میں جاکر ایف آئی آر درج کرائی ۔ اس شکایت کو پولیس نے بہت بے قدری سے دیکھا، اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جس سے امیت ساہو اور اسکے ساتھیوں کی ہمت بڑھتی گئی جس کیخلاف مجلس اتحاد المسلمین کے مقامی یونٹ نے توجہ دی اور اپنے لیڈر کلیم جامعی کی قیادت میں تھانے پہنچے۔ ملزم امیت ساہو کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ اسکے بعد پولیس نے اسے بہت ہلکی دفعات کے تحت گرفتار کرلیا لیکن اقلیتی فرقہ میں بڑی ناراضی تھی کہ انتظامیہ بے اعتنائی برت کر جرم کو بہت ہلکا ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے اسلئے ایم آئی ایم نے سختی سے کام لیا اور قانون و آئین کے مطابق خطاکار امیت ساہو پر قومی سلامتی ایکٹ کے تحت مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ کیا، کیونکہ اس قسم کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سوالے بیانات پر انڈین پولیس قومی سلامتی ایکٹ کے تحت ،مقدمہ قائم کرتی رہتی ہے جیسا کہ حال میں کئی دلت لیڈروں کو اسی قانون کے تحت پولیس نے جیل بھیجا ہے ۔
     سرائے میر پولیس جب دشمنِ امن امیت ساہوکیخلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرنے کے سلسلہ میں بہانے بازی کررہی تھی تو عوام مشتعل ہوکر سڑکوں پر آگئے اور ہندوستان کے جمہوری آئین کے تحت پرامن مظاہرہ کرنے لگے۔ اس دوران نعرہ بازی ہوئی اور تھانے کو گھیر لیا گیا۔ سرائے میر کے تھانہ انچارج نے یہاں بھی اپنی ضد دکھائی اور ملزم کیخلاف قومی سلامتی ایکٹ لگانے سے انکار کردیا۔ اسکے بعد پولیس کثیر تعداد میں وہاں پہنچ گئی ۔شروع میںہی اس نے طاقت کا استعمال کرلیا جس سے ماحول خراب ہوگیا۔ اس کے بعد بھیڑ نے بھی پتھراؤ شروع کردیا۔ اسکے جواب میں پولیس نے بھیڑ منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ شروع کردی اور آنسو گیس کے گولے داغے جس سے بہت سے افراد زخمی ہوگئے۔ کچھ پولیس والوں کو بھی چوٹ لگی ۔ ان میں ایس ڈی ایم بھی شامل ہیں ۔اسکے بعد کئی تھانوں کی پولیس 2کمپنی پی اے سی لے کر ایس پی اعظم گڑھ موقع پرپہنچ گئی ۔ تب جاکر حالات پر قابو حاصل کیا گیا۔ اس سلسلے میں پولیس نے تقریباً 2درجن احتجاج کرنیوالوں کو گرفتار کرلیا۔ کشیدگی کے پیش نظر قصبہ میں فورس تعینات کردی گئی۔ سرائے میر کے پٹھان ٹولہ میں مقیم عبید الرحمان نے جمعہ کو تھانے میں نئی بازار کے امیت ساہو کیخلاف رپورٹ لکھائی تھی ۔ امیت کیخلاف سوشل سائٹ کے ذریعہ اسلام اور رسولپر غلط طریقہ پر خیال آرائی کرنے کے الزام میں مقدمہ قائم کرکے گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ ہفتہ 28اپریل کو جب ایم آئی ایم کارکنوں کو پتہ چلا کہ پولیس امیت کو بہت معمولی دفعہ میں مقدمہ قائم کرکے اسے آسانی سے چھوڑ دینا چاہتی ہے تو مجلس اتحاد المسلمین کے ضلع صدر کلیم جامعی ، ندیم اور ممتاز قریشی کی قیادت میں ایک وفد نے پولیس افسران سے رابطہ قائم کرکے معاملہ کا احساس کرایا لیکن پولیس نے ایک نہ سنی ۔ اتنے میں سرائے میر قصبہ بند کرادیا گیا اور ہزاروں افراد نے تھانے کامحاصرہ کرلیا۔ ہجوم امیت ساہو کیخلاف قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کے نعرے لگانے لگا۔اس پر ایس ڈی ایم نظام آباد باگیش شکلا نے سی او پھول پور ، روی شنکر پرساد کے علاوہ پھول پور ، دیدار گنج ، نظام آباد تھانوں کی پولیس اور پی اے سی کو طلب کرکے بھیڑ کو منتشر کرنے کا حکم دے دیا اور پھر تشدد کے واقعات پیش آئے۔
    اس وقت بھی ضلع میں ہیجان آمیز سکون ہے لیکن حساس قصبہ سرائے میر میں اب بھی سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ اعظم گڑھ کے ایس پی اجے کمار ساہنی کا تبادلہ کرکے علی گڑھ بھیج دیا گیا ہے ۔کہتے ہیںکہ بی جے پی کے مقامی لیڈران و آر ایس ایس بہت پہلے سے ضلع کپتان اجے ساہنی سے ناراض تھے۔ ان پر سماج وادی پارٹی کی حمایت کرنے کا الزام لگایا کرتے تھے اس لئے موقع پاکر انھیں نشانے پر لے لیا گیا۔آر ایس ایس اور اس کی معاون تنظیمیں خاموش نہیں بیٹھیں۔ وہ آج بھی پولیس کو دھمکا رہی ہیں کہ امیت ساہو کیخلاف کوئی سنگین دفعہ چارج شیٹ میں ہرگز نہ لگائی جائے نیز گرفتارمسلم نوجوانوں پر سنگین دفعات میں مقدمات قائم کیے جائیں۔ ہندو سماج نام کی ایک تنظیم کے رضاکاروں نے پولیس کیخلاف تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے۔ اسکے لیڈروں نے حال میں سرائے میر تھانے کے باہر پریس کانفرنس کرڈالی لیکن نئے ایس پی خاموش ہیں مقامی خفیہ پولیس بھی معاملہ کی سنگینی کو محسوس نہیں کررہی۔ضرورت تو اس بات کی ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کے شتر بے مہار پر قد غن لگائے اور اور اس سلسلہ میں بھی کوئی سخت قانون بنا کر منافرت پھیلانے والوں کے اس طوفان کو روکے۔
مزید پڑھیں:- - - -لکھنؤ کو اسمارٹ سٹی بنانے کیلئے عمل درکار ہے، بیانات نہیں

شیئر:

متعلقہ خبریں