Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”زندگی میں کبھی ”برسی“نہ آنے دینا“

شہزاد اعظم....گزشتہ سے پیوستہ(3)
آج پھر میں دفتر سے تھک ہار کر نکلا اور غزل کے دروازے تک پہنچا۔ یہ وہ در تھا جس پر دستک کے لئے ہاتھ بڑھاتے وقت مجھے یوں محسوس ہوتاتھا جیسے کوئی شہنشاہ اپنی سلطنت کے بابِ داخلہ میں قدم رکھنے سے قبل اپنی آمد کا اعلان کر رہا ہے۔دستک کے ساتھ ہی اس ”جہانِ الفت“کی ملکہ نے دروازہ کھولا ، ”مہکار، جھنکار اور چہکار“نے میری پذیرائی کی کیونکہ وہی نکاح کے دن والی گلاب کی خوشبو سے فضامعطرتھی، ماتھے کے جھومر، کان کی بالیوں، گلے کے ہار،کلائی کی چوڑیوں اور پیروں کی پازیب کے ہم آواز ہونے سے اک جھنکار سنائی دے رہی تھی ، ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سازِ محبت ہے جو نغمہ بارہونے کے لئے اپنے گلوکار کا منتظر ہے ۔ دروازہ کھلتے ہی غزل کی صدا آئی ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاة“،زبان نے جواب دیا”علیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاة“۔ میں گھر میں داخل ہوا، اس نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا، میں دیکھ کر حیران رہ گیا،سر سے پاﺅں تک سفید دوپٹے سے چھپا اک سراپامیرے سامنے تھا، چہرہ دیکھا تو ایسا لگا جیسے چاندکے گرد تیرتے بادل، چاندنی کے باعث سفید دکھائی دے رہے ہیں، اس نے کہا پہلے وضو کر لیجئے، ہم دونوں پہلے ایک ایک سپارہ پڑھیں گے، اللہ کریم کا شکر ادا کریں گے ، کھانا پینا اور باتیں سب بعد میں ہوں گی۔یوں ہم نے قرآن کریم کی تلاوت کی اوردعا مانگی۔میرے دل نے شکر ادا کیا کہ رب کریم نے مجھے مسلمان بنایا، مسلم بیوی عطا فرمائی ،گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائی اور نعمتوں سے نوازا، سبحان اللہ۔
اسے بھی پڑھئے:میں نے یوں حُسن کی تشہیر نہ دیکھی تھی کبھی
اب وہ باورچی خانے میں گئی اوروہاں سے ایک خوان لا کر میز پر سجا دیا، اس میں شامی کباب تھے، پلاﺅ تھا، رائتہ تھا، آلو گوشت تھا اور سلاد تھی۔ خوان میز پر کھتے ہی اس نے وہ سفید دوپٹہ اُتار دیا، میں پہلے اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا مگراب اسے دیکھ کر ”بے زبان“ ہو گیا، وہ تمام تر نسوانی طمطراق کے ساتھ فیروزی ساڑھی میںدلہن بنی کھڑی تھی، میری ”بے زبانی “دیکھ کر اتراتے ہوئے بولی،اپنی نظریں پکانے والی پر نہیںپکوان پر رکھیں،کھانا کھائیں، یہ کہتے ہوئے وہ کرسی کھینچ کر میرے سامنے آبیٹھی، پھر تقاضائے وقت اور مخاطب کی کیفیت کا ادراک کرتے ہوئے اس نے خود ہی پلیٹ میں پلاﺅنکال کرمجھے پیش کیا، اس پر آلو گوشت ڈالا اور شامی کباب کے ساتھ سلاد میرے آگے بڑھا دی۔ اب اس نے مجھے باتوں میں الجھانا مناسب سمجھاتو کہنے لگی کہ ”ہماری زبان ”اُردو“انگریزی سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے۔ اب دیکھئے ناں اُن کے ہاں شادی کی خوشیوں، دعوتوں، محبتوں، اُمنگوں اور دل کی باتوں میں مگن رہ کر 365دن گزارنے کا نام ”اینی ورسری“ ہے اور طلاق کے بعدتنہائی میں روتے، آہیں بھرتے، کسی زندہ لاش کی طرح گھسٹ گھسٹ کر زندگی کے 365دن ”کاٹنے“ کا نام بھی ”اینی ورسری “ہے۔ اس کے برخلاف اردو میں مسرت و شادمانی کے ساتھ گزرے زن و شو کی زندگی کے 365دن ”سالگرہ“ سے موسوم کئے جاتے ہیں جبکہ طلاق کے بعد فراق اور تنہائی کے عذاب میں گھٹ گھٹ کر 365گزارنے کو ”برسی“ قرار دیاجاتاہے۔میں نے کہا کہ اتنی گہری باتیں آخر آپ کو کون سکھاتا ہے؟ غزل نے ہمیشہ کی طرح وہی جواب دیاکہ یہ سب ”مس ٹیوٹر“کی عطا ہے۔ یہ کہتے ہی اس کی آنکھوں میں اچانک آنسوامنڈ آئے اور نے بھرائی ہوئی آواز میں مجھ سے کہاکہ ”اے میرے شاعر! میں آپ کی غزل، آپ سے التجاءکرتی ہوںکہ میری زندگی میں کبھی ”برسی“نہ آنے دینا۔“ 
کھانے کے بعد غزل نے میرے سامنے شیشے کا ننھا سا ڈول اور ایک شیشی لا کر رکھ دی ،کہنے لگی کہ آپ بھی گھر کے کام میںاپنی بیگم کا ہاتھ بٹادیا کریں، چلیں اس ڈول میں ستو گھولیں، میں برف کے مکعب ا ور گلاس لے کر آتی ہوں۔ میں نے تھوڑا سا ستو پانی میں ڈالا اور چمچے سے خوب ہلایا۔مجھے یہ منظر بہت خوبصورت ا ور بامعنی لگ رہا تھا۔میں اسے غور سے دیکھ رہا تھاکیونکہ ڈول میں بھنور کی مانند ستو بھی پانی کے ساتھ گردش کر رہا تھا اور سارا ستو مرکز میں اکٹھا ہو کر گہرائی میں اتر رہا تھا۔اسی اثناءمیں غزل آئی اورکہنے لگی کہ ”لگتا ہے جنابِ شاعر کسی بحر میں گُم ہو گئے ہیں، تخئیل کیا ہے، مجھے بھی بتائیں تاکہ میں بتا سکوں کہ آپ کی یہ غزل کیسی رہے گی؟ میں نے کہا کہ ستو کو دیکھ رہا ہوں، کس طرح پانی کے ساتھ گردش کرتے ہوئے گہرائی میںاتر گیا ہے۔ میری بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ گویا ہوئی کہ ”بالکل اسی طرح جس طرح مرورِ ایام کے ساتھ گردش کرتی آپ کی محبت، آپ کی بیوی کے دل کی گہرائیوں میں اُتر چکی ہے۔اے مرے شاعر!مابدولت کا مشورہ ہے کہ یہ غزل بہت اچھی رہے گی، بس ایک عرض ہے کہ غزل کو ادھورا نہ چھوڑنا، مکمل ضرور کرنا۔

شیئر: