Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سسراعتراف کر رہے تھے”سسرال نہیں، بہو مثالی ہے “

فرخندہ شاہد۔ریاض
سعدیہ کی والدہ بیٹی کو سمجھا رہی تھیں کہ دیکھو بیٹا بعض لوگ اپنا اختیار تو دوسروں کے سپرد کر دیتے ہیں لیکن اگر کوئی یہ ذمہ داری ان سے بہتر انداز میں نبھائے تو وہ یہ برداشت نہیں کر پا تے اور بلاوجہ کی تنقید شروع کر دیتے ہیں بلکہ یوں سمجھو کہ اپنی حکمرانی میں کسی اورکی شراکت برداشت نہیں کر پا تے ۔تم ایسا طرز عمل اپناﺅ کہ وہ تمہیں اہمیت ملنے پر خود کو غیر اہم نہ سمجھیں بلکہ ان کویہ یقین دلاﺅ کہ گھر میں ان کا وجود بھی بہت اہم ہے اور تم بھی گھر کے ہر کام کاج میں ان کی رائے کی محتاج ہو پھر مجھے یقین ہے کہ وہ تمہارے کاموں پر نکتہ چینی نہیں کریں گی ۔
فرزانہ بیگم نے بڑی دانشمندی سے بیٹی کو سمجھایا تھا ۔انہیں یقین تھا کی یہ ترکیب کارگر ثابت ہو گی اور وہی ہوا ۔سعدیہ دل سے اپنی امی کی عقل مندی کی قائل ہوگئی۔ کھانا پکانے سے پہلے سعدیہ اپنی ساس سے ایک بار طریقہ پوچھ لیتی اور پھر اس طریقے میں اپنی مرضی سے ردوبدل کرکے پکا لیتی اور جب کوئی تعریف کرتا تو فوراً کریڈٹ اپنی ساس کو دے دیتی اور کہتی کہ مزیدار کیوں نہ ہوتا،امی سے پوچھ پوچھ کر بنایا ہے اور زبیدہ بیگم یہ سن کر مطمئن ہو جاتیں ۔ اسی طرح زندگی میںجو بھی چھوٹے موٹے مرحلے آتے، وہ انہیں اسی طرح دانشمندی سے نمٹاتی۔
اسے بھی پڑھئے:گھر میں روپے پیسے کی کمی نہ تھی، سلیقے کا فقدان تھا
اب اس کی شادی کو 3 برس ہونے کو آئے تھے۔ مجموعی طور پر سسرال سے تعلقات خوشگوار تھے اور یہ سب سعدیہ کے صبر اور معاملہ فہمی کی وجہ سے ممکن ہوا تھا لیکن اگر کبھی کسی رشتہ دار یا محلے میں کسی ساس بہو کی کھٹ پٹ کے بارے میں پتہ چلتا تو اس کی نندیں اور ساس ہمیشہ جتانے لگ جاتیں کہ دیکھو ہم کتنے اچھے ہیں ۔کتنا خیال رکھتے ہیں تمہارا ۔آج تک ہمارے گھر میں معمولی سی نوک جھونک بھی نہیں ہوئی اور وہ فوراً بول پڑتی کہ واقعی میں بہت خوش قسمت ہوں جو مجھے اتنا اچھا سسرال ملا۔
آج شازیہ کے کالج مین فنکشن تھا اور اچانک اسے یاد آیا کہ اس سوٹ کے ساتھ تو سلورسینڈل اچھا لگے گا۔ اس نے فوراً کہا، ”بھابھی مجھے کل کے فنکشن کے لئے آپ کے سلور سینڈل چاہئیں۔“وہ پرسوں تم اپنی سہیلی کی سالگرہ میں پہن کرگئی تھیں، تمہارے ہی کمرے میں پڑے ہوں گے ،سعدیہ نے جواب دیا۔”کیا ضرورت ہے اتنا تیار ہو کر کالج جانے کی ،خواہ مخواہ نظر لگ جاتی ہے۔“ زبیدہ بیگم نے بیٹی کو ڈانٹا ۔سعدیہ نے سر اٹھاکر نند کو دیکھا ، اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ زبیدہ بیگم کے سب بچے بہت خوبصورت تھے اور یہ شازیہ کی خوبصورتی ہی تھی کہ بی اے پاس کرنے سے پہلے ہی اس کا اتنا اچھا رشتہ آگیا کہ گھر والوں کو ہاں کرنی پڑگئی۔ عدنان رشتے میں شازیہ کے دور کے چچا کا بیٹا تھا ۔ان کی فیملی کافی عرصے سے خلیجی ملک میں مقیم تھی ۔ عدنان تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک بہت اچھی کمپنی میں بڑے اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ اچھی خاصی خوشحال فیملی تھی پھر دیکھے بھالے لوگ بھی تھے، اس لئے دیر کرنے یا مہلت مانگنے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی لہٰذا چٹ منگنی، پٹ بیاہ والا معا ملہ ہوگیا۔
اب سعدیہ پردہری ذمہ داریاں آ پڑی تھیں۔ شازیہ کے ساتھ بازاروں کے چکر بھی لگتے اور گھر آکر گھر والوں کی تمام ذمہ داریاں بھی سنبھالنی پڑتیں۔ بازار سے آتے ساتھ ہی نند تو خوشی خوشی اپنی شاپنگ دکھانے میں مصروف ہو جاتی اور سعدیہ کچن میں گھس جاتی۔ اب سعدیہ کی گود میں ننھی پری مہر بھی آگئی تھی۔ یہ تو غنیمت تھاکہ وہ دادا، دادی اور چاچو سے بہت مانوس تھی اور سعدیہ کو زیادہ نہیں ستاتی تھی ورنہ تو اس کے لئے بڑی مشکل ہو جاتی۔ مہر سارا دن دادا دادی چاچو اور پھو پھیوں کی گود میں کھیلتی اور رات کو سونے کے کئے سعدیہ کی گود میں آجاتی۔ کبھی کبھار تو وہ بیٹی کو پیار کرنے کوہی ترس جاتی تھی۔ وہ کبھی اپنی امی سے اس کی شکایت کرتی تو وہ بڑے پیار سے سمجھاتیں کہ بیٹا! کاموں کی تھکاوٹ تو رات کو سو کر اتر جاتی ہے ،شکر کرو کوئی ذہنی تناﺅ نہیں۔بس کچھ عرصے کی بات ہے، تمہارے دیور کی بھی شادی ہو جائے گی ۔ پھر تم پر سے کچھ ذمہ داری کم ہو جائے گی ۔یہ سن کر وہ ٹھنڈی سانس بھر کر سر ہلا لیتی لیکن دیور سے پہلے ہی اس کی چھوٹی نند بیاہ کر جا رہی تھی اور اس شادی نے تو اسے تھکا ہی ڈالا تھا۔ آج بھی وہ شازیہ کے ساتھ شادی کی شاپنگ کرکے جب گھر آئی تو پتہ چلا کہ شازیہ کی نند اور ساس اس کے ناپ وغیرہ لینے کے لئے آئی ہوئی ہیں۔ اب جھٹ سے کچن کے اندر بھاگی اور پرتکلف کھانا تیار کرنے میں لگ گئی۔ شکرہے ہر کام مناسب وقت پر اور بہت اچھے طریقے سے ہو گیا۔جب نند نے شازیہ کی دل کھول کر تعریف کی تو سعدیہ کو ایسا لگا کہ محنت وصول ہو گئی۔ واقعی بھابھی آپ کے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے، ہر چیز لاجواب ہوتی ہے ۔شازیہ کی نند نے جب تیسری بار یہ جملہ دہرایا تو نادیہ بول پڑی، بھابھی ہر چیز امی سے پوچھ کرپکاتی ہیں۔بس یوں سمجھیں کہ ترکیب ساری امی کی اور محنت بھابی کی۔سعدیہ پھر بھی خوش ہو گئی کہ چلو محنت کرنے کی تعریف تو ہوگئی۔ انہی سوچوںمیں گم سعدیہ برتن سمیٹنے لگی۔ 
شازیہ کی شادی کے ہنگامے ختم ہوئے اور وہ اپنے گھر سدھار گئی ۔اب روز مرہ کے کام سعدیہ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھے۔ ہاں تین چار دن بعد شازیہ اپنے میاں کے ساتھ میکے کا رخ کرتی تو چائے اور کھانے پر خوب اہتمام ہوتا۔ ایسے میں سعدیہ کی مصروفیت بڑھ جاتی۔ شازیہ اپنے گھر کی بڑی بہو تھی ۔شادی کے دو ہفتے بعد اس سے بھی سسرال میں کھیر پکوائی کی رسم کروائی گئی۔ اس دن شازیہ بار بار ماں کو فون کئے جارہی تھی ۔وہ سسرال میں پہلی بار کچھ پکاتے ہوئے گھبرا رہی تھی ۔پھر وہ کھانا پکانے کی ماہر نہیں تھی اور آج اسے کھیر کے ساتھ ساتھ دوپہر کے کھانے کی بھی تیاری کرنی تھی۔ زبیدہ بیگم نے بیٹی کو کھانا پکانے کا طریقہ بھی بتا دیا اور اشیاءکے تناسب سے بھی آگاہ کر دیا۔ پاس کھڑی سعدیہ کاجی چاہا کہ فون ساس کے ہاتھ سے لے کر خود اس کی رہنمائی کر دے کیونکہ سعدیہ جانتی تھی کہ زبیدہ بیگم جو کچھ بتارہی ہیں اس طریقے سے شازیہ ہر گز اچھا نہیں پکا سکے گی۔ اس سے پہلے کہ اسے بات کرنے کا موقع ملتا۔ زبیدہ بیگم نے اللہ حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔
آج بہت عرصے بعد اس کے دیور احمر کے کچھ دوست آئے تھے۔” بھابھی پلیز! چائے کے ساتھ کچھ اور ہو سکے تو بنا دیجئے“، احمر نے اسے مخاطب کیا ۔اس نے جھٹ پٹ آلو ابالنے کے لئے رکھ دئیے ۔اتنی جلدی تو آلو کے کٹلس ہی بن سکتے تھے اور کچھ چیزیں بسکٹ، مٹھائی ،نمکو وغیرہ گھر میں موجود تھیں۔ سب کچھ ٹرے میں چائے کے ساتھ سجا کر احمر کو بلایا۔ بہت بہت شکریہ بھا بھی۔ وہ ہمیشہ ہی اپنی بھابی کی سلیقہ مندی اور سگھڑ پن کی کھل کر تعریف کرتا تھا۔ آج بھی وہ خوشی سے مسکرا دی۔ 
شام کو شازیہ کافون آیا تو وہ بہت ناراض ہو رہی تھی کہ امی پتہ نہیں آپ نے مجھے پکانے کا کیسا طریقہ بتایا تھا۔ کوئی چیز بھی مجھ سے ڈھنگ سے نہیں بنی۔ سسرال میں میری بڑی سبکی ہوئی۔ اس نے ماں سے بے حد خفگی کا اظہار کیا ۔ ارے بیٹا سنو تو سہی ،زبیدہ بیگم کہتے کہتے رہ گئیں اور شازیہ نے فون ہی بند کر دیا۔ خود ہی الٹا سیدھا پکا لیا ہو گا اور نام لگا رہی ہے ماں کا، زبیدہ بیگم دیر تک بڑبڑاتی رہیں۔ 
اب دو دن بعد شازیہ پھر ماں سے کسی کھانے کی ترکیب فون پر پوچھ رہی تھی۔ پتہ نہیںپچھلا تجربہ بھول گئی تھی یا ماں سے پوچھے بنا چارہ ہی نہیں تھا ۔آج سعدیہ، زبیدہ بیگم کے پاس نہیں تھی ورنہ ضرور ان کے ہاتھ سے موبائل لے کر شازیہ کو صحیح ترکیب بتا دیتی۔ شام کو عدنان اور شازیہ آگئے۔ عدنان تو چائے پیتے ہی جانے کے لئے اٹھ گیا کیونکہ وہ اپنے کسی دوست کے ہاں مدعو تھا۔سعدیہ کچھ دیر تو شازیہ کے ساتھ بیٹھی پھر اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔ بے شک عدنان نے رات کا کھانا یہاں نہیں کھانا تھا لیکن شازیہ تو موجود تھی اور گھر کی نئی بیاہی بیٹی کو تو دال سبزی نہیں کھلائی جا سکتی چنانچہ کچھ نہ کچھ اہتمام تو کرنا ضروری تھا۔وہ پورے انہماک سے کھانا پکانے میں مگن ہو گئی کہ اچانک اسے خیال آیا کہ شازیہ کاکہیں کچھ اورکھانے کو جی تو نہیں کر رہا۔ لاﺅنج میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسے ٹھٹھک کر رکنا پڑا۔ شازیہ دھواں دھار انداز میں رو رہی تھی۔ سب گھر والے بیٹھے اس کی طرف پریشانی سے دیکھ رہے تھے اور وہ ہچکیاں لے لے کر کہہ رہی تھی،” سچ امی! میں بتا نہیں سکتی کہ پورے سسرال والوں کے سامنے مجھے کتنی شرمندگی اٹھا نی پڑی ۔سب نے بہت مذاق اڑایا اور میرے بنائے ہوئے کھانے پر سب نے الگ الگ طریقے سے تبادلہ خیال کیا ۔ شرمندگی کے مارے میرا برا حال تھا۔ پتہ نہیں امی آپ کو مجھ سے کیا دشمنی تھی کہ آپ نے مجھے کھانا پکانے کے ایسے الٹے سیدھے طریقے بتائے ۔آج جب میں نے آپ کو فون کیا تو نوٹ بک اپنے پاس رکھی اور ہر چیز نوٹ کرتی گئی جیسا آپ نے بتایا، ویسا ہی سب کچھ کیا اور وہ اتنا بد مزا اور برا بنا کہ کیا بتاﺅں۔
ارے میں تیری ماں ہوں، دشمن تو نہیں۔ بیٹا میں ایسا کیوں کروں گی؟زبیدہ بیگم نے بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔تو شازیہ تم امی سے کیوں پوچھتی ہو۔ امی تو کافی عرصے سے آﺅٹ آف پریکٹس ہیں ۔تم بھابھی سے کیوں نہیں پوچھتیں؟ احمر نے بہن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔سعدیہ واپس جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اپنا ذکر سن کر رک گئی۔بھابھی بھی تو امی سے طریقہ پوچھ کر پکاتی ہیں۔ امی انہیں تو لاجواب ترکیبیں بتاتی ہیں اور مجھے جانے کیوں ٹھیک سے نہیں بتاتیں۔
اب احمر سے ضبط نہ ہو سکا ،ایک دم سے بول پڑا ، سعدیہ بھابھی کی شادی کو تین برس ہونے کو ہیں۔ شازیہ تمہاری یادداشت اتنی تو کمزور نہیں کہ تمہیں یاد نہ ہو کہ اس سے پہلے ہمارے گھر میں کھانا پکانے کے کیا حالات تھے اور کتنا لاجواب کھانا بنتا تھا۔ اکثرہم بازاری کھانا کھاتے تھے اور امی اگر ایک دن پکاتیں تو وہ ہمیں کئی دن تک کھانا پڑ تاتھا۔ گھر کے کھانے کا ذائقہ کیا ہوتا ہے، اس کا تو ہمیں بھابھی کے آنے کے بعد پتہ چلا اور آج جو تم رو دھو رہی ہو ،اپنے اندر صبر اور برداشت پیدا کرو ۔تمہیں تو پھر بھی انتہائی بد مزہ کھانا پکانے پر باتیں سننی پڑیں جبکہ بھابھی کو تو اچھا خاصا پکانے کے باوجود تنقید کا نشانہ بننا پڑتاتھا۔ بھابی عقلمند تھیں، طریقہ امی سے پوچھ کر اپنی مرضی سے پکانے لگیں۔ امی بھی خوش اور ہم سب بھی خوش، یہ ہوتا ہے عقل کا درست استعمال لیکن تمہارے اندر عقل ہو تب ناں۔ 
احمر نے صورتحال کا کتنا صحیح تجزیہ کیا تھا ۔ سعدیہ تو حیران ہی رہ گئی۔ اسے ہر گز یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنا باریک بین ہوگا۔ زبیدہ بیگم بیٹے کی باتیں سن کر خفگی سے کچھ کہنے ہی لگی تھیں کہ مرزا صاحب بول پڑے،احمر بالکل صحیح کہہ رہا ہے۔ تمہیں ماں کی بجائے اپنی بھابی کی رہنمائی درکار ہے۔ صرف کھانا پکانے کے معاملے میں نہیں بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں کہ سسرال میں کیسے رہا جاتا ہے ۔بیٹا وہ تمہاری بہتر رہنمائی کرے گی کیونکہ جس طرح تمہارابھراپراسسرال ہے ویسے ہی سعدیہ پر بھی بھرے سسرال کی ذمہ داری ہے اور وہ ذمہ داری بہت احسن طریقے سے نبھا رہی ہے ۔ اس پر اس بچی کی اتنی اچھائی کہ ہر ایک کے سامنے یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس کا سسرال مثا لی ہے حالانکہ وہ خود ایک مثالی بہو ہے۔ بیٹا تمہیں اپنی بھابی سے سبق سیکھنا ہو گا کہ وہ کس طرح خود سے وابستہ رشتوں کو خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہے۔
مرزا صاحب بول رہے تھے۔ ان کی باتیں سن کر دروازے کے پیچھے کھڑی سعدیہ کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ سبحان اللہ، آج سعدیہ کو اس کے خلوص نیت اور صبر کا پھل مل گیا تھا ۔اس کی آنکھوں سے تشکر کے آنسو رواں تھے۔ وہ کہہ رہی تھی:
” بے شک اللہ کریم ، صبر کرنے والوں کو بہترین اجر دیتا ہے۔“
 

شیئر: