Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزوہ بدر ، جرأت و عزیمت و اسقامت کا پیغام

 ثابت قدمی ، شوق شہادت اور اطاعت  امیر سے حالات کوموڑا جا سکتا ہے، محض دنیاوی وسائل، آلات جنگ اور سپاہیوں کی کثرت ہی جنگ جیتنے کے لیے کافی نہیں ہوتیں
* * * مولانا محمد الیاس گھمن ۔ سرگودھا * * *
    اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ دین ’’ دین اسلام ‘‘ہے اورخاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے بڑے داعی ، مبلغ اور محافظ ہیں۔داعی ہونے کے ناطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت شرق وغرب ، شمال و جنوب ، عرب و عجم ، شاہ و گدا ، مردو عورت ، پیرو جواں ، آزاد و غلام ، کالے گورے الغرض بنی نوع انسانیت کے ہر طبقے تک پہنچائی۔ نہ صرف پہنچائی بلکہ پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔ اس کے احکام و مسائل ، اوامر و نواہی ، حدود وآداب اور اصول وقوانین کی تبلیغ صبر وتحمل اور قوت برداشت سے اس انداز میں فرمائی کہ ہر ظلم و ستم ، وحشت و سربریت ، جبر وتشدد ، دھونس دھمکیوں حتیٰ کہ قتل کے منصوبوں تک کو کمالِ ضبط و تحمل سے اپنے اوپر سہا۔خدائے رحمان و رحیم کی طرف سے رؤف و رحیم بن کر اِنذار(محبت کے ساتھ ڈرانے)اور تبشیر(ہمدردی کے ساتھ خوشخبری دینے)کے حسین امتزاج کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فریضہ انجام دیا۔ اللہ کے دین کے محافظ ہونے کے ناطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی ذمہ داری یہ بنتی تھی کہ اگر کوئی اسلام کو مٹانے کی کوشش کرے یا اہل اسلام سے ان کے بنیادی حقوق کوقوت و طاقت کے نشے میں مست ہو کر سلب کرنے کی جسارت یا حماقت کرے ،تو آپ اس کی شر انگیزیوں سے بچانے اور اسلام کے فروغ و نفاذ کیلئے مضبوط ، پائیدار ،منظم اور مستحکم لائحہ عمل تیار کریں تاکہ دین قیامت کی صبح تک پوری آب و تاب کے ساتھ باقی رہے۔اگرچہ اسلام باہمی رواداری ، بقائے باہمی ، محبت و مودت اور انس و اخوت کا حکم دیتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے ماننے والوں کو یونہی بے آسرا چھوڑ دے ، ان پر ظلم کے جکھڑ چلتے رہیں ، یہ پستے ہی رہیں ، مرتے کٹتے رہیں ، ان کی مظلوم سسکیاں ، مجبور آہیں ، مقہور نالے و فریادیں فضاء میں بے نواء ہو کرمرجائیں ،فتنہ و فساد پھیلتا رہے ، ظالم و جابر قوتیں طوفان ستم بپا کرکے دندناتی پھریں اورمظلوموں بے کسوں ،بے قصوروں اور بے گناہوں کا قتل عام ،عام ہوتا رہے۔ اسلام یہ ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ جیسے اسلام، قبول مذہب کے لیے جبر واکراہ کا قائل نہیں کہ کسی کو زبردستی مسلمان بنائے اسی طرح کسی اور کو بھی یہ حق نہیں دیتاکہ وہ دین اسلام قبول کرنے والوں کاطاقت سے راستہ روکے بلکہ آزادی رائے و آزادی مذہب کے اس تناظر میں اسلام دنیا کا سب سے معتدل دین ہے۔اسلام امن وسلامتی کے آفاقی و عالمگیر پیغام کو لیے مکہ سے مدینہ تک پہنچ چکا تھا ۔ مدینہ پہنچنے پر عالمی سطح پر بالخصوص عرب کے سیاسی و مذہبی منظر نامے پر بہت تبدیلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانثاروں کے ساتھ یثرب کی وادی کو مدینہ منورہ بنا چکے تھے۔ یہاں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عسکری حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے متعدد قبائل کے ساتھ معاہدات صلح و جنگ فرمائے ۔ اسلام کو مزید تقویت ، مضبوطی اور استحکام پہنچانے کے لیے دور رس فیصلے صادر فرمائے۔دوسری طرف قریش مکہ اسلام کے فروغ ، اہل اسلام کی خوشحالی اور عزت ووقار کو کسی طرح بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کے لیے قطعاً آمادہ نہیں تھے۔ اپنی جنگی قوت کو مضبوط تر بنانے کے لیے معیشت کو مستحکم کرنے میں لگے ہوئے تھے ۔اسلحہ اکٹھا کرنے کی غرض سے دیگر ممالک سے تجارتی تعلقات استوار کر رہے تھے اور اندرون خانہ اسلام کو مٹانے کے لیے فیصلہ کن معرکہ لڑنے کی تیاریوں میں مگن تھے۔
    2ھ کے شروع میں قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں شام کی طرف جارہا تھا ،قافلے میں لاکھوں دراہم کی مالیت کا مال و اسباب اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔مسلمان چونکہ مکہ میں قریشیوں کے مہلک جان لیوا مظالم کو سہہ چکے تھے اس لیے وہ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ اگر قریش کی معیشت مضبوط ہو گئی تو وہ اسلام کو مٹانے میں ذرہ برابر تامل نہیں کریں گے چنانچہ حفظ ما تقدم کے اصول کے پیش نظر مسلمانوں نے اس قافلے کو روکنے کی کوشش کی تاکہ کافروں کی عسکری طاقت کی بنیاد ہی مسمار ہو جائے اور انہیں مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہ ملے لیکن قافلہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔مسلمان  اب اس انتظار میں تھے کہ کب یہ قافلہ واپس آتا ہے ؟
    قافلے کے واپس ہونے کی اطلاع ملی تو 12 رمضان المبارک سن 2 ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 313 مسلمانوں کو ساتھ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے ، 60 مہاجرین جبکہ باقی انصار تھے۔دوسری طرف ابو سفیان کو جب مسلمانوں کی آمد کا علم ہوا تو اس نے ایک تیز رفتار گھڑ سوار مکہ کی طرف دوڑایا اور قریش مکہ کے نام پیغام بھیجا کہ یہی موقع ہے اسلام کی شمع کو ہمیشہ کے لیے بجھا دینے کا۔ تم جلدی سے اسلحہ اور سواریوں سمیت پہنچو ۔ قریش مکہ تو پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔ کوچ کا نقارہ بجایا اور ایک ہزار سپاہی ،100 سواریاں ، تیر و تفنگ ، نیزے بھالے ، تلواریں ،ڈھالیں اور جنگی ہتھیار سے لیس ہو کر مسلمانوں کی طرف بڑھنے لگے۔
    بدر …مدینہ منورہ سے 80 میل کے فاصلے پر واقع ایک جگہ ہے ۔قریشیوں کی فوج نے یہیں پڑاؤ ڈالا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رائے دریافت کی۔ مہاجرین کے سرخیل جناب ابو بکر و عمررضی اللہ عنہما نے مجاہدانہ تقاریر کیں ، جانثاری کا یقین دلایا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ کی رائے لی۔قبیلہ کے خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں تشریف لے جائیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں ، جس سے جیسا چاہیں تعلق نبھائیں ، ہم سے جو لینا چاہیں یا ہمیں کچھ دینا چاہیں ہم ہر طرح تیار ہیں ، جو حکم فرمائیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ ہیں ، بدر کیا ہے، اگر آپ برک غماد تک بھی جائیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہیں گے ، اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں ہم بلاچوں چرا کود پڑیں گے۔ اس کے بعد حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: ہم قوم ِ موسیٰ جیسی بے وفا قوم نہیں جنہوں نے اپنے نبی ؑ سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جا کر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دائیں بائیں ، آگے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں گے ، ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ رہیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے اوربدر کے قریب ایک چشمے پر پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مشورے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے عریش (چھپر) بنوایا گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے جنگی صورتحال کو بچشم خود ملاحظہ فرما سکیں۔آج کل اس جگہ ایک مسجد ہے۔ جسے ’’مسجد عریش ‘‘ کہا جاتا ہے۔16 رمضان المبارک کو دونوں فوجیں پڑاؤ ڈال چکی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بارگاہ ایزدی میں دعا و مناجات کرتے رہے۔ بالآخر وہ وقت آن پہنچا جب بدر کا میدان رزم حق وباطل کا استعارہ بن گیا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جرأت و شجاعت، بہادری و جانبازی ،اللہ کی مدد اور نصرت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین عسکری حکمت عملی کی مثال کے طور پر تاریخ عالم میں جانا جاتاہے۔ 17 رمضان المبارک، 2 ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کی صف بندی کی اور دست رحمت کو بارگاہ رحمت میں دراز کرتے ہوئے التجاء کی : اے پرودگار !جو آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اسے پورا فرما۔ آج اگر یہ مٹھی بھر جماعت مٹ گئی تو تاقیامت آپ کی عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
    یہ صبر آزما امتحان تھا۔مسلمانوں کے تلواروں کے نیچے ان کے قلب و جگر کے ٹکڑے اور بزرگ بھی آ رہے تھے لیکن اسلام کی محبت رشتوں کی محبت پر غالب تھی ۔حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کی تلوار ان کے بیٹے پر بے نیام ہوئی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تلوار اُن کے ماموں کے خون سے رنگین ہوئی ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی تلوار اپنے والد عتبہ پر تن گئی ، قریش کے سپہ سالار عتبہ پر حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہمانے کاری ضرب لگائی ، شیبہ کو حیدر کرار رضی اللہ عنہ کی ذوالفقار نے 2ٹکڑوں میں تقسیم کیا ، عبیدہ بن سعید کو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے جہنم رسید کیا ،2 انصاری بچوں حضرت معوذ اور معاذ رضی اللہ عنہما نے ابوجہل کے غرور کو زمین بوس کیا ، عکرمہ بن ابی جہل نے حضرت معوذ رضی اللہ عنہ پر تلوار سے حملہ کیا جس سے ان کا بازو کندھے سے لٹک گیا لیکن شیر دل مجاہد اسلام پھر بھی لڑتے رہے۔ جب لٹکا ہوا بازو دشمن پر حملے کرنے سے رکاوٹ بنا تو حضرت معوذ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ کو پاؤں کے نیچے رکھ سے ایک جھٹکے سے جھٹک دیا۔ ابو جہل کے مرنے سے قریش مکہ کی ہمت کافی حد تک پست ہوگئی، ان کے حوصلے جواب دینے لگے تھے لیکن ان کی ایک امید ابھی باقی تھی یعنی سردار امیہ بن خلف۔ پھر چشم فلک نے وہ نظارہ بھی کیا جب بلال پر ستم ڈھانے والے امیہ کے جسم کو نیزوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کی فوج اتری ، کفر کے سرداروں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ۔ابوجہل ،امیہ بن خلف ، عتبہ ، شیبہ ، ولید ، زمعہ بن اسود ، عاص بن ہشام ،منبہ ابن الحجاج اور ابو البختری کے ناپاک وجود سے اللہ کی زمین پاک ہو گئی۔70کفار مارے گئے ، 70 کو قیدی بنا لیا گیاجبکہ باقی دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ دوسری طرف 14 مسلمان جام شہادت نوش کر گئے۔ قیدیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی عقیل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص بھی تھے۔ اب یہ مسئلہ پیش آیا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جائے ؟ اِس وقت قیدیوں سے جو وحشیانہ سلوک ہوتا ہے اس پر تاریخ کے اوراق نوحہ کناں ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایسا رحم و کرم کا سلوک کیا کہ تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
     قیدیوں کو صحابہ کرامؓ میں تقسیم کر دیا گیا اور ان سے حسن سلوک کا تاکیدی حکم بھی سنا دیا گیا۔ صحابہ کرامؓ بھی اپنے جان کے دشمنوں سے ایسے کریمانہ سلوک سے پیش آئے کہ خود کھجوروں پر گزارہ کر کے قیدی بھائیوں کو کھانا کھلاتے۔
     ایک قیدی ابو عزیز کا بیان ہے کہ میں جس انصاری کے ہاں قید تھا ،وہ صبح و شام میرے سامنے کھانا رکھتے ، روٹی اور سالن وغیرہ میری طرف رکھتے اور خود چند کھجوریں کھا کر گزارہ کر لیتے ۔مجھ کو شرم آتی ۔میں روٹی ان کے ہاتھ میں دے دیتا لیکن وہ اسے ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھے واپس کر دیتے۔
    انہی قیدیوں میں ایک شخص سہیل ابن عمرو بھی تھا جو بلا کا خطیب تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تقریریں کر کے لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق رائے دی کہ اس کے نچلے 2دانت اکھاڑ دئیے جائیں تاکہ تقریر نہ کر سکے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ جن قیدیوں کے کپڑے خراب ہو گئے یا پھٹ گئے ان کو کپڑے دینے کا حکم دیا ۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قد قدرے لمبا تھا ۔کسی اور کا کرتہ ان کے بدن پر پورا نہیں آتا تھا تو عبداللہ بن ابی منافق نے اپنا کرتہ دیا ۔ احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ منافق مرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کفن کے لیے اپنا کرتہ دیا جو اسی احسان کا بدلہ تھا۔
    حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ لیا کہ ان قیدیوں کا کیا کیا جائے ؟ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو جھٹلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر سے نکالا ، ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ اسکے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے اس سے بھی زیادہ سخت رائے دی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے علاقے میں ہیں جہاں لکڑیاں بکثرت ہیں۔ آپ جنگل میں آگ لگوا کر ان کو اس میں ڈال دیں۔ سب سے آخر میں مزاج شناسِ رسولؐ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے ہیں۔ انہیں زندگی کی مہلت دیں، توبہ کرائیں۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کی توبہ کو قبول فرمائیں گے۔میری رائے یہ ہے کہ ان سے کچھ فدیہ لے کر آزاد کر دیا جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر اٹھ کر چلے گئے ، تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے اور فرمایا: اے ابو بکر !تمہاری مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے فرمایا تھا ـ:جس نے میری اتباع کی وہ مجھ سے ہے۔ اے ابوبکر! آپ کی مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے فرمایا تھا :اے اللہ اگر تُوانہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر معاف کر دے تو تُو بخشنے والا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے عمر !تیری مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے فرعون کے لیے اللہ سے بددعا کی تھی۔ اور اے عمر !تیری مثال حضرت نوح علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے یوں بددعا کی تھی : اے اللہ !کافروں کاایک بھی گھر زمین پر باقی نہ چھوڑ( ان سب کو ہلاک کر دے )پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا : اس وقت تم ضرورت مند ہو اس لیے ان قیدیوں کو ( ان کی حیثیت کے مطابق )فدیہ وصول کر کے انہیں چھوڑ دو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔جن کے پاس مال تھا ان کی حیثیت کے مطابق فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا اور جن کے پاس مال نہیں تھا ان سے کہا گیا کہ ہر قیدی مسلمانوں کے 10 ، 10 بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ ان کا یہی فدیہ ہے۔     عزوہ بدر کے واقعے نے یہ ثابت کر دیا کہ ثابت قدمی ، جذبہ جہاد ، شوق شہادت ، اطاعت ِ امیر سے کڑے حالات کو اچھے حالات کی طرف موڑا جا سکتا ہے، محض دنیاوی وسائل، آلات جنگ اور سپاہیوں کی کثرت ہی جنگ جیتنے کے لیے کافی نہیں ہوتیں۔
 
مزید پڑھیں:- - - - -کعبة اللہ کا متولی خاندان کون ہے؟

شیئر: