Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خواتین مفتی اور جج کیوں نہیں بن سکتیں؟

سطام المقرن ۔ الوطن
مجلس شوریٰ کے بعض ارکان نے سفارش پیش کی ہے کہ شرعی اور قانونی اہلیت رکھنے والی قابل خواتین کو عدالتی مناصب پر فائز کیا جائے۔ مملکت میں ایسی خواتین اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو شرعی اور قانونی علوم میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ عدالتی عہدوں کے تقاضے پورے کرسکتی ہیں۔ججوں کی تعداد میں کمی اور عدالتوں میں ججوں کی خالی اسامیاں وافر تعداد میں ہوتے ہوئے تقرری کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔
ارکان شوریٰ نے اپنی سفارش کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جو فقہاءخواتین کو جج بنانے کو ناجائز مانتے ہیں وہ انکے مشتہدانہ خیالات کا نتیجہ ہیں۔ اجتہادی مسائل کے احکام زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ قرآن و سنت میں ایسی کوئی واضح صریح اور دوٹوک بات نہیں ملتی جس کے تحت خواتین کے جج بننے کو حرام قرار دیا گیا ہو۔ ارکان شوریٰ کی یہ سفارش سربرآوردہ علماءبورڈ کے رکن شیخ عبداللہ المطلق کی جانب سے مملکت کے مفتی اعلیٰ شیخ عبدالعزیز آل الشیخ سے اس مطالبے کے پہلو بہ پہلو سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سربرآوردہ علماءبورڈ میں مفتی خواتین مقرر کی جائیں۔ انہوں نے اپنے مطالبے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب ہمارے یہاں فقیہ خواتین دستیاب نہیں تھیں تو ہم سمجھتے تھے کہ ان کے مسائل کے فتوے دینا ہمارا فرض ہے۔ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت ساری خواتین دینی فقہ کی اچھی استعداد رکھتی ہیں۔
مذکورہ تناظر میں خواتین کو مفتی اور جج بنانے کے مطالبے اسلامی فقہ میں جدید تصور کے آئینہ دار ہیں۔بعض فقہاءاسکے مخالف ہیں اور وہ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس کے راوی سیدنا ابو بکرہؓ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع ملی کہ اہل فارس نے اپنا سربراہ ایک خاتون کو بنالیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ”اپنا اقتدار خاتون کے حوالے کرنے والی کوئی بھی قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی“۔
جو لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں کوئی حکم نہیں دیا گیا بلکہ مسلم دنیا سے خارج پیش آنے والے ایک واقعہ پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں خواتین کے جج اور مفتی بنانے کی حرمت کی بابت یہ دعویٰ کہ تمام فقہا ءاس پر متحدہیںدرست نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ ماضی کے فقہاءنے مخصوص حالات کے تحت مذکورہ پابندی عائد کی تھی۔ عصر حاضر کے حالات مختلف ہیں۔ ملکہ صبا کا واقعہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ انکی فراست اور سوجھ بوجھ کا تذکرہ بھی قرآن کریم میں موجود ہے۔ بہت ساری صحابی خواتین خصوصاً امہات المومنینؓ مفتی کے منصب پر سرفراز تھیں۔ اگر کوئی خاتو ن مفتی ہوسکتی ہے تو جج بھی بن سکتی ہے لہذا خواتین کا حق ہے کہ وہ مفتی اورجج کے منصب پر سرفراز ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: