Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوشِ نبوت کا شہسوارسیدنا حسین ابن علی ؓ

حکمت ودانائی،خشیت وللہیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے

 * * *مولانا محمد الیاس گھمن۔سرگودھا  * * *

ہجرت کے کٹھن سفر کو طے کیے4برس کا عرصہ بِیت چکا تھا ۔شعبان المعظم کے پانچویں روز خانوادۂ نبوت میں جگر گوشۂ رسول حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کی گودمیں ایسے لَعل نے جنم لیاجو صبر واستقلال ، عزیمت وشجاعت ،ہمت وجوانمردی ، بصیر ت وفراست کااستعارہ بن گیا۔ جسے دنیانواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک نام سے یاد کرتی ہے۔
    ولادت باسعادت کے بعدجب آپؓ  کو اپنے نانارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسرور ہوئے۔ بے پنا ہ محبت کااظہار فرمایا۔دہن مبارک سے کھجور چباکر تحنیک فرمائی اور برکت کے لیے اپنے لعاب ِدہن کو نواسے کے منہ میں ڈالا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک میں نبی وعلی کا لہو پہلے سے گردش کر رہا تھا ،اب گٹھی بھی نبی اقدس صلی اللہ  علیہ وسلم کے لعاب مبارک کی مل گئی۔
    نام مبارک ’’ حسین ‘‘بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاتجویزکردہ ہے۔ساتویں دن سر کے بال بھی آپ علیہ السلام نے اتر وائے بالوں کے برابر چاندی بھی آپ علیہ السلام ہی نے خیرات کی عقیقہ بھی آپ علیہ السلام نے ہی کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کا ختنہ کیاگیا۔
    سیرت نگاروں اور تاریخ نویسوں نے محدثین کی تحقیق کو مدار بناکر آپ رضی اللہ عنہ کے حلیہ مبارک کا یوں نقشہ کھینچاہے :
    آپ ؓ  انتہائی خوبصورتتھےذہانت وذکاوت آپکے چہرے پر جھلکتی ،قوت وشجاعت کے پیکراور غیر معمولی خوبیوں کے مالک تھے۔
    حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
     کان جسد الحسین یشبہ جسد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
    ’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے بہت مشابہت رکھتاہے۔‘‘
    بلکہ جامع ترمذی میں خود حضرت علی کرم اللہ وجھہ سے مروی ہے:
    (حضرت) حسن( رضی اللہ عنہ) کاجسم مبارک اوپر والے نصف حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے ملتاجلتا تھا جبکہ( حضرت) حسین (رضی اللہ عنہ)کے نیچے والے نصف حصے کی ساخت پر داخت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس سے مشابہ تھی۔
    اس مشابہت ِرسولؐ  کااثر فقط جسم کے ظاہر ی اعضاء تک ہی محدود نہ تھابلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے۔ حضرت حسین  ؓ کاچال چلن ، گفتار رفتار ، جلوت خلوت ، قول وعمل ،ایثاروہمدردی ، عادات واطوار ، خوش خلقی ،حسن سلوک ، مروت و رواداری ،شجاعت وعزیمت ،دوراندیشی وفر است ،حکمت ودانائی ،علم وتقویٰ، زہدوورع ،خشیت وللہیت ، محبت ومعرفت ِخداوندی الغرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے۔
    ان اوصاف کو دیکھتے ہوئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ باذن الہٰی ایک فرشتہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارمیں عرض کرنے لگا :حسن وحسین جنت کے نوجوانوں کے سردار بنائے جائیں گے۔
    فرشتے کی یہ بات خدائے ذوالجلال کی محبت کی عکاس ہے اللہ کر یم اپنے ان 2 اولیاء کو جنت کے نوجوانوں کے سرداربنائیں گے۔
     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کوبھی آپ ؓ سے بے پناہ محبت تھی جس کاآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف مقامات پر اظہاربھی فرمایا۔
    صحیح مسلم میں ام المؤمنین زوجہ رسولؐ سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز صبح تڑکے تڑکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے تشریف لائے۔ اتفاق سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی وہاں آ نکلے۔ آپ نے ان کو اپنی چادر میں لے لیا پھر یکے بعد دیگرے حضرت حسین، حضرت فاطمہ اورحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم بھی تشریف لائے۔
    ۱آپ علیہ السلام نے ان سب کو اپنی چادرمیں جمع فرمالیا اورالاحزاب کی33ویں آیت مبارکہ: انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا۔تلاوت فرمائی۔’’اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اے پیغمبر کے گھر والو! تم کو معصیت ونافرمانی کی گندگی سے دور رکھے اور تم کو ظاہر اًوباطناًعقیدۃًوعملاًوخلقاً پاک صاف رکھے۔ ‘‘(بیان القرآن تحت آیت انما یرید اللہ)۔
    حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانو ی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    لفظ’’ اہل بیت‘‘ کے 2 مفہوم ہیں۔ ایک ازواج دوسرے عترت۔خصوصیت قرائن سے کسی مقا م پر ایک مفہوم مراد ہو تا ہے کہیں دوسر ااور کہیں عام بھی ہو سکتا ہے۔
 ٍ    صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عراقی نے ان سے پوچھاکہ کیا حالتِ احرام میں مکھی مارنا جائز ہے ؟تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: عراقیوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو توشہید کر ڈالا اب مکھی مارنے کے احکام پوچھنے لگ گئے ہیں؟یاد رکھو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن وحسین دنیا میں میرے مہکتے ہو ئے پھول ہیں۔
    جیسے پھول قلب ونظر کو سرور اور دماغ کو فرحت بخشتاہے۔ایسے ہی ان پھولو ں سے نبی علیہ السلام کے قلب و نظر کو سرور اور دماغ کو فرحت وتازگی ملتی ہے۔
    جامع التر مذی میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اکثر فرمایاکرتے تھے :
    ’’حسین کو میرے پاس بھیجو تاکہ میں ان کواپنے سینے سے لگاؤں اور پیار کروں۔‘‘
    جامع الترمذی میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے اللہ ! میں حسن وحسین سے محبت کرتاہو ں آپ بھی ان سے محبت فرمائیں اور اس شخص سے محبت فرمائیں جوان سے محبت کرتاہے۔
    جامع الترمذی میں حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
    حسین میری اولاد ہے اور میراحسین سے خصوصی تعلق ہے، اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت فرماتے ہیں جوحسین سے دعویٰ محبت میں عملاً سچاہو۔    
    جامع الترمذی میں حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
    ’’حسن وحسین نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔‘‘
    جلیل القدر محدث ملاعلی قاری فرماتے ہیں:
    ’’حدیث پاک کی مراد یہ ہے کہ حسنین کریمین اُن تمام لوگوں میں افضل ہیں جوعالم شباب( جوانی )میں انتقال کر گئے۔ اس سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ حسنین کریمین بھی جوانی میں دنیا سے کو چ فرماگئے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جیسے نوجوان مروت اور جو انی والے کام سرانجام دیتے ہیں، ایسے ہی حسنین کریمین نے کارنامے سر انجام دئیے ہیں۔‘‘
    اسلام کی تعلیم میں نہ افرا ط نہ تفریط بلکہ اعتدال ہی اعتدال ہے ۔بعض لوگوں کو حدیث بالاسے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید حسنین کریمین کامقام ،مرتبہ اوردرجہ خلفائے راشدین ( حضراتِ ابوبکر،عمر ،عثمان اور علی رضی اللہ عنہم)سے زیادہ ہے حالانکہ ایسا ہرگزنہیں۔
    جامع الترمذی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’انبیاء ورسل کے علاوہ ابوبکراورعمر رضی اللہ عنہما ان تمام اولین وآخرین جنتی لوگوں کے سردار ہیں ۔‘‘
    یہ حضرات بڑی عمر میں انتقال کرگئے اور حضرات حسنین کریمین بھی بڑی عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اس لحاظ سے حضرات شیخین (ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما) حسنین کریمین کے بھی سردارہوئے۔
    مرقاۃ شرح مشکاۃ میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’ ہرنبی کاجنت میں خاص دوست ہو گااور میرا مخصوص دوست(حضرت) عثمان بن عفان( رضی اللہ عنہ) ہوں گے۔ ‘‘
    آپ علیہ السلام کے اس فرمان مبارک کاصحیح مطلب یہ ہے کہ دیگر مخصوص رفقاء کی صف میں سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی شامل ہوں گے۔
    حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں حضرت بریدہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہماکی حدیث نقل فرمائی ہے کہ حسنین کریمین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے بھی زیادہ فضیلت والے ہیں۔
    ان روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ خلفائے راشدین کامقام و مرتبہ حضرات حسنین کریمین سے بھی بلند ہے۔
     دین اسلام میں فرق مراتب رسولو ں کے مابین بھی ملحوظ ہے اور حضرات صحابہ واہل بیت کے درمیان بھی مسلمہ حقیقت ہے۔
مزید پڑھیں:- - - -علماء کی جماعت انسانیت کیلئے قطب نما

شیئر: