Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج مبرور کی جزا ، جنت

جب اس بات کا علم ہوگیا کہ مطلوب حج مبرور ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ حج مبرور کیا ہے،اس کی تعریف اور علامات کیا ہیں؟
    
* * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ* * *
حج جیسے عظیم الشان عمل اور جلیل القدر عبادت کیلئے مسلمانانِ عالم اکنافِ عالم سے سفر کرکے ایک ہی جگہ جمع ہو تے ہیں اور اسے اداکرتے ہیں ۔جب سے اس عملِ مبارک کاسلسلہ شروع ہوا اللہ کے فضل وکرم سے بند نہیں ہوا۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے ؟تو آپ نے فرمایا:    ’’اللہ اور رسول() پر ایمان لانا۔‘‘
    پھر پوچھا گیا کہ کونسا عمل؟تو آپ نے فرمایا :
     ’’ اللہ تعالیٰ  کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘
    پھر پوچھا گیا کہ کونسا عمل؟ تو آپ نے فرمایا:
     ’’ حج ِ مبرور۔‘‘
    اس حدیث مبارکہ میں ایمان کے بعد جو ہر عبادت اور عمل صالح کیلئے بنیادی شرط ہے افضل عمل حج  مبرورکو قراردیا گیا ۔حج وہ عظیم عبادت ہے جو اپنے خصوصی اجر وثواب کیساتھ ساتھ اپنے ماقبل کے گناہوں کو ختم کردیتاہے اور حج مبرور کی جزا  تو جنت ہی ہے ۔یہی وہ حج ہے جس کی ادائیگی کے بعد حاجی بیت اللہ شریف سے ایسے وداع ہوتاہے جیسے  وہ  نومولود ہو کہ اسکے ذمہ کوئی گنا ہ باقی نہ رہا۔
    اس عظیم عبادت کے فضلِ عظیم کے پس منظر میں اسکے عظیم آداب بھی ہیں جنہیں ہر قاصدِ حرمین شریفین کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا تاکہ ان کا حج ،حج مبرور ہو۔جس طرح حرمین شریفین کے ہر قاصد کی یہ دعا ہوتی ہے کہ اس کا حج ،حج مبرور ہو ،نہایت ضروری ہے کہ وہ ان آداب کا بھی پابند ہو جو اسکے حج کو مبرور ومقبول بنانے کیلئے ضروری ہیں۔
    جب اس بات کا علم ہوگیا کہ حج میں مطلوب حج مبرور ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ حج مبرور کیا ہے؟اس کی تعریف کیا ہے؟اس کی علامات کیا ہیں؟    حجاج کرام اپنے اموال میں سے لاکھوں  روپے خرچ کرکے ،اپنے وقت میں سے کئی ایام فارغ کرکے ،سفر کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد اپنے اصلی اوطان سے دور اِس فریضۂ عبادت کو اداکرنے کیلئے حاضری دیتے ہیںتو وہ کیوں نہ حج مبرور کی سعادتوں سے مالا مال ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کی راحتوں اور نعمتوں کو حاصل کرنے والے ہوکر اور ہر قسم کی پکڑ سے پاک وصاف ہوکر لوٹیں؟
    اہل علم لکھتے ہیں کہ حج مبرور یہ ہے کہ جس میں حاجی مناسک حج کو مکمل طورپر’’خذوا عنی مناسککم‘‘کی  حدیث اور ہدایات نبوی کے مطابق ،شریعت اسلامیہ کی رو سے سنت نبوی کے طریقہ پر اداکریں پھر اس حج میں ان کی غرض صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو ۔
    شیخ الاسلام ابن حجر فرماتے ہیں کہ:
    ’’حج مبرور یہ ہے کہ احکام مکمل اور درست طریقہ سے ادا ہوں ،ادائیگی میں اخلاص ہو ،ریا کاری نہ ہو ۔‘‘
    اہل علم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ حج مبرور ،حج مقبول ہے۔وہ ایسا حج ہے جس میں معصیت اور حق تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب نہ ہو ۔دوران ِ حج ،حاجی عمومی گناہوں ،فرائض سے غفلت ،بد نظری ،بے پردگی ،غیبت،جھگڑا ،نفس پرستی اور دیگر حجاج کرام کی ایذارسانی سے مکمل اجتناب کرے  جسکی علامت یہ ہے کہ حج کی ادائیگی کے بعد وہ پھر سے اللہ تعالیٰ کی ان نافرمانیوں کے ارتکاب  میں مبتلا نہ ہوجائے جن میں پہلے تھا بلکہ اس میں احتیاط اور تقویٰ کا پہلو غالب رہے کیونکہ جس طرح معصیت ونافرمانی پر بندے کا مؤاخذہ لازم وملزوم امر  ہیں   اسی طرح حج مبرور اور جنت بھی لازم وملزوم ہیں ۔پہلی بات دوسری کی ضد ہے تو حج مبرور وہ ہو جسکے بعد اسکی ضد نہ ہو اسلئے اہل علم لکھتے ہیں کہ حج مبرور یہ ہے کہ اس کے بعد معصیت کی طرف نہ لوٹے ۔
    بعض اہل علم لکھتے ہیں کہ:
    ’’حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد بندے کی ایمانی کیفیت اور عملی سیرت پہلے سے افضل ،اعلیٰ اور طاہر ومطہر ہو جائے۔اگر حاجی میں یہ تبدیلی پیداہوگئی تو حج کے مدرسے  کا وہ کامیاب فارغ  التحصیل ہے لہذا اب وہ  بجائے نفس پرستی کے ،خداپرست ،دنیا  سے بے رغبتی کرنے ولا اور آخرت کی جانب رغبت کرنے والا ہے ۔‘‘
    یہ بھی یادرہے کہ حجا ج اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔مہمان کا اکرام میزبان پر واجب ہوتاہے اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مہمان کا اکرام ،اس کی رضا کا حصول،اس کی طلب کی قبولیت ،اس کے قصوروں کی معافی اور اسے خلعت شرافت سے نوازنا ہے مگر حاحی جو مہمان ہے اُسکا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے میزبان کے آداب اور رفعتِ مقام کو پہچانے  اور اس کے وعدے اور وعیدوں کو نہ بھولیں اور انہیں حق جانے ،رسول اللہنے فرمایا:
    ’’ حج اور عمرہ کی کثرت فقر اور تنگی کو ایسے دور کرتے ہیں جیسے بھٹی ،لوہے کی میل کچیل کو دورکرتی ہے ۔‘‘نیز فرمایا کہ:
    ’’ حج وعمرہ یکے بعد دیگرے کرنا عمر اور رزق میں زیادتی اور برکت کا باعث ہیں۔‘‘مزید فرمایا کہ:
    ’’ حج کرنے والے جو خرچ کرتے ہیں انہیں اس کا بدل دیا جاتاہے۔‘‘ نیز فرمایا کہ:
    ’’  حج کرو ،غنیٰ حاصل کرو۔‘‘
    لہذا رحمن کے مہمان بننے والا جب اس قدر انعامات سے نوازاجانے والا ہے تو  وہ درجِ ذیل  امور کا اہتما م کرے اور ان آداب کی پابندی کرے جو اسکے حج کو مبرور بنانے والے ہیں:
    ٭  قرآن کریم میں وارد حق تعالیٰ شانہ کے اس حکم کی پابندی ہو:
     ’’اور تم زاد راہ لیکر چلو، یقینابہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔‘‘ (البقرہ197)۔
    زادِ راہ اسلئے کہ وہ اس عبادت کے دوران دوسرے لوگوں سے سوال سے بچے،یہ بھی تقویٰ کی عملی تطبیق ہے ۔
    ٭ زادِ راہ حلال کمائی اور صاف ستھرے مال سے ہو،کیونکہ رسول اللہ   کا ارشاد ہے کہ:
    ’’ جب بندہ پاک وصاف مال کیساتھ حج کیلئے نکلتا ہے اور سواری پر قدم رکھتے ہوئے: اللہم لبیک ’’اے اللہ میں حاضرہوں‘‘کہتاہے تو آسمان سے فرشتہ اسکی تصدیق وتائید میں کہتاہے کہ :تیرا لبیک کہنا قبول ہے ،تیرا زادِ راہ حلال ہے ،تیری سواری حلال اور تیرا حج مبرور ہے اور تم پر کوئی پکڑ نہیں ،بخلاف اس کے جب بندہ حرام مال سے حج پر جاتاہے تو اس کا یہ سفر اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں  اسلئے جب وہ سواری پر سوار ہوکر اللہم لبیک ’’اے اللہ میں حاضرہوں‘‘  کہتاہے تو فرشتہ کہتاہے :نہ تیری حاضر ی قبول ،نہ تیری سعادت،تیری کمائی حرام ،تیرا لباس حرام،تیری سواری حرام ،نیز  زادِ راہ حرام ۔تُو اس حالت میں لوٹے کہ تیرا حج تجھ پر وبال ہے ،مبرور نہیں  ۔‘‘
    ٭ حج کیلئے جب حلال مال میسر ہوتو اس کی ادائیگی میں عجلت کر ے اور معمولی اعذار کو اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بننے دے کیونکہ نبی کریم کا ارشاد ہے کہ:
    ’’ جسے زادِ راہ اور سواری کی  وسعت ہوئی پھر حج نہ کرے تو کوئی  تعجب نہیں کہ وہ یہودی یا  نصرانی ہوکر مرے۔‘‘
    کیونکہ فرضیت کے بعد اس سے روگردانی اسلام کے عظیم رکن سے اعراض ہے جو اہل ایمان کا شیوہ نہیں ۔صاحب استطاعت شخص کے فریضۂ حج میں سستی کرنے پر دیگر بہت سی وعیدیں احادیث میں وارد ہیں لہذا اس کی ادائیگی میں عجلت کرنا ضروری ہے ۔حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم   نے فرمایا:
     ’’جب حج کاارادہ فرض ہونے کے بعد اس میں عجلت کرو کہ کہیںمرض کا عارضہ یا راستے کا بے امن ہونا یا دیگر کوئی عوارض پیش نہ آجائیں۔ ‘‘
    ٭حق تعالیٰ  کے احکام میں کمی وکوتاہی اور قصور کی اُس سے معافی طلب کرے کہ توبہ اور رجوع الی اللہ ہی گناہوں کا اصل کفارہ ہے ۔ہاں اگر انسانوں کے حقوق اسکے ذمہ ہیں تو انہیں اداکرے ،اگر کسی پر ظلم وزیادتی کی ہے تو وہ بھی  اس مظلوم یا جس سے زیادتی کی ،اس سے معاف کرائے ۔جب بندہ  حق تعالیٰ شانہ،احکم الحاکمین کے گھر اس کا مہمانِ خصوصی بن کر جارہا ہے اور اس کا ضابطہ ہے کہ معاصی توبہ سے معاف ہوتے ہیں اور بندوں کے حقوق ان کی ادائیگی سے ۔ اُس کی مناسب عملی تدبیر کرکے ہی حقیقی شہنشاہ کے دربار میں حاضر ہوناہوگا تاکہ اسکا سفر آغاز سے ہی سعید ہو اور وہ سعادت مند ہوکر اسے مکمل کرکے حج مبرور کے ساتھ لوٹے ۔
    ٭ سفر سے قبل، سفر کے آغاز اور دوران سفر آنحضرت کی سنتوں او رطریقوں کو لازم پکڑے۔ چونکہ یہ سفر ایک  طویل مدت تک کیلئے  دیگر انسانوں کی صحبت پر مشتمل ہوتا ہے لہذا صالح اور اہل علم رفقاء کو اختیار کرے جو دوران سفر اور اثنائے حج اس کیلئے نیکی میں معین ومددگار ہوں ،خیر کی نصیحت کرنے والے ہوں ،منکرات سے روکنے والے ہوں ،سستی وکاہلی میں ہمت اور عزیمت والے ہوں۔اسی طرح گھر سے رخصتی اور الوداع ہوتے ہوئے یا دوسروں کو الوداع کرنے میں مسنون طریقوں او رماثور دعاؤں کا اہتمام کرے کہ اتباعِ سنت کی برکات اور اللہ تعالیٰ کی معیت ونصرت اسکے شامل حال رہے ۔
    ٭ عشق ومحبت اور قربانی کے مظہر،اس مبارک سفر میں زیب وزینت اور تنعم وتعیش کے اسباب سے بچے کہ آنحضرت نے فرمایا:
    ’’حاجی تو بکھرے بالوں والا پراگندہ ہیئت والا ہے۔‘‘
    ٭  تمام سفر میں پوری عزیمت سے یہ استحضار رہے کہ  حج میں’’ لا رفث ولا فسوق ولا جدال‘‘،نہ شہوات پر عمل ہے ،نہ معصیت اختیار کرنا ہے ،نہ جھگڑنا ہے لہذا نفسانی لذات سے حفاظت، نفس پرستی ،جاہ پرستی ،دوسروں پر غلبہ کی خواہش،  دوسروں سے اپنے آپ کو مقدم کرنے کا خیال ،پھر ہر قسم کی خصومت سے اجتناب ۔ان آداب کو اول تا آخر اختیار کرنا ہے ۔
    ٭  سراپا عبادت: اس سفر میں عمومی فرائض  و واجبات کوپوری مستعدی سے اداکرنے کی بھی ریاضت کریں ۔سستی، کاہلی،غفلت ہر گز نہ ہو  نیز عمومی زندگی کے شب وروز میں سنت نبوی سے مطابقت کی خوب سعی کریںتاکہ اس سفر کو حصولِ تقویٰ اور مطلوبۂ حیاتِ  طیبہ کے حصول کا ذریعہ بنا سکیں ۔
    ٭  مکمل سفر کے دوران توجہ الی اللہ  رہے ۔لا یعنی اور بے کار میں وقت  کا ضیاع نہ ہو ،زندگی کے مختلف مواقع جیسے صبح وشام اور دیگر اوقات کے اذکار واَوراد ِمسنونہ میں مواظبت سے مشغول رہیں ،یہی عادت ما بعد حج مفید ہوگی ۔
    ٭  اس سفر میں رفقاء کے ساتھ خوش خلقی اور خدمت کے جذبہ سے پیش آنے کی عادت ڈالیں۔خدمت کے موقعوں پر پیش قدمی اورراحت میں دوسروں کو آگے بڑھانا جیسے حسن خلق کا خوگر بننے ،نیز ایثار وقربانی کے جذبہ پیدا کرنے کیلئے یہ سفر بہترین موقع ثابت ہونا چاہئے ،آپ اسی کی عملی پریکٹس کریں۔

شیئر: