Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسامہ شرمیلا اور بہت اچھا لڑکا تھا، لوگوں نے اسے بدل دیا، ماں کا بیان

جدہ ..... اسامہ بن لادن کی والدہ ”علیہ غانم “ نے پہلی بار انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ اسامہ بن لادن نہایت شرمیلا اور بہت ہی اچھا لڑکا تھا۔ مجھے ٹوٹ پر پیار کرتا تھا۔ لوگوں نے اسے بدلا تو وہ مختلف شخص بن گیا۔”علیہ غانم “ نے برطانوی جریدے گارجین کو جدہ شہر کے اپنے مکان میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ رفتہ رفتہ اسامہ طاقتور شخصیت کا مالک بن گیا۔ یونیورسٹی میں لوگو ں نے اسکا برین واش کردیا۔ میں ہمیشہ اسے نصیحت کرتی کہ وہ ان لوگوں سے دور رہے جو اسے بدل رہے ہیں۔اس نے کبھی میرے سامنے اپنے کسی بھی کام کا صرف اس وجہ سے اعتراف نہیں کیا کیونکہ وہ مجھے بیحد چاہتاتھا۔”علیہ غانم “ نے اسامہ بن لادن کے سوتیلے بھائیوں احمد اور حسن کی موجودگی میں انٹرویو دیا۔ بن لادن خاندان نے اعتراف کیا کہ اہل خانہ گارجین کو انٹرویو دینے کے سلسلے میں تحفظات رکھتے تھے انہیں خدشہ تھا کہ کہیں انٹرویو سے پرانے زخم تازہ نہ ہوجائیں تاہم کئی دن کی بحث کے بعدطے ہوا کہ انٹرویو دیدیا جائے۔ انٹرویو جون کے اوائل میں دیا گیا۔ اسامہ کو تبدیل کرنے والی شخصیتو ںمیں الاخوان المسلمون کے رکن عبداللہ عزام شامل ہیں۔ وہ آخر میں سعودی عرب کو خیر باد کہہ کر چلے گئے تھے اور اسامہ کے روحانی مشیر بن گئے تھے۔ ”علیہ غانم “ اسامہ بن لادن کی بیواﺅں سے اکثر و بیشتر بات چیت کرتی رہتی ہیں۔ ”علیہ غانم “ نے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ اسامہ کے رنگ ڈھنگ بالکل ٹھیک تھے۔ وہ تعلیم میں بیحد اچھا تھا۔ پڑھنے لکھنے کا شوق رکھتا تھا۔ اس نے اپنی ساری دولت افغانستان میں جھونک دی جہاں وہ فیملی بزنس کے سائبان تلے چھپا ہوا تھا۔ میرے ذہن میں کبھی یہ وسوسہ تک نہیں آیا کہ وہ روایتی طریقے سے منحرف ہوگا۔ ہم بہت زیادہ ناراض تھے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ اسامہ ایسا کوئی کام کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ اہل خانہ نے اسامہ کو آخری بار 1999ءکے دوران افغانستان میں دیکھا۔ قندہار شہر کے باہر اڈے پر اس سے دوبار ملاقات ہوئی۔ یہ جگہ ایئرپورٹ سے قریب تھی۔ ہم سے مل کر اسامہ بیحد خوش ہوا تھا۔ روزانہ وہاں ہم سے ملتا ۔ اس نے شکار کرکے تقریب کا بھی اہتمام کیا تھا اور ہم سب کو مدعو کیا تھا۔ اس موقع پر اسامہ کے چھوٹے بھائی حسن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص بھی اسامہ بن لادن سے انکی زندگی کے ابتدائی ایام میں ملا اس نے انکا احترام کیا۔ شروع میں وہ بھی ہمارے لئے قابل فخر تھے پھر اسامہ المجاہد کی صورت میں سامنے آئے ۔ حسن نے یہ بھی کہا کہ اسامہ نے بڑے بھائی کی حیثیت سے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ مجھے ان پر بہت فخر ہے لیکن عالمی سطح پر غیر معمولی شہرت پانے والی شخصیت کے طور پر میں ان پر فخر کروں ایسا میں نہیں سمجھتا۔ انہوں نے اس حوالے سے جو کچھ کیا بالاخر بے معنی ہی رہا۔ اسامہ بن لادن کے بھائیوں نے کہا کہ گیارہ ستمبر کے طیارہ حملوں پر 17برس گزر جانے کے باوجود اماں اسامہ کو حملوں کا ذمہ دار نہیں مانتی۔ انکا یہی کہناہے کہ مذکورہ واردات میں اسامہ کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ وہ دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں اسامہ کو نہیں۔ یہ بحیثیت ماں کے انکے تاثرات ہیں کیونکہ انکے ذہن میں اسامہ کے بچپن کا معصومانہ تصور جاگزیں ہے اور وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا۔ احمد نے کہا کہ 11ستمبر کے طیارہ حملوں سے اسے صدمہ پہنچا حیرت زدہ رہ گیا۔ شروع میں ہی ہمیں معلوم ہوا کہ اس حملے میں اسامہ کا ہاتھ ہے۔ ہمیں شرمندگی محسو س ہوئی۔ ہمیں معلوم تھا کہ اب ہمیں خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑیگا۔ بیرون ملک موجود خاندان کے تمام افراد شام، لبنان، مصر اور یورپ سے سعودی عرب واپس آگئے۔ اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کا کہناہے کہ سعودی حکام نے تمام لوگوں سے پوچھ گچھ کی ۔ معینہ مدت کیلئے مملکت سے سفر پر پابندی عائد رکھی۔ اب 2عشرے بعد اسامہ بن لادن کے اہل خانہ مملکت کے اندر اور باہر آزادانہ نقل و حرکت کرسکتے ہیں۔ 29سالہ حمزہ بن اسامہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اس کے چچا حسن نے کہا کہ ہم سب لوگ اسامہ بن لادن کی کہانی کے صفحات لپیٹ چکے ہیں۔اگر حمزہ بن اسامہ میرے سامنے آجائے تو میں اس سے یہی کہوں کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تم جو کچھ کررہے ہو اسکی بابت بار بار سوچو۔ تم اپنے باپ کا کیا دہرا نہیں سکتے۔ تم جو کچھ کررہے ہو وہ ہیبت ناک ہے۔ انہوں نے یہ باتیں امریکہ کی جانب سے حمزہ بن اسامہ کو عالمی دہشتگرد قرار دیئے جانے کے تناظرمیں کہیں۔

شیئر: