Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران نے بلا گھمایا تو ورلڈکپ نہیں پاکستان ملا

حبیبہ محمد طیب۔مدینہ منورہ
اس دفعہ عمران خان نے بلا گھمایا تو انعام میں "ورلڈ کپ" نہیں بلکہ "پاکستان" ملا۔میں آج خودکو اور تمام اہل پاکستان کو عمران خان کی شاندار "بلے بازی"اور "کامیابی" پر دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں اور دست بہ دعا ہوں کہ ملک کے حالات بہتر سے بہتر ہو جائیں۔
در اصل کپتان خان سے قوم نے اپنی رنگین امیدیں منسلک کر رکھی ہیں اور پاک سرزمین کا ذرہ ذرہ انصاف اور امن کے لئے تڑپ رہا ہے ۔ سیاست کے لئے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور عوام کا احساس ہونابہت ضروری ہے ۔کیا پتا اللہ تعالیٰ پاکستان کو کس کے ہاتھوں عزت اور رفعت بخشے۔ اس کے لئے کوئی نوبل انعام یافتہ ہستی ہونا لازمی امر نہیں بلکہ خشیت الٰہی اور ملک کی خیر خواہی مطلوب ہے۔
پاکستان کے لاکھوں عوام فقر اور مشقت کی زندگی گزار رہے ہوں اور سیاسی حضرات غیر ملکی دوروں میں مصروف ہوں۔ یہ اخلاقی لحاظ سے کسی طوردرست نہیں اور نہ ہی یہ عوام یا ملک سے محبت کی علامت ہے بلکہ سراسر نفاق کی نشانی ہے۔پاکستان کے علمائے کرام اور بے گناہ نوجوان دہشتگردوں کے ہاتھوںہو جائیں اور نام نہاد عالم ا نہیں دلاسہ دے کر "ووٹ" اپنے نام کر لیں۔ یہ ہمدردی کا اظہار نہیں، صرف اور صرف سیاست کی ہوس ہے۔ 
اب انتخابات کے بعد عمران خان کے خلاف آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، دھاندلی جیسے بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں اور ان کے ماضی میںتانک جھانک کی جا رہی ہے۔جو بھی کہنا ہو کہہ دیاجائے مگراس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان نے پاکستان کو ورلڈ کپ دیا،میانوالی میں "نمل یونیورسٹی" کے ذریعہ علم کا دروازہ کھولا،غریبوں کی خدمت کے لئے لاہور اور پشاور میں”شوکت خانم میموریل کینسرہاسپٹل “ کی بنیاد رکھی جہاں صرف ”دکھی انسانیت“ کا علاج کیا جاتا ہے۔ 
اب حال تو یہ ہے کہ ملک اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں اورہمارے بعض حکام آسمانوں پہ جائداد بنانے کے مشن پر ہیں۔وہ بھی یہی سمجھتے ہوں گے کہ تحریک انصاف اپنے مطالب ومقاصد پورا کرنے کے لئے زندہ ہے ۔ اب نجانے سیاست میں ایسے کون سے خزانے ہوں گے جن کو حاصل کرنے کے لئے عمران خان پچھلے 22 سال سے لڑ رہے ہیں۔ویسے جہاں جہاں پی ٹی آئی کو پذیرائی مل رہی ہے مجھے وہاں وہاںنیا پاکستان تعمیر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔بلا شبہ ”عمرانی حکومت “، اللہ کریم کی مدد سے پاکستان کو ڈوبنے سے بچا سکتی ہے جبکہ بعض دوسرے تو اپنی آنے والی7 نسلوں کے لئے روٹی کپڑا اور مکان بنانے کی فکر میں ہوتے ہیں اور اسی لئے سیاست کی دکانیں سجائے پھرتے ہیں ۔اب عوام تھک کر ہا رچکے ہیں
ماضی میں اکثر سیاست داں وعدوں کے محل یہاں وہاں تعمیر کرتے رہے اور وعدوں کی تکمیل سے پہلے ہی ان کے چہروں سے نقاب اتر گیا اور خوفناک حقیقتیں آشکار ہونے لگیں۔اس طرح انہوں نے قوم کو مایوس کر دیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لوگ ان حالات کے عادی ہو چکے ہیںکیونکہ برسوں یہی حالات معمول بنے رہے مثلاً مہنگائی کو ختم کرنا تاجروں اور منافع خوروں کے لئے اعلان جنگ کے مترادف ہے جو مہنگائی کے پیسوں سے عیش کرتے رہے ہیں اور اسی طرح باقی حالات کو بہتربنانے کی کوشش میں چھوٹے موٹے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں مگر عمران خان،ا ن شاءاللہ العزیز،سب کچھ ٹھیک کر دکھائیں گے۔
میرے خیال میں ملک کے حالات بہترکرنے کے لئے سب سے پہلے مہنگائی کا خاتمہ ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ جہالت سے پیچھا چھڑانا بھی ناگزیر ہے۔اب تک نجانے کتنے نوجوان غربت کے باعث اپنی علمی مہارت کو اپنے سینوںمیں دفن کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس لئے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کی فیسوں میں کمی کی جائے تاکہ امیر اور غریب شانہ بشانہ کھڑے ھو سکیں۔اس کے علاوہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ پاکستانی نوجوان ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان کو ہرگز فراموش نہ کیا جائے ، باصلاحیت نوجوانوں کو جدید سہولتیں فراہم کی جائیں اور ان کی مہارت وصلاحیت سے ملک کو سنوارا جائے ۔
عوام کے مسائل اور شکایات سن کر ان کی مدد کو یقینی بنایا جائے ، اس طرح کسی کو مظاہرے ، دھرنے اور فساد برپا کرنے کاکوئی موقع نہیں مل سکے گا۔امن اور سکون بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ سرزمین پاک کے چپے چپے میں امن بحال کیا جائے۔جو لوگ تبدیلی سے مایوس ہیں یااس کے خلاف ہیں ان کو یہ کہنا مناسب ہے کہ اندازے لگانا اور قیاس آرائیاں کرنا بے بنیاد باتیں ہیں۔ آپ صبر سے کام لیں ، وقت کے ساتھ ساتھ ساری حقیقتیں کھل کر سامنے آجائیں گی۔

شیئر: