Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ جنت بھی گوارا ہے مگر میرے لیے!‘‘

رضی الدین سید ۔ کراچی
 ’’ جنت بھی گوارا ہے مگر میرے لیے!‘‘ یہ بول ہیں اس ’’ نعت ‘‘ یا’’ منقبت ‘‘ کے جو امجد صابری کی ایک قوالی میں لوگ عرصۂ دراز سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ صابری کے قتل کے بعد ملک بھر میں انہی کے کلام کی قوالیاں چلادی گئی تھیں۔ 
    راقم کوچونکہ قوالیوں سے کبھی کوئی رغبت نہیں رہی اس لئے قوالوں کے گائے ہوئے کلاموں پر سر دھننے سے بھی وہ ہمیشہ محفوظ ہی رہا اس لئے یہ کلام اس نے کبھی بھر پورطور پر نہیں سنا تھا تاہم جو مصرعہ اوپر دیا گیا ہے یا جو ملک بھرمیں بہت ہی معروف ہے ،اس کا پورا شعر اس طرح ہے
:
جنت بھی گوارا ہے مگر میرے  لئے
اے کاتبِ تقدیر ،مدینہ لکھ دے!
    شعر کا پہلا مصرعہ چونکہ ریکارڈنگ میں ہمیشہ ہی اونچی آواز میں گایا جاتا ہے،اس لئے راقم کے ذہن میں وہ ہمیشہ ہی سے موجود رہا ہے البتہ دوسرا مصرعہ چونکہ سازوں کے پس منظر میں بہت دھیمی آواز میں گایا جا تاہے ،اس لئے وہ اسے کبھی سن نہیں سکاتھا۔ تھا۔
     مذکورہ شعر کو جب ہم نے بغور سنا تو حیرت ہوئی کہ کیا کوئی باشعور مسلمان اپنے ہوش و حواس کے ساتھ ایسی کوئی درخواست بھی کرسکتاہے جس میں جنت کو بائی پاس کرتے ہوئے مرنے کے بعد وہ صرف مدینے ہی کے حصول کو اپنی اصل تمنا قرار دے لے؟ قرآن وحدیث  کے تو صفحات پرصفحات بکھرے ہوئے ہیں جن میں مسلمانوں کو محض جنت کی طلب کے لئے مشقت کرنے، تڑپنے اور مرجانے کی تاکید ی ہدایت کی گئی ہے۔ابھارا گیا ہے کہ مثلاً…
     (1) دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف جس کی وسعت آسمانوں اور زمین سے بھی زیادہ ہے۔
    (2) دعا کیا کرو کہ ا ے پروردگار ! جنت میں ہمارے لئے اپنے قریب ہی کوئی گھر تعمیر کردے۔
     (3) جنت ایسی جگہ ہے جس کی نعمتوں کے بارے میں نہ تو کسی انسان نے آج تک سنا ، نہ اس کی نعمتوں کو دیکھا اورنہ کسی دماغ نے سوچا ہے۔
    (4) جنت وہ مقام ہے جس کی ادنیٰ سی جگہ کا بھی کوئی موازنہ دنیا اور جو کچھ دنیا کے ا ندر موجود ہے، کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔
    (5)جنت کے کئی درجے ہیں مگر اے مومنو!تم اس کے سب سے اعلیٰ درجے ’’جنت الفردوس‘‘ کے لئے آرزو کیا کرو ۔
    (6)  اللہ نے مومنوں کے مال اور جان ،جنت کے عوض خرید لئے ہیںوغیرہ وغیرہ۔
    یہ کوئی ایسا مقام نہیں جو ہر ایرے غیرے کے حوالے کردیا جائے بلکہ اس کے حصول کے لئے لازم ہے کہ دنیا میں انسان اپنی لاتعداد خواہشات ،سیّئآت اور ذاتی مفادات کو چھوڑ کر صرف اللہ کے رنگ میں رنگ جائے۔
 ’’اک آگ کا دریا ہو،اور ڈوب کے اندر جانا ہو‘‘
    قرآن و احادیث کے ملا جلا کر کم از کم بھی تین چار سو فرمان ایسے ہوں گے(ا) جو جنت کے لازوال انعامات کی تفصیل سے بھرے ہوئے ہوں گے اور (۲) جس کی طلب میں جینے اور مرنے کی انسانوں کو تاکید کی گئی ہوگی۔’’اسی کی طلب میں جیو اور اسی کی طلب میں مرو‘‘۔ 
    سو ایسے واضح تاکیدی قرآنی و نبوی ؐ فرمانوں کے باوجود کسی مسلمان کو جنت کو ہلکا گردانتے ہوئے یہ اصرار کرنا کہ ’’اگراللہ نے جنت عطا کردی تو بہر حال لے ہی لیںگے لیکن کاتب تقدیر اگر پھر بھی اس کے لئے مدینہ ہی لکھ دے تو اس کے لئے وہ زیادہ باعث ِ تسکین ہوگا ‘‘،ایک لحاظ سے بہت جرأت مندانہ تمنا اور الہٰی ہدایت کی نافرمانی ہے۔قرآن واحادیث توجنت کی طلب ہی کو مسلمانوں کو اپنی منزل قرار دیں لیکن بندہ پسِ مرگ اپنے لئے محض مدینہ ہی طلب کرے ،ایک حیران کن خواہش ہے!۔مرنے کے بعد انسان مکے اور مدینے نہیں بلکہ سیدھے سیدھے جنت یا دوزخ میں جاتا ہے۔
     یہاں ایک سوال یہ بھی پید ا ہوتاہے کہ نبی نے مرنے کے بعد مدینے کی طلب میں کب جینے اورمرنے کی احادیث ارشاد فرمائی ہیں؟ اگر کوئی ایک فرمان بھی ا س ضمن میں کسی کو مل جائے تو بھی بات سمجھ میں آسکتی ہے !مزید یہ کہ صور پھونکے جانے اور حشر برپا کئے جانے کے بعد یہ زمین اور آسمان ہی کہاں باقی رہ جائیں گے کہ مکہ او رمدینہ یہاں موجود رہ جائیں؟ پہاڑ ٹکر اکر ریزہ ریزہ کردئیے جائیںگے اور زمین گرد وغبار بنا کر فضا میں بکھیر دی جائے گی ۔ پھر باقی نام صرف اللہ کا رہ جائے گااور اس کے بعد آخرت میں وہی جنت اور دوزخ باقی رہ جائیں گے جن کے تذکرے سے قرآ ن و احادیث کے صفحا ت کے صفحا ت بھرے ہوئے ہیں۔  
مبالغہ آرائی انسانی فطرت ہے ۔ایک حد تک رہے تو حسن کہلاتی ہے اور اگر تجاوز کرجائے تو اصل حقیقت کو بھی گم کردیتی ہے ۔ عشق ِ نبی حد سے زیادہ قابلِ قدر جذبہ ہے لیکن احتیاط ملحوظ رکھنی تو اس میں بھی ضروری ہے!۔
    سو امجد صابری کی قوالی کا یہ شعر کہ:
جنت بھی گوارا ہے مگر میرے لئے
اے کاتب ِ تقدیر ،مدینہ لکھ دے!
    حد سے بڑھی ہوئی مبالغہ آرائی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تعریف کرتے ہوئے کاش لوگ ادب و آداب کے بھی تمام پہلو ملحوظ رکھا کرتے!
مزید پڑھیں:- - - - - -دارالمدینہ میوزیم میں شہر مبارک کی مجسم عکاسی

 

شیئر: