Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند سے اچھے تعلقات کی یکطرفہ خواہش

***ڈاکٹر منصورنورانی***
جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننےٌٌ والی تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ عوام کی توقعات اِس لحاظ سے کچھ غلط اور بیجا بھی نہیں ۔ اِن ساری توقعات کا اصل خالق اور محرک خود خان صاحب ہی تھے جنہوں نے اپنی گزشتہ 5 سالہ ساری سیاست ہی سابقہ حکمر انوں کے خلاف ایسے معاملات اور ایشوز پر چلائی جنہیں وہ خود آج اپنے دور میں پورا کرنے کے قابل نہیں ۔اپوزیشن میں رہتے ہوئے خان صاحب کے دل میں جو آیاکہتے رہے۔ اُنہیں لمحے بھر کیلئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ سارے ایشوز اور ساری باتیں ایک دن خود اُن کیلئے بھی مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔
خان صاحب کی اِس نئی حکومت کو گرچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیںگزرا کہ ہم سب ملکر اُس کا احتساب شروع کردیں لیکن ہمیں اتنا حق تو ضرور ہے کہ وہ جن باتوں پر سابقہ حکومت کو اپنے تیز و تند حملوں کا نشانہ بنایا کرتے تھے، وہی باتیں وہ خود آج اگربڑی ڈھٹائی سے کررہے ہیں تو پھر اُن پر اعتراض کیوں نہ کیاجائے۔ وی آئی پی کلچر اور حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ پر خان صاحب بہت شور مچایا کرتے تھے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ آج خان صاحب بھی اُسی ٹھاٹ باٹ سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں۔ فرق ہوا ہے تو صرف یہ کہ پہلے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے کاروںکا استعمال ہواکرتا تھامگر اب کار کی جگہ ہیلی کاپٹروں نے لے لی ہے۔اپنے اِس شاہانہ اقدام کی حمایت اور توجیح میں عذریہ پیش کیاگیا کہ اِس طرح غریب عوام کو اُن مشکلوں سے بچالیاگیا ہے جو وزیراعظم کے لشکر کی آمد و رفت کی وجہ سے سڑکیں اور شاہراہیں بند کرنے سے اُنہیں درپیش ہواکرتی تھیں۔کینیڈا کے وزیراعظم کی سادگی کی مثالیں دینے والے شخص کی زباں سے ایسی توجیحات کچھ اِس لئے بھی زیب نہیں دیتیں کہ وہ تو خود تبدیلی اور سادگی اپنا نے کا بہت بڑے دعوے دار تھے۔وہ اگر سائیکل پر سفر نہیں کرسکتے تو کم از کم عام لوگوں کی طرح بناء کسی پروٹوکول کے بنی گالا سے پرائم منسٹر ہاؤس آجاتے تو کیا حرج تھا۔ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں کھڑی کاریں صرف ایک وزیراعظم کے زیرِ استعمال نہیں ہواکرتیں۔ غیر ملکی رہنماؤں کے دوروں اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں اُن کی اشد ضرورت ہوا کرتی ہے۔ خان صاحب آج اِن کاروں کو سستے داموں بیچ کرکل مہنگے داموں نئی کاریں خریدکر قومی دولت کا غیر ضروری نقصان اور زیاں نہیں کررہے ہونگے۔ایسے سارے کام محض بچکانہ اور نمائشی ہواکرتے ہیں۔خان صاحب کو اِن معاملات سے اب باہر نکل کر سوچنا ہوگا۔ وہ اب اپوزیشن لیڈر نہیں رہے بلکہ اِس ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں۔قوم اُن سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے فیصلوں کی توقع کرتی ہے۔ملک میں بے تحاشہ مسائل ایسے ہیں جو اُنکی فوری توجہ کے منتظر ہیں۔
پاکستان اسٹیل ملز ایک عرصے سے بند پڑی ہے۔ملکی خزانے سے ہر ماہ ایک خطیر رقم اُس کے ملازموں کے تنخواہوں کی مد میں جارہی ہے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے تو خان صاحب نے میاں صاحب کو کبھی اِس بارے میں کوئی بڑا فیصلہ کرنے نہیں دیا۔ اب اُنہیں خود اِس کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی۔وہ اور اُن کے ذہین اور قابل وزراء کی ٹیم اِس بارے میں کیا رائے رکھتی ہے اِس کا فیصلہ جلد کرنا ہوگا۔ٹال مٹول کرنے یانظریں چرانے سے مسائل حل نہیں ہواکرتے۔اِسی طرح قومی ایئرلائن پی آئی اے بھی آپ کی فوری توجہ کی مستحق ہے۔ اُسے بھی مکمل تباہ ہونے سے بچانا ہے۔اِس قومی اثاثے کو پرائیوٹائز کرنے کے آپ بہت بڑے مخالف رہے ہیں۔اِس کا کوئی متبادل قابل عمل حل آپ کے ماہرین کے پاس ضرور ہوگا۔اب حکومت او ر اختیارسب کچھ آپ کے پاس ہے۔وزراء کی بہت بڑی ٹیم کابینہ کے اجلاسوں میں ہر ہفتے شریک ہوتی ہے ۔ اِن دونوں بڑے ایشوز پرابھی تک کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی۔
کسی حکومت کی کارکردگی جانچنے کیلئے اُس کی خارجہ پالیسی بہت بڑا پیمانہ ہواکرتی ہے۔سابقہ حکومت کو تو اپناوزیرخارجہ بھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ شومئی قسمت سے خان صاحب کوایسی کوئی مشکل درپیش نہیں ۔محل وقوع کے اعتبار سے ہمارا وطن عزیز جس خطہ میں واقع ہے عالمی نقطہ نظر میں اُسے بہت اہمیت حاصل ہے۔حسن اتفاق سے سی پیک منصوبے نے اُس کی اِس اہمیت و افادیت کو اور بھی اجاگر کردیا ہے۔اقتصادی حوالوں سے یہ مستقبل کا ایک بہت اہم علاقہ تصور کیاجانے لگا ہے۔ دوست اور دشمن سب کی نظریں اِس پر لگی ہوئی ہیں۔ہماری سا  لمیت اور بقاء کا تعلق بھی اب اِسی منصوبے سے جڑا ہوا ہے۔اِس منصوبے پر ابہام اور شکوک و شبہات پیدا کرکے ہم اپنے دشمنوں کے ارادوں اورعزائم کوتقویت پہنچارہے ہونگے۔ہمیں جلد از جلد اِس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا نہ کہ دشمنوں سے مالی مراعات کی خاطر اُسے کچھ عرصے کیلئے مؤخر یامعطل کرنے کی باتیں کرنا ہوگی۔اِسی طرح ہند سے اچھے تعلقات کی خواہش کرنا بھی کوئی ایسی نامناسب بات نہیں لیکن یہ خواہش یکطرفہ ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ نواز شریف کو تو ہم اِس خواہش کے جرم میں "مودی کے یار" جیسے القابات سے نوازتے رہے ہیںلیکن ہمارے لئے اپنے پہلے ہی خطاب میں ایسی خواہش کرنایا اُن سے مذاکرات کی منتیں کرنا کیسے درست اور صحیح ہوگیا۔کلبھوشن یادو جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوا اورابھی تک ہماری تحویل میں ہے۔اُسے پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے لیکن اُس پر عملدرآمد میں عالمی عدالتِ انصاف حائل ہے۔میاں صاحب پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ اپنی زباں سے اُس کا نام تک نہیں لیاکرتے تھے  لیکن خان صاحب جب سے وزیراعظم بنے ہیں وہ بھی اُس کانام بھول چکے ہیں۔ خان صاحب کو اب تسلیم کرلینا چاہئے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اُن کی ساری باتیں محض سیاسی تھیں۔اُن کاحقیقت سے کوئی واسطہ یا سروکار نہیں تھا۔حکومتی مسائل اور مشکلات کا صحیح ادراک تو اُنہیں اب حاصل ہوا ہے۔

رائے دیں، تبصرہ کریں

شیئر: