Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تبدیلی راتوں رات نہیں آتی

***صلاح الدین حیدر۔بیوروچیف***
عمران خان کا قصور آخر کیا ہے؟انہیں پہلے دن سے دشمنوں نے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ چونکہ حیرانی اور تشویش دونوں ہی تھیں۔ کافی دماغ کھپانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ عمران خان نے وقت کے دھارے کو موڑنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ ہمت اور عزم، اللہ کی مدد اور حمایت سے مقصد میں سرخرو ہوئے۔ ظاہر ہے جو لوگ قائداعظمؒ اور شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد تخت سلطانی پر جلوہ افروز ہوئے، انہیں یہ بات پسند نہیں آئی۔مطلب صاف تھا،پہلے 2 بڑے رہنمائوں (جنہوں نے مسلمانانِ ہند کو ایک نئی مملکت دلوانے میں خون پسینہ ایک کردیا تھا) کے جہانِ فانی سے رخصت ہونے کے بعد بیشتر خودغرض لوگوں نے اقتدار سنبھالا، یہ لوگ حکمران تو بن گئے لیکن نیتیں نیک نہ تھیںاسلئے ذاتی مفاد کو قومی مفادات پر ترجیح دے کر مملکت خداداد کو جہنم بنا ڈالا۔بات تلخ ضرور ہے، لیکن کلمۂ حق بلند کرنا بھی تو شرعی اورقومی فریضہ ہے، اسے کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔ 
تنقید برائے اصلاح ہو تو سرتسلیم خم، لیکن تنقید برائے تنقید اور کسی کی تضحیک ہو تو پھر، یہ ہمارے پیارے وطن کیلئے سم قاتل ہوگی، یا پھر اسے خرابیوں سے دوچار کرکے ہی رہے گی۔ عمران خان فرشتہ نہیں ، نہ ہی خطائوں سے پاک۔ چونکہ میں نے انہیں ایک باہمت اور دنیا سے لوہا منوانے والا کھلاڑی، انسانیت سے لبریز شخص پایا ہے، کپتان کی حیثیت میں وہ دوسروں کیلئے مثال تھے اور حوصلہ بڑھانے والے لیڈر۔ جس طرح انہوں نے اپنی مہم کرپشن کے خلاف چلائی، وہ اپنی مثال آپ تھی۔ لوگ اس کا مذاق تو ضرور اُڑاتے نظر آئے، لیکن مجھے یقین ہے کہ دل میں اسے داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ عمران کو وزیراعظم بنے 5ہفتے ہی ہوئے ہیں، اتنا قلیل عرصہ تو صرف نظام حکومت کو سمجھنے کیلئے بھی کافی نہیں، ہاں ان سے غلطیاں ضرور ہوئیں لیکن تجربے کی کمی کی وجہ سے۔ کچھ ایسے فیصلے کیے گئے جو ان کی مقبولیت پر اثرانداز ہوئے، مثلاً گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا معاملہ۔ افغانیوں اور بنگالیوں کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان اور سب سے اہم سوال ٹیکسوں کے نظام میں آسانی پیدا کرنے کے بجائے، انہیں یہ کہہ کر کہ امراء اور رؤسا کو ٹارگٹ کیا گیا ہے،عوام متاثر نہ ہونگے ، یہ سب نہ ماننے والے دلائل ہیں۔ٹیکس چاہے امیر پرلگے یا بڑی بڑی کمپنیوں پر، وہ سب عوام پر منتقل کردئیے جاتے ہیں۔ظاہر ہے غریب ہی نشانہ بنتا ہے۔ اس کی روزی، روٹی اور گھریلو اخراجات پر ضرب پڑے تو چیخ و پکار تو ہوگی۔ عمران نے عوام میں ہیجانی کیفیت کو جاننے کے بعد قومی اسمبلی میں یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ افغانیوں اور بنگالیوں کو پاکستانی شہریت دینے کی محض تجویز ہے۔ فیصلہ قومی اسمبلی میں بحث کے بعد ہوگا، لیکن لوگوں کی تسلی نہیں ہوئی۔ 
یہ درست ہے کہ سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے روس کے خلاف افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دے کر اپنے ملک کو جہنم بنادیا۔ 30 لاکھ افغانیوں نے ہجرت پر مجبور ہوکر پاکستان میں پناہ لی۔یہ ایک فطری بات ہے کہ پڑوسی ملک میں گولہ باری ہورہی ہو تو لوگ ہجرت پر مجبور ہوجاتے ہیںلیکن یہی مسئلہ ایران کے ساتھ بھی تھا۔ اس نے تو انہیں خصوصی کیمپوں میں رکھ کر ان کی دیکھ بھال کیلئے نقد رقم اور دوسری ضروری اشیاء فراہم کیںتاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ہند کی مثال لے لیں۔1971 میں اُس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں ملٹری آپریشن کی وجہ سے لاکھوں بنگالی ہندمیں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ہندنے نہ صرف انہیں عسکری تربیت دی بلکہ جدید ہتھیاروں سے لیس بھی کیا تاکہ پاکستانی افواج سے نبردآزما ہوسکیں لیکن انہیں پورے ملک میں آزادی سے گھومنے پھرنے کی اجازت نہ دی۔ ہمارے یہاں ضیاء الحق نے انہیں ہار پہنائے، پورے پاکستان میںکھلی چھٹی دی کہ جہاں بسنا چاہیں بس جائیں۔نتیجہ ظاہر ہے کہ آج ان میں آدھے تو وطن لوٹ گئے یا بھجوادئیے گئے، لیکن 15لاکھ افغانی تو آج بھی ملک کے گوشے گوشے میں نہ صرف آباد ہیں بلکہ شادیاں کرلی ہیں، کاروبار، خصوصاً ٹرانسپورٹ کے بزنس پر حاوی ہوچکے ہیں۔ اب انہیں 39 سال بعد شہریت تو دینی پڑے گی۔ پھر یہ ہنگامہ کیوں؟شہباز شریف اور بلاول بھٹو تک نے اعتراض اٹھایا۔سندھ سے سب سے بلند آواز تھی، تو ہم خود فیصلہ کرلیں کہ کیا کرسکتے ہیں؟ اس سب باتوں کا حل کیا ہے؟ صرف عمران مخالفت میں ایسا کرنا قومی مفاد میں نہیں، سوچ سمجھ کر اور اقوام متحدہ کے مہاجرین کمیشن اور افغان حکومت سے مل کر کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا پڑے گا، ہاں اس وقت تک انہیںقومی شناختی کارڈ جاری کیا جانا عقل مندی نہیں ہوگی، گو ان میں سے اکثریت نے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرلیے ہیں۔سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے صحیح حکمت عملی اپنائی تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ لے کر اپنے آپ اور اہل خانہ کو پاکستانی کہتے ہیں۔ ہاں عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے اور اسکے ساتھ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار کو کہ کرپشن کے خلاف تمام تر مخالفت اور رکاوٹوں کے باوجود جنگ جاری رکھی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیپلز پارٹی، (ن) لیگ (جن کے اکثرو بیشتر ارکان لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں) نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ظاہر ہے کہ ان کے چہرے سے نقاب اٹھنے والا ہے اور جرم ثابت ہونے کے بعد جیل کی سلاخیں ان کی منتظر ہیں۔ اسے اختلاف نہیں بغض کہتے ہیں۔ بدلہ بھی نہیںکہا جاسکتا اسلئے عمران، جنرل باجوہ اور ثاقب نثار پر تو کوئی الزام نہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ عمران کے کچھ قریبی ساتھی ان کیلئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔  
ہیلی کاپٹر پر مباحثہ بالکل جائز ہے۔ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ صرف 50/55روپے فی لیٹر پٹرول لاگت آتی ہے، کچھ نے 11ہزار روپے تک تخمینہ پیش کیا اور کچھ تو اس پر اڑے ہوئے ہیں کہ ہیلی کاپٹر کے بنی گالہ اور وزیراعظم سیکریٹریٹ تک جانے اور واپس آنے پر ایک لاکھ80ہزارروپے روزانہ کا خرچہ ہے۔ عمران کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ کون سی پالیسی انہیں عوامی ہیجانیت سے بچاسکے گی، لوگ ان پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ اقرار کرتے ہیں کہ ایمان دار شخص ہیں، قومی خزانے پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔ کفایت شعاری ان کا شیوہ ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار  کے بچے عہدہ سنبھالنے سے پہلے چھوٹی سوزوکی کار میں اسکول جاتے تھے، اب بڑی گاڑی اور پولیس کے 2حفاظتی دستے اور گاڑیاں ان کے ساتھ ہوتی ہیں، کیا یہی کفایت شعاری ہے؟ آپ صدر مملکت کو دیکھ لیں، اسلام آباد سے کراچی آئے، ایئرپورٹ پر اپنا سامان خود ہی اٹھایا، لائن میں لگ کر ٹکٹ بنوایا، ٹیلی وژن پر سب کچھ دکھایا گیا، اسی طرح وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیویارک جانے کیلئے اسلام آباد ایئرپورٹ پر کائونٹر پر جاکر خود اپنا بورڈنگ پاس لیا۔ قطار میں لگ کر ایمیگریشن کروائی، تو پھر یہ دیگر پارٹی کے لوگ کیوں عمران کو امتحان میں ڈال رہے ہیں؟ان کی سرزنش ہونی چاہیے ۔ تبدیلی جادو کی چھڑی گھمانے کے ساتھ یا راتوں رات نہیں آتی، وقت لگتا ہے، لیکن آغاز بھی تو صحیح ہو

شیئر: