Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خون نا حق!!!

***محمد مبشر انوار***
حکمرانی یا اقتدار ہمیشہ سے ہی انسانی کمزوری رہا ہے۔زندگی میںتقریباً ہر شخص کسی نہ کسی حیثیت میں حکمرانی یا اقتدار سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے ۔گو کہ اس کا دائرہ کار ہمیشہ مختلف ہوتا ہے کہ ایک گھر میں اختیار و اقتدار مختلف حیثیتوں میں کبھی خاتون خانہ تو کبھی صاحب خانہ کے پاس رہتا ہے جبکہ دوسری طرف ملکی معاملات میں اختیار و اقتدار کایہ سانپ سیڑھی کا کھیل مختلف مدارج میں عوامی نمائندگان کے پاس رہتا ہے۔ ایسے دنیاوی بادشاہوں/شہنشاہوں یا حکمرانوں کو ابدی زندگی عطا ہوتی ہے جو اپنے دور حکمرانی میںعدل برقرار رکھتے ہیں۔ تاریخ ایسے عادل حکمرانوں سے خالی نہیں جن کی دائمی وجہ شہرت فقط ان کا عدل رہا ۔ ایسے حکمرانوں کا دور حکمرانی نہ صرف انتہائی پر امن رہا بلکہ ان کے دور حکمرانی میں عوام بھی خوشحال رہے اور ان حکمرانوں کی سلطنتیں بھی دن بدن پھیلتی رہی۔ 
حکمرانی اور عدل کے حوالے سے یہ حقیقت لازم و ملزوم رہی ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی۔ جس معاشرے میں بھی ظلم و ستم ہو ،وہ معاشرے کبھی پنپ نہیں سکتے، الٹا ترقی پذیر معاشرے اپنی بڑھتی ہوئی نشوونما گنوا کر زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے کی سب سے بنیادی ضرورت ہی امن اور عدل ہے اگر اسلامی معاشرے ،اسلامی ملک میں (خواہ نظام حکومت کوئی بھی ہو)یہ دو بنیادی عنصر نا پید ہوں تو معاملات کسی بھی صورت پھل پھول نہیں سکتے۔ ایک اسلامی معاشرے کی پہچان ہی یہی ہے کہ امیر و غریب ،حاکم و محکوم کیلئے قانون ایک ،سزا بھی ایک،کسی بھی قسم کی کوئی مستثنیات اسلامی ملک میں قائم نہیں رہ سکتی۔ اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب میں فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اسی لئے برباد ہوئیں کہ انکے امیروں کیلئے مختلف قانون اور غریبوں کیلئے مختلف قانون تھا۔ اسی حکم ربی کو سامنے رکھتے ہوئے آقائے نامدار محمد مصطفی نے فرمایا تھا کہ اللہ کی قسم اگر محمد کی بیٹی (فاطمہ) بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دئیے جاتے ۔ 
مساوات کا یہی وہ آفاقی اصول تھا جس نے اسلام اور اسلامی حکومت کو فروغ دیااور واشگاف الفاظ میں انسانیت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل ،پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اس زریںقول کو ذہن میں رکھیں اور آج کی دنیا کے حالات دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ آج انصاف نام کی کوئی چیز ایسے معاشروں میں نظر نہیں آتی،غریبوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے کیسے کیسے دکھ جھیلنے پڑتے ہیں،زندگیاں قربان کرنی پڑتی ہیںتب بھی انصاف نام کی چڑیا بمشکل حاصل کر پاتے ہیں۔ دوسری طرف اشرافیہ ہے جو قانون کو موم کی ناک بنائے،گھر کی لونڈی سمجھتے ہوئے کسی بھی طرح کے حالات میں اپنا الو سیدھا کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہے،کبھی قانون کو مروڑ لیا تو کبھی منصف کو توڑ لیاجبکہ غریب و مظلوم عوام کی داد رسی کو شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کیلئے انصاف کے حصول کا پہلا قدم ہی انتہائی مشکل اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے اور اکثریت تو اس پہلے قدم پر پاؤں رکھنے کیلئے ہی تیار نہیں ہوتے کہ مبادا اس گھن چکر میں گھر کی روزی روٹی سے ہی ہاتھ نہ دھونے پڑیں۔
غریب و محکوم عوام کی بات تو رہی ایک طرف کہ یہاں تو ایسے ایسے نامور بھی پائے جاتے ہیں کہ جنہیں ظلم کے خلاف پہلے قدم پر پاؤں رکھنے کیلئے بھی وقت کے سپہ سالار کی مداخلت درکار ہے۔جون 2014 میں ایسا ہی ایک واقعہ لاہور میں رونما ہو چکا ہے جس میں ادارہ منہاج القرآن کے باہر کھڑی رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے ،ہونے والے آپریشن میں ریاستی مشینری نے بے دریغ آتش و آہن کا استعمال کر کے حکومتی انا ورٹ کو پورا کیا۔ ادارے کا مؤقف یہ رہا کہ احاطے کے باہر کھڑی رکاوٹیں متعلقہ سرکاری اداروں اور عدلیہ کی اجازت سے قائم کی گئی ہیں تو ریاستی مشینری(حکومتی ارباب اختیار)کا یہ مؤقف کہ یہ غیر قانونی اور راستے میں رکاوٹ ہیں،اس لئے انہیں ہٹانا مفاد عامہ اور ریاستی مشینری کی ذمہ داری ہے۔ پس پردہ حقائق سے ساری دنیا واقف ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے پیروکار ،کسی بھی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں اور 2014میں ہی اس کا ثبوت پاکستان عوامی تحریک نے دھرنے کی صورت میں دیالیکن حیرت ہے کہ اتنی نامور شخصیت اپنے کارکنان کی بہیمانہ ہلاکتوں پر اپنا جائز قانونی حق استعمال کرنے سے قاصر رہی۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس اندوہناک قتل عام پر ،بعد ازاں حکومتی کارپردازوں نے اتنی گرد اڑائی کہ الامان الحفیظ۔یہاں تک کہا گیا کہ متاثرین نے اربوں روپے دیت کی مد میں وصول کر کے شہداء کا معاوضہ وصول کر لیا ہے۔ اگر واقعتاشہداء کا معاوضہ وصول کر لیا گیا ہوتا تو آج عوامی تحریک کے سربراہ دوبارہ سڑکوں پر آنے کیلئے پر کیوں تول رہے ہیں؟بالخصوص اس وقت جب ان کے 2014کے اتحادی کی حکومت ہے؟آج وزیر اعظم عمران خان ہیں،جو اس وقت بڑے شد و مد سے منہاج القرآن پر ہونے والے ظلم و ناانصافی کے خلاف بڑے بڑے دعوے کرتے تھے اور انصاف کیلئے ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے،آج عملی اقدامات کرنے سے (ابھی تک)قاصر کیوں ہیں؟جسٹس باقر رضوی کی رپورٹ شائع ہوئے بھی عرصہ بیت چکا مگر ملزمان کے خلاف کارروائی میں تاخیر کیوں؟خادم اعلیٰ، جن پر الزامات لگے،انہیں عدالت عالیہ سے استثنیٰ کیوں اور کس بنیاد پر(کیا کسی دوسرے عام شہری کیلئے یہ قانون ہو سکتا ہے)دیا گیا؟کیا کوئی مہذب معاشرہ اس طرح ریاستی مشینری کے ہاتھوں نہتے و پر امن شہریوں کے قتل عام کی اجازت دیتا ہے؟دوسری طرف ریاستی مشینری کے دلیر سپوتوں کی دلیری و شجاعت کا یہ عالم ہے کہ ان سے چھوٹا گینگ کا بدمعاش پکڑنے کی اہلیت نہیں ،جو براہ راست امن وامان اورمفاد عامہ کیلئے خطرہ ہے۔جس مقصد کیلئے یہ ریاستی ادارہ جوابدہ ہے،وہاں اس کی کارکردگی و اہلیت صفر ہے۔حکومتی وزراء کی مبینہ ذاتی دوستیاںکالعدم جماعتوں ،دہشتگردوںکے ساتھ ہیں،جو ان کے دست و بازو بنے،ان کیلئے ایسے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں جو صرف اورصرف ظلم و جبر و استبدادی معاشرے میں ہی ممکن ہے اور کوئی ریاستی ادارہ ان سے باز پرس کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، الٹا انہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری ایک بار پھر پاکستان پہنچ چکے ہیں اور اس مرتبہ بھی ان کا ارادہ اپنے کارکنوں کیلئے انصاف کا حصول ہی ہے،جو ایک طرف دیت کے مفروضے کو باطل ثابت کرتا ہے تو دوسری طرف موجودہ حکومت کیلئے ایک پیمانہ مقرر کرنے جا رہا ہے کہ کس طرح حکومت وقت اس مسئلے سے نپٹتی ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت نہیںیا چیف جسٹس ثاقب نثار دیگر امور کی طرح اس امر پر بھی از خود نوٹس لے کر ’’خون نا حق‘‘ کا انصاف کرتے ہیں ۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں