Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خاشقجی معاملہ، شاہ سلمان کے روسی صدر اور جرمن چانسلر سے ٹیلیفونک رابطے

    ریاض - --  - -خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے روسی صدر پوٹین اور جرمن چانسلر مرکل سے ٹیلیفونک رابطے کئے۔ روس اور جرمنی کے رہنماؤں کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو جدید خطو ط پر استوار کرنے کے طورطریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ سعودی شہری جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق تحقیقات کی تازہ صورتحال سے بھی انہیں مطلع کیا۔ شاہ سلمان نے اطمینان دلایا کہ اس جرم میں ملوث افراد نے جو کچھ کیا وہ سعودی عرب کے اصولوں اور ان کی اقدار سے میل نہیں کھاتا۔شاہ سلمان نے زور دیکر کہا کہ عدالتی عمل فیصلہ کن شکل میں آگے بڑھے گا۔ جو شخص بھی مجرم ثابت ہوگا اسے عبرتناک سزا دی جائیگی۔ جرمن چانسلر نے امید ظاہر کی کہ موجودہ تحقیقات کی بدولت خاشقجی کے قتل سے تعلق رکھنے والے تمام امور طشت از بام ہونے چاہئیں۔دوسری جانب ترک وزیر خارجہ نے اطمینان دلایا کہ ترکی خاشقجی کے مسئلے کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ البتہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی صورت میں تمام مطلوبہ معلومات فراہم کریگا۔اوغلو نے فلسطینی وزیرخارجہ ریاض المالکی کے ساتھ انقرہ میں پریس کانفرنس کے دوران اعتراف کیا کہ ترکی نے بعض فریقوں کو خاشقجی کے معاملے سے متعلق مزید معلومات فراہم کی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہحکومت خاشقجی کے واقعہ سے متعلق بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی صورت میں متعلقہ فریقوں کو مہیا تمام معلومات اور شواہد پیش کی کرنے کا پابند ہے۔انہوں نے کہا کہ ترک حکومت اور عوام نے خاشقجی کے قتل کی تفصیلات کا پتہ لگانے کیلئے تمام ضروری اقدامات قانون کے احترام میں کئے ہیں ۔ یہ جرم منصوبہ بند تھا۔خاشقجی کے قتل میں ملوث تمام افراد کے ساتھ پوچھ گچھ اور ترکی میں ان پر مقدمہ چلایا جانا ضروری ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام بین الاقوامی تنظیمیں اور ذرائع ابلاغ خاشقجی کے مسئلے سے مسلسل دلچسپی لے رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں مکمل شفافیت ضروری ہے ۔ ہم نے خاشقجی کے قتل سے متعلق دقیق ترین تفصیلات ، معلومات اور شواہد ان سب فریقوں کو مہیا کر دئیے ہیں جس نے معلومات حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض سوالات ابھی وضاحت طلب ہیں ۔سب سے اہم معاملہ خاشقجی کی نعش کا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ویانا معاہدے کے بموجب خاشقجی کے قتل سے متعلق تحقیقات ترکی قوانین کے مطابق ہو گی ۔ یہ درست ہے کہ قتل کی واردات سعودی قونصل خانے میں ہوئی ہے جو سعودی عرب کا ایک حصہ شمار کیا جاتا ہے تاہم تحقیقات ترک قوانین کے مطابق ہی کی جانی ضروری ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چونکہ ویانا معاہدہ کے تحت ترکی کو یہ حق حاصل ہے لہٰذا خاشقجی کے قتل میں ملوث تمام افراد سے تحقیقات اور ان پر مقدمہ کی کارروائی بھی ترکی ہی میں کی جانی ضروری ہے ۔ دوسری جانب ترکی کی حکمراں جماعت کے نائب سربراہ نعمان نے کہا ہے کہ ویانا معاہدے میں نظر ثانی کی جانی چاہئے تاکہ مستقبل میں سفارتخانوں اور قونصل خانوں میں خاشقجی کے قتل جیسی وارداتوں کا سد باب کیا جا سکے ۔مناسب وقت پر مداخلت ممکن ہو اور سفارتخانوں اور قونصل خانوں سے حاصل سفارتی تحفظ جرائم کو روکنے میں رکاوٹ نہ بنے ۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ ابھی تک خاشقجی کی نعش نہیں ملی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ واردات کی جملہ تفصیلات  واضح نہیں ہوئی ہیں ۔ دوسری جانب استنبول پبلک پراسیکیوشن نے سعودی قونصل خانے میں کام کرنیوالے 38ترک ملازمین کے بیانات سنے ۔ یہ کارروائی خاشقجی قتل سے جڑی ہوئی تحقیقات کے ضمن میں انجام دی گئی ۔ترکی پبلک پراسیکیوشن نے ان لوگوں سے بنیادی سوال یہ کیا کہ کیا 2اکتوبر 2018ء کو پیش آنیوالے واقعہ کے دن قونصل خانے میں کوئی ہنگامی صورتحال پیش آئی تھی کیا انہوں نے خاشقجی اور قونصل آنیوالے 15افراد کو دیکھا تھا۔ ان سے قونصل خانے میں ملازمت کے دورانیے سمیت متعدد سوالات کئے گئے ۔پبلک پراسیکیوشن نے ابھی سعودی قونصل خانے کے ان 5ترکی ملازمین سے بھی تحقیقات کرنے کا عندیہ دیا ہے جنہوں نے اب تک اپنا بیان ریکارڈ نہیں کرا یا ہے ۔
مزید پڑھیں:- - - - -ولی عہد محمد بن سلمان دنیا ئے اسلام کی موثر ترین شخصیات میں اول
 

شیئر: