Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عصمت و عفت کی حفاظت کا انعام

 کسی نے اس عورت کا نام پیش کر دیا،سب لوگوں نے اس پر لبیک کہا ،کہنے لگے: اس سے بہتر بادشاہ نہیں مل سکتا چنانچہ اس کو حکمران منتخب کر لیا جاتا ہے
 
*  * * عبدالمالک مجاہد۔ریاض* * *

ایک عورت غیر معمولی خوبصورت تھی۔ اس کی شادی ایک بڑے اچھے شخص کے ساتھ ہو گئی۔ دونوں بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ کچھ عرصہ گزرا ،اس عورت کے خاوند کو کاروبار کے لیے کسی دوسرے شہر کا سفر در پیش تھا۔ کسی وجہ سے وہ اپنی بیوی کو اپنے ہمراہ نہیں لے جا سکتا تھا۔ خاوند کا چھوٹا بھائی اس کے ساتھ ہی اسی گھر میں رہتا تھا۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ اپنی بیوی کوفیملی والے کسی قریبی دوست کے گھر میں چھوڑ جاتا ہوں۔ جوان اور غیر معمولی خوبصورت بیوی کا اکیلے گھر میں رہنا مناسب نہیں۔ پھر اسے خیال آیا کہ میرا اپنا سگا بھائی بھی تو گھر میں موجود ہے۔ اس کی موجودگی میں بیوی کو کسی کے گھر چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ میری بیوی کو تو تحفظ درکار ہے ۔ وہ اکیلی تو نہیں۔ اس کے بھائی کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔
    عورت کے خاوند نے سفر سے پہلے اپنے بھائی کو بلایا اور کہا : مجھے ضروری کام سے دوسرے شہر جانا ہے۔ میرے جانے کے بعد تمہاری بھابھی اکیلی ہے، اس کا خیال رکھنا۔ بھائی نے اسے تسلی دی کہ کوئی فکر نہ کرو اطمینان سے سفر پر جاؤ۔ حسب پروگرام وہ تو سفر پر روانہ ہو گیا مگر یہ بھول گیا کہ اللہ کے رسول کی حدیث ہے کہ دیور تو موت کی طرح ہے۔ ’’الْحَمْوُ الْمَوْتُ‘‘  لیکن میں اپنے گھر میں جوان مرد اور عورت چھوڑ آیا ہوں۔
    چند دن گزرے چھوٹے بھائی پر شیطان غالب آ گیا۔ اس نے اپنے بھائی کی عزت پر ڈاکہ ڈالنا چاہا۔ اپنی بھابھی کو ورغلانے کی کوشش کی، مگر وہ خاتون عفت مآب اور اللہ کا خوف رکھنے والی تھی۔ اس نے اپنے دیور کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ کہنے لگی: اللہ کا خوف کرو ،میں تمہارے بھائی کی عزت ہوں۔ تم اپنے بھائی اور اللہ کو کیا جواب دو گے؟ اپنے بھائی کے ساتھ خیانت نہ کرومگر اس پرتو شیطان سوار تھا۔ عورت نے اس کے ہزار بار ورغلانے کے باوجود اس کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا۔
    اسی دوران خاوند کے واپس آنے کا وقت ہو گیا۔ چھوٹے بھائی کو جہاں اس بات کا رنج تھا کہ اس کی بھابھی نے اس کی بات نہیں مانی وہیں اسے اس بات کا بھی ڈر تھا کہ اگر بھابھی نے میرے بھائی کو میری کرتوت سے آگاہ کر دیا تو میری خیر نہیں۔
    دیور نے ایک سازش تیار کی۔ جیسے ہی اس کا بھائی گھر واپس آیا اس نے اسے جھوٹی کہانی سنا دی کہ تمہاری بیوی کوئی اچھی عورت نہیں۔ تمہاری عدم موجودگی میں اس نے میرے اوپر ڈورے ڈالے تھے ۔ یہ تو میں ہی اچھا تھا جو اس کے چنگل سے بچ گیا۔ عورت کے خاوند کو سخت غصہ آیا۔ اس نے بیوی سے پوچھے بغیر اور کسی تحقیق سے پہلے ہی اپنے بھائی کی بات پر یقین کر لیا۔ بیوی کو 3 طلاق دے کر کہا: جاؤ ابھی میرا گھر چھوڑ دو۔ بیوی نے بڑی منت سماجت کی، مگر اس نے ایک نہ سنی ۔ عورت کے والدین وفات پا چکے تھے۔ میکے میں بھی کوئی نہ تھا جو اسے پناہ دیتا۔ خاوند نے طلاق دیکر گھر سے نکالا تو وہ اللہ کا نام لے کر ایک طرف نکل کھڑی ہوئی۔ اسے اپنے رب پر بھروسہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ بے قصور ہے، اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔ راستے میں ایک بڑے عابد کی کٹیا نظر آئی تو اس نے اس نیک متقی اور عابد  شخص کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ اس نیک آدمی نے دروازہ کھولا، عورت نے اپنی دکھ بھری کہانی سنائی۔ عابد کہنے لگا: کوئی فکر نہ کرو، میرا ایک چھوٹا سا بیٹا ہے۔ اس کی پرورش کے لیے مجھے ایک عورت کی ضرورت ہے ۔ تم میری کٹیا کے ساتھ والے کمرے میں رہو اور میرے بچے کی دیکھ بھال کرو۔ فکر نہ کرو تم یہاں محفوظ ہو۔ کھانے اور رہائش کے ساتھ میں تمہیں مناسب اجرت بھی دیا کروں گا۔
    عورت کو تحفظ اور گھر چاہیے تھا، اس نے موافقت کر لی اور عابد کے بیٹے کی پرورش شروع کر دی۔
    کچھ عرصہ گزرا۔یہ عابد کسی کام کے لیے اپنی کٹیاسے باہر گیا تو اس کے خادم نے عورت کو بہکانا شروع کر دیا۔ خاتون نے سختی سے انکار کیا، اسے اللہ کا خوف دلایا مگر خادم پر بھی شیطان سوار تھا۔ دونوں گھر میں اکیلے تھے، تیسرا کوئی شخص نہ تھا۔
    قارئین کرام! اللہ کے رسول کی حدیث ہے کہ آپنے ارشاد فرمایا: کوئی غیر محرم عورت اور مرد اگر کسی جگہ اکیلے ہوتے ہیں تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ جب عورت نے اس کی بات نہ مانی تو خادم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں اس بچے کو قتل کر دوں گا اور اس کے باپ سے کہوں گا کہ تم نے اس کے بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔ عورت نے پھر بھی بات نہ مانی تو خادم نے بچے کو قتل کر دیا۔ جب عابد گھر آیا تو خادم نے اس کو بتایا کہ تمہاری عدم موجودگی میں اس عورت نے تمہارے بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔ عابد کو شدید غصہ آیا کہ اس نے ناحق میرے بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔ وہ اللہ کا خوف رکھنے والا انسان تھا۔ چند گھنٹوں بعد اس کا غصہ اتر گیا اور نجانے اس کے دل میں کیا آیا کہ اس نے عورت کو بلایا اور کہنے لگا: جاؤ میں نے تمہیں اللہ کے لیے معاف کر دیا ہے۔ عورت نے بڑی کوشش کی کہ وہ اس کی بات تو سنے، مگر عابد نے اس کی ایک نہ سنی تاہم اس نے2 دینار اپنی جیب سے نکالے اور کہنے لگا: تم نے تومجھ پر بڑا ظلم کیا ہے، مگر میں تمہارے اوپر ظلم نہیں کروں گا۔ تم نے میرے بیٹے کی جو خدمت کی ہے یہ اس کا معاوضہ ہے، مگر اب تم فورا میرا گھر چھوڑ دو۔
     قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں سورۃ آل عمران میں فرمایا ہے: وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنِ  النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ  ’’غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے، اللہ تعالیٰ ایسے محسنین سے محبت فرماتا ہے۔‘‘  عورت نے عابد کا گھر چھوڑا تو جدھر کو اللہ نے چاہا ادھر چل دی۔ تھوڑی دور گئی تو اس نے دیکھاکہ کچھ لوگ ایک آدمی کو بری طرح مار رہے ہیں۔ اسے اس شخص کو پٹتا دیکھ کر ترس آ گیا۔ آگے بڑھی، کہنے لگی: بھائیو! تم اس شخص کو کیوں مار رہے ہو؟ کہنے لگے: اس نے ہمارا قرض دینا ہے۔ ہم نے اس کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ اگر تم نے قرض واپس نہ کیا تو ہمارے غلام بن جاؤ گے۔ اب ہم اسے اس لیے مار رہے ہیں کہ یا تو قرض واپس کرے یا غلام بننا قبول کرلے۔ عورت نے پوچھا : اس کا قرض کتنا ہے؟ کہنے لگے: اس پر 2 دینار قرض ہے۔ عورت نے کہا: اگر اس کا قرض میں ادا کر دوں تو اس بے چارے کی جان چھوڑ دو گے؟ کہنے لگے: ہمیں اپنے دیناروں سے غرض ہے۔ عورت نے اپنی جیب سے عابد کے دیے ہوئے 2 دینار نکالے اور کہنے لگی کہ یہ رہے2 دینار، اب اس کا راستہ چھوڑ دو۔انہوں نے دینار لیے اور اس شخص کو چھوڑ دیا ۔
     اس شخص نے عورت سے پوچھا کہ تم کون ہو اور تمہاری کیا کہانی ہے۔ اس نے اپنا قصہ بیان کیا تو وہ شخص کہنے لگا: ہم دونوں کہیں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ہمیں جو معاوضہ ملے گا، اسے آدھا آدھا کر لیں گے۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے ۔ اس شخص نے دیکھا کہ عورت بڑی خوبصورت ہے۔ کہنے لگا: یہ علاقہ برے لوگوں کا ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ سمندر کے اس پار اچھے لوگ رہتے ہیں،ہم وہاں چل کر رہتے ہیں۔ اس نے کہا: تمہاری بات ٹھیک ہے۔ چلو اس علاقے کو چھوڑتے ہیں۔ وہاں سے وہ ساحل سمندر پر پہنچے۔ وہاں بحری جہاز تیار تھا۔ وہ شخص کہنے لگا: تم جہاز پر سوار ہو جاؤ میں ابھی آتا ہوں۔ وہ معصوم عورت جہاز پر سوار ہو گئی تو یہ شخص بڑے ملاح کے پاس جا پہنچا۔ کہنے لگا : یہ عورت میری لونڈی ہے، میں اسے فروخت کرنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی خریدار ہو تو میں اسے مناسب قیمت پر بیچنے کے لیے تیار ہوں۔ ملاح نے قیمت پوچھی تو اس نے بڑی مناسب قیمت بتائی۔ سودا ہو گیا ۔اس شخص نے قیمت جیب میں ڈالی اور وہاں سے فرار ہوگیا۔
     اس بیچاری کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا واردات ہو گئی ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب جہاز ساحل سے روانہ ہوا تو ملاح اس عورت کے ارد گرد گھومنے لگا ۔ عورت نے اس شخص کو تلاش کیا تو وہ اسے نظر نہ آیا۔ اسے ملاح کی نظر میں خرابی نظر آئی۔ ملاح کہنے لگا: تم آج سے میری لونڈی ہو، میں نے تمہیں اس شخص سے خرید لیا ہے۔ اب تمہیں میرا ہر حکم ماننا ہو گا، مگر میں تو اس کی لونڈی نہیں تھی۔ عور ت نے جواب دیا۔ ان کی آپس میں بحث جاری تھی کہ یکایک سمندر میں طوفان آگیا۔ طوفان اس قدر تیز تھا کہ جہاز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ ہر کسی کو اپنی جان بچانے کی فکر پڑ گئی ۔ جہاز ٹوٹ گیا عورت بھی ایک تختے کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے دیکھا کہ سمندر کی لہریں یکے بعد دیگرے ملاحوں کو نگل رہی ہیں۔ جان بڑی پیاری ہوتی ہے۔سمندر کی لہریں اس سے ٹکراتی رہیں، مگر اس نے لکڑی کے تختے کو مضبوطی سے تھامے رکھا حتیٰ کہ آہستہ آہستہ سمندری طوفان کم ہوتا چلا گیا۔
    اس علاقے کا بادشاہ سیر و تفریح کے لیے ساحل سمند ر پر آیا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ سمندر میں طوفان آ گیا ہے۔ اس کے علم کے مطابق یہ وقت طوفان کا نہ تھا، مگر پھر بھی طوفان آیا اور جلد ہی اتر بھی گیا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ ایک عورت لکڑی کے تختے کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ اس نے شاہی ملاحوں کو حکم دیا کہ فوراً اس عورت کی مدد کی جائے۔ جلد ہی ملاح اس عورت تک پہنچ گئے۔ انہوں نے اسے اپنی حفاظت میں لے لیا اور ساحل سمندر تک لے آئے۔ساحل پر طبیب اس کا منتظر تھا۔ اس نے ضروری علاج معالجہ کیا۔ چند گھنٹوں کے بعدوہ خاتون بھلی چنگی ہو گئی۔
    بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلا بھیجا۔ یہ خاتون غیر معمولی خوبصورت تھی۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا: تم کو ن ہو اور سمندر میں کیوں سفر کر رہی تھیں؟ اس نے جواب میں مختصر کہانی سنا دی۔ بادشاہ کو اس کی بلند کرداری اور عصمت کی حفاظت والی بات بڑی اچھی لگی۔بادشاہ نے اسے شادی کی پیشکش کر دی۔ خاتون کو تو حفاظت درکار تھی۔ اس کو اپنے سابق خاوند سے طلاق لیے ہوئے کئی ماہ گزر چکے تھے۔ عدت بھی ختم ہو چکی تھی۔ اس نے موافقت میں سر ہلا دیا۔ بادشاہ نے اس کے ساتھ شادی کر لی۔ یہ عورت غیر معمولی ذہین وفطین بھی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ امور سلطنت میں بادشاہ کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ وہ رعیت کے ساتھ خیر خواہی کرتی۔ ان کے کام آتی، تھوڑے ہی عرصہ میں اس نے رعیت کے لیے بہت سے کام سر انجام دے ڈالے۔ بادشاہ بھی لوگوں میں بڑا مقبول تھا، مگر اس خاتون نے جلد ہی لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ ایک مدت بعد بادشاہ فوت ہو جاتا ہے۔
    عوام کو نئے حاکم کی ضرورت تھی، قوم کے سردار اکٹھے ہوئے ۔مشورہ شروع ہوا کہ کس کو یہ منصب سونپا جائے۔ یہ خاتون جو اب ملکہ تھی لوگوں میں بڑی مقبول تھی۔ کسی نے اس کا نام پیش کر دیا۔ بس پھر کیا تھا سب لوگوں نے اس پر لبیک کہا ۔کہنے لگے: اس سے بہتر بادشاہ نہیں مل سکتا چنانچہ متفقہ طور اس عورت کو حکمران منتخب کر لیا جاتا ہے۔
    ایک دن فیصلہ ہوا کہ شہر کے تمام لوگ ایک بڑے میدان میں ملکہ کے سامنے سے ایک ایک کر کے گزریں تاکہ وہ ملکہ کے سامنے اظہار اطاعت کر سکیں۔
    ملکہ کے لیے ایک بڑی کرسی میدان میں رکھ دی جاتی ہے۔ جب وہ اس پر بیٹھ جاتی ہے تو اس کی رعیت اس کو سلام کرتی ہوئی اس کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ وہ ایک ایک کر کے سب کو غور سے دیکھتی جاتی ہے۔ اسی دوران اس کا سابقہ خاوند اس کے سامنے سے گزرتا ہے۔ اس نے اپنے حاشیہ کو اشارہ کیا کہ اس شخص کو ایک طرف کھڑا کر دیا جائے۔ سپاہیوں نے اس کے سابقہ خاوند کا ہاتھ پکڑا اور اسے ایک طرف کھڑا کر دیا۔ اتنے میں اس کے خاوند کا وہ خائن بھائی بھی گزرتا ہے جس نے اس پر الزام لگایا تھا۔ ملکہ نے اس کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اسے بھی اس کے بھائی کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے۔ پھر اس نے اس عابد کو دیکھا جس کے گھر اس نے کام کیا تھا۔ اس کے اشارے پر اسے بھی ایک طرف کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اتنے میں اس خادم کی باری آگئی جس نے بچے کو قتل کیا تھا۔ اس نے اشارہ کیا کہ اسے بھی اسی قطار میں کھڑا کر دیا جائے۔
    اب اس نے اس خبیث کو دیکھا جس کو 2دینار دے کر چھڑوایا تھا۔ حکم دیا کہ اس کو ان لوگوں کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے۔
    لوگ اسے سلام کر کے گزرتے چلے گئے۔ ملکہ نے اپنے سابقہ خاوند کو بلایا۔ اسے بتایا کہ تمہارے بھائی نے تمہارے ساتھ دھوکہ کیا تھا۔تم دھوکہ کھا گئے اور مجھے طلاق دے دی، مگر اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تم بری ہو البتہ تمہارے بھائی نے میرے اوپر ناجائز الزام لگایا تھا اس لیے اس کو80 درے لگائے جائیں گے۔
    پھر اس نے عابد سے کہا: تمہارے خادم نے تمہیں دھوکہ دیا، مگر اس میں بھی تمہارا کوئی قصور نہیں، لہٰذا تمہیں با عزت بری کیا جاتا ہے تاہم تمہارے خادم کو قتل کیا جائے گا اس لیے کہ اس نے تمہارے بیٹے کو قتل کیا تھا۔ اب اِس نے اُس خبیث شخص کو بلایا کہ تم نے ایک ایسی عورت کو دھوکہ دیا جس نے تمہارے ساتھ احسان کر کے تمہارا قرضہ ادا کیا نیز تمہیں غلام ہونے سے بچایا، مگر تم نے اپنی اسی محسنہ کو  لونڈی بنا کر فروخت کر ڈالا۔تمہاری سزا یہ ہے کہ تمہیں قید میں رہنا ہو گا۔
    قارئین کرام! یہ تھا واقعہ ایک عفت مآب خاتون کا، جس نے اپنی عزت کو داغدار ہونے نہیں دیا۔ اسے اللہ کا خوف تھا،وہ اپنے مالک وخالق سے ڈرتی تھی۔ جو لوگ اچھے اعمال ا ور اعلیٰ کردار کے مالک ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجاً وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ  ’’جو اللہ تعالیٰ سے ڈر جائے، اس کا تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے راستے آسان بنا دیتا ہے۔ اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان تک نہیں ہوتا۔‘‘

مزید پڑھیں:- - -  -نوجوان نسل میں ارتداد کے واقعات ، قابل تشویش

شیئر: