Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رسول اکرم کی تاریخِ ولادت ، تحقیقی نظر

آپ صلی اللہ علیہ وسلم 9 ربیع الاول عام الفیل، 20 اپریل 571ء بروز پیر ، صبح تقریباً 4 بج کر40 منٹ پر اس دنیا میں تشریف لائے
* * اویس گودھروی۔ ڈابھیل،ہند **

محققین کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 9ربیع الاول کی صبح کو پیدا ہوئے جو شمسی لحاظ سے20اپریل571ء کا دن تھا۔
    تحقیقِ تاریخِ ولادت:
    سال: یہ بات مسلّم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں ہوئی تھی ، اس پر سب ہی مؤرخین وسیرت نگار متفق ہیں(البدایۃ والنہایۃ ، صفۃ الصفوۃ)۔
    واقعۂ فیل کے کتنے دنوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی؟ اس بارے میں متعدد اقوال ہیںمگر مشہور قول50دن کا ہے۔
البدایۃ والنہایۃ)۔
    مہینہ: اس سلسلہ میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تعالیٰ (م923ھ)نے6 اقوال نقل فرمائے ہیں:(1) محرم(2) صفر (3)ربیع الاول(4) ربیع الآخر(5) رجب(6) رمضان مگر جمہور اس بات پرمتفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ماہ ِربیع الاول میں ہوئی۔
    حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ثم الجمہور علی انہ کان فی شہر ربیع الاول (البدایۃ والنہایۃ )۔
     مشہورمحقق عالم علامہ محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ تعالیٰ (م1371ھ)نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت پر اچھی تحقیق فرمائی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ربیع الاول کے علاوہ کسی اور مہینہ کا قول علمائے ناقدین کے نزدیک سبقت ِقلم کے قبیل سے ہے(مقالات الکوثر)۔
    دن: اس بات پر بھی ارباب ِسیر وتاریخ کا اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پیر کے دن ہو ئی (صحیح مسلم، باب استحباب ثلاثۃایام من کل شہر،البدایۃ والنہایۃ)۔
    تاریخ: ماہِ ربیع الاول کی کونسی تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تھی؟ اس کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی مگر تاریخ کا تعین نہ ہوسکاجبکہ جمہور فرماتے ہیں کہ تاریخ متعین ہے۔ پھر وہ کونسی تاریخ تھی؟
    علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں کل 7 اقوال نقل فرمائے ہیں: (1) ربیع الاول کی دوسری(2)آٹھویں (3) دسویں (4)بارھویں (5)سترھویں (6)اٹھارھویں (7) بائیسویں (المواہب اللَّدْنِّیہّ)۔
    علامہ کوثری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :(1) آٹھویں تاریخ ختم ہونے کے بعد یعنی نویں تاریخ (2)دسویں تاریخ(3) بارھویں تاریخ۔ان3 اقوال کے علاوہ دیگر 4 اقوال قابل التفات نہیں۔ تواب کل بحث کامحور انہی3 روایات میں سے راجح کی ترجیح ہے۔
    دسویں تاریخ کی روایت:
    اس روایت کو ابن سعد (م168ھ)نے محمد باقر (م114ھ)کی طرف منسوب کیا ہے لیکن اس کی سند میں 3 رْوات متکلَّم فیہ ہیں اس لیے 10 تاریخ والی روایت قابلِ ترجیح نہیں ۔
    بارہویں تاریخ کی روایت:
    اس قول کو محمد بن اسحاق (م151ھ)نے نقل کیا ہے مگراس کی کوئی سندبیان نہیں کی ، اگرچہ یہ قول سب سے زیادہ مشہور ہے اور اہلِ مکہ کی مجالسِ مولود پرانے زمانے سے اسی تاریخ میں ہوتی رہی ہیں، نیز دنیا بھر میں محافل ِمولود اور جلسے اسی دن کیے جاتے ہیں مگرروایت سے اس دن ولادت ہونے کا ثبوت نہیں(مستدرک ِ حاکم)۔
    یہ روایت بھی سندِ متصل نہ ہونے کی وجہ سے قابلِ التفات نہیں اور اس کا حال بھی ان روایات کی طرح ہے جن کی سند نہ ہو۔
    نویں تاریخ کا قول:
    عقلاً اور نقلا ًاس بات کو ترجیح حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت آٹھویں تاریخ کے ختم پر نویں تاریخ کو ہوئی۔
    روایتا ً:
    ( 1)علامہ ابن عبد البر (م463ھ)نے اس بارے میں اختلاف نقل کرتے ہوئے اس قول کو سب سے پہلے ذکرکیا ہے (الاستیعاب لابن عبد البر)۔
    (2)حافظ ابن کثیر کا بھی یہی قول ہے (البدایہ والنہایہ)۔
    (3) مولانا حفظ الرحمن صاحب رحمہ اللہ(م1386ھ) تحریر فرماتے ہیں:
    عوام میں تو مشہور قول یہ ہے کہ12ربیع الاول تھی اور بعض کمزور روایات اس کی پشت پر ہیں اور اکثر علماء  8ربیع الاول کہتے ہیں لیکن صحیح اور مستند قول یہ ہے کہ9ربیع الاول تاریح ِولادت ہے اور مشاہیر علمائے تاریخ اور حدیث اور جلیل المرتبت ائمہ دین اسی تاریخ کو صحیح اور اثبت کہتے ہیںچنانچہ حمیدی ، عقیل، یونس بن یزید، ابن عبد اللہ، ابن حزم، محمد بن موسی خوارزمی، ابو الخطاب ابن دحیہ، ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن حجرعسقلانی،شیخ بدر الدین عینی رحمہم اللہ اجمعین جیسے مقتدر علماء کی یہی رائے ہے(قصص القران)۔
    (4)علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے بھی 9تاریخ کو ولادت ہوناراجح قراردیا ہے (رحمۃ للعالمین)۔
    درایتا ً/عقلاً:
    (1) محمد بن موسیٰ خوارزمی (م235ھ)فلکیات کے بہت بڑے امام ہیں، ان کا حوالہ ابھی اوپر کی عبارت میں ذکر کیا گیا۔
    (2) فن ریاضی کے بہت بڑے عالم علامہ محمود پاشا فلکی مصری (م1302ھ)نے فرانسیسی زبان میں’’ تقویم العرب قبل الاسلام ‘‘کے موضوع پر ایک بے مثال کتاب تالیف فرمائی ہے اور علامہ احمد ذکی پاشا (م1353ھ)نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا ہے ،جس کانام ’’نتائج الافہام فی تقویم العرب قبل الاسلام وفی تحقیق مولد النبی وعمرہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ہے۔ اس کتاب میں مشرق اورمغرب کے کئی ایک فلکی ماہرین کے اقوال کو مد نظر رکھ کر کی گئی تحقیق سے بھی 9 تاریخ ہونا واضح ہے (نتائج الافہام )۔
    ان کی بیان کردہ وجوہ میں سے ایک وجہ کچھ اس طرح ہے :
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں سنہ10ھ ماہ ِشوال کی آخری تاریخ کو سورج گہن ہواتھا۔ اْسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہواتھا۔
    اس حساب سے اگر پیچھے شمار کیا جائے تو ربیع الاول کی نویں تاریخ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بابرکت ہونا ثابت ہوگااس لیے کہ پیر کا دن یومِ پیدائش ہونا تو متفق علیہ ہے اور وہ عام الفیل کے ربیع الاول میں9تاریخ ہی کوآتاہے۔
    حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب تحریر فرماتے ہیں:
    محمود پاشا فلکی نے (جو قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت داں اور منجم گزراہے) ہیئت کے مطابق جو زائچہ اس غرض سے مرتب کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے اپنے زمانے تک کے کسوف اور خسوف کا صحیح حساب معلوم کرے، پوری تحقیق کے ساتھ یہ ثابت کیاہے کہ سن ِولادت باسعادت میں کسی حساب سے بھی پیر کا دن12 ربیع الاول کو نہیں آتابلکہ9ربیع الاول ہی کو آتاہے، اس لیے بلحاظِ قوت وصحت ِروایات اور باعتبار ِحساب ِہیئت ونجوم ولادت ِمبارکہ کی مستند تاریخ 9ربیع الاول ہے (قصص القران)۔
    (3) مذکورہ بالا کتاب ’’نتائج الافہام فی تقویم العرب قبل الاسلام وفی تحقیق مولد النبی وعمرہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘‘کے ایک ایڈیشن پراپنے زمانے کے عظیم ونامور مؤرخ وادیب شیخ علی طنطاوی رحمہ اللہ (م1460ھ)نے مقدمہ لکھا ہے، جس میں آپ نے 9 ربیع الاول کو رسول اللہ کی ولادت با سعادت کادن قراردینے پر مؤلف ِکتاب کی پرزور تائید فرمائی ہے۔ (مقدمات الطنطاوی)۔
    (4) محدث ِعظیم ومحقق ِبے نظیر شیخ احمد شاکر ( احمد بن محمد عبدالقادر،م 1377ھ)نے بھی شیخ محمود پاشا فلکی کی تحقیق کواختیار کرکے اس سے کسوفِ شمس کی تعیین میں مدد لی ہے(حاشیۃ الشیخ احمد شاکر علی’’المحلّٰی بالآثار‘‘ ، لابن حزم الظاہری)۔
    (5) سعودی عرب کے ایک محقق وماہرِفلکیات عالم عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم (م1412ھ) اپنی کتاب ’’تقویم الازمان‘‘ میں تحریرفرماتے ہیں:
    وقد ثبت بما لا یحتمل الشک من النقل الصحیح ان ولادتہ -صلی اللہ علیہ وسلم- کانت فی 20 نیسان ابریل سنۃ571عام الفیل ۔۔۔ فبالامکان معرفۃ یوم ولادتہ ویوم وفاتہ بالدقۃ ۔۔۔ وعلی ہذا فتکون ولادتہ -صلی اللہ علیہ وسلم- یوم الاثنین، الموافق 9ربیع الاول سنۃ53 قبل الہجرۃ ویوافق20 نیسان ابریل سنۃ ۱۷۵ء  نقلا وحساباً (تقویم الازمان لارشاد ذوی الالباب لمعرفۃ مبادء السنین والشہور من طریق الحساب -ص 143الطبعۃ الاولی)۔
    مزید  دیکھئے:
    (۱) ایک مفصل مضمون بعنوان ’’تحدید میلادہ الشریف‘‘ہمارے یہاں موجود کتاب ’’ماشاع ولم یثبت فی السیرۃ النبویۃ‘‘تالیف: محمد بن عبد اللہ العوشن، ط: دار طیبۃ، الریاض‘‘ میں بھی مذکور ہے جس میں شیخ عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم کی مذکورہ عبارت کے علاوہ دیگر علمائے کرام کے اقوال کی روشنی میں9تاریخ ہونا راجح قراردیاہے۔
    (2) علامہ محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک مختصر اورمحقق مقالہ بعنوان ’’المولد الشریف النبوی‘‘  موضوع پر شائع ہواہے۔ انہوں نے بھی محمود پاشا فلکی کی مذکورہ کتاب سے استفادہ کیا ہے اورمؤلف کے بارے میں اونچے کلمات تحریر فرمائے ہیں۔
    (3) حضرت مولانا مفتی عمر فاروق لوہاروی دامت برکاتہم، شیخ الحدیث دارالعلوم لندن (یو کے )کاایک مضمون بعنوان’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت‘‘ ان کے بیش قیمت محقق ومدلل رسائل ’’فقہی جواہر‘‘ میں موجودہے۔ان رسائل پراکابر علماء کی تقریظات ہیں جن میں ایک دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری دامت برکاتہم بھی ہیں۔
    تنبیہ:
    بعض علماء نے آٹھویں تاریخ کا قول اختیار کیا ہے،  تویاد رہے کہ آٹھویں اور نویں تاریخ کے 52 اقوال میں ترجیح دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک تطبیق حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب کی ہے، وہ یہ ہے کہ8 اور9ربیع الاول کا اختلاف حقیقی نہیں۔مولانا تحریر فرماتے ہیں:
    ’’8 اور9 کا اختلاف حقیقی اختلاف نہیں بلکہ مہینے کے 29اور 30 کے حساب پر مبنی ہے۔ حساب سے جب یہ ثابت ہوگیا کہ صحیح تاریخ 12 اپریل تھی تو8 کے متعلق تمام اقوال دراصل9کی تائید میں پیش ہو سکتے ہیں۔‘‘ (قصص القران)۔
    وقت:
    کتب ِسیرت میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت صبح صادق کے وقت ہوئی اور مکہ مکرمہ میں 20 اپریل کوصبح صادق ہوتی ہے اس لیے کہا جاسکتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 9 ربیع الاول عام الفیل، 20 اپریل 571ء بروز پیر ،بوقتِ صبح تقریباً 4 بج کر40 منٹ پر اس دنیا میں تشریف لائے۔
    خلاصہ:
    مذکورہ بالا تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ نقلا ً وعقلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی معتمد تاریخ9 ربیع الاول ہے۔
    ویتلخص من ہذااَن سیدنا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم ولد یوم الاثنین 9 من ربیع الاول، الموافق العشرین من ابریل سنۃ 571 مسیحیۃ، فاحرص علی ہذا التحقیق، ولا تکن اثیراً للتقلید (نتائج الافہام فی تقویم العرب قبل الاسلام )
    مکانِ ولادت:
     جمہور کے نزدیک مکہ مکرمہ میں ولادت ہوئی۔پھر جگہ کی تعیین میں 3 اقوال ہیں۔مشہور قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شعب ِبنی ہاشم میں ہوئی۔یہ مشہور جگہ ہے اور چند سال پہلے تک لوگ اس کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔ چند سال پہلے سعودی حکومت نے اُسے مکتبہ بنادیا۔

مزید پڑھیں:- - - - - - - -مرتد کی سزا قرآن وحدیث کی روشنی میں

شیئر: