Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچی کے ہاتھ میں موبائل، 5منٹ میں 10سیلفیاں،20سہیلیوں کو سینڈ

ثمینہ عاصم۔جدہ
کچھ دن پہلے ایک صاحبہ کے گھر جانا ہوا ، ان کی بچی کو چائنا سیٹ کا تحفہ دیا اور کہا کہ بیٹا جب آپ گھر گھر کھیلو گی تو یہ بہت کام آئے گا۔ وہ بچی حیرت سے ہمارا چہرہ دیکھنے لگی اور پوچھنے لگی کہ آنٹی یہ گھر گھر کیا ہوتا ہے؟ جس طرح بچی کو ہماری بات پر حیرت ہوئی، اسی طرح ہمیں بھی حیرت ہوئی کہ بچی کو گڑیا گڈے اور گھر گھر کا کھیل نہیں معلوم۔ ہمارے زمانے میں تو یہی کھیل ہوتے تھے۔ رسی کودنا، پہل دوج یاکیڑی کاڑا، لوڈو، گڑیا گڈے کی شادی وغیرہ۔
خیر اسکی والدہ بتانے لگیں کہ آجکل کے بچوں کا اسکیجوئل اتنا ٹائٹ ہے کہ بے چاری صبح اٹھتی ہے، اسکول جاتی ہے۔ عصر کے قریب وہاں سے آتی ہے تو ٹیوشن پڑھنے چلی جاتی ہے۔ پھر وہاں سے آکر اپنا باقی کا ہوم ورک کرتی ہے۔ ان کو کیا پتہ کہ گھر گھر کیا ہوتا ہے؟ آجکل کے بچوں کا کتابوں کا بیگ ان سے وزن میں زیادہ ہوتا ہے۔ 
ہم حیرت زدہ سے گھر واپس آگئے۔ اسکے دو دن بعد ایک صاحبہ اپنی چھوٹی سی بیٹی کے ساتھ ہمارے گھر آئیں۔ آتے ہی وہ بیڈ پر اچھلنا شروع ہوگئی۔ اسکول جاتے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ کودتے کودتے اسکی نظر ٹیبل پر پڑے موبائل پر گئی۔ وہ موبائل فون پر ایسے جھپٹی جیسے چیل چوزے پر ۔ موبائل ہاتھ میں آتے ہی بچی کو قرار آگیا اور وہ ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئی۔ ساتھ ہی اپنے موبائل کو بچی کے ہاتھ میں دیکھ کر ہمارا دل بھی بیٹھ گیا کہ پتہ نہیں موبائل کے ساتھ اب کیا ہونے والا ہے۔ خیر صبر کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اسی وقت اسکی ماں نے پچکار کر کہا، بیٹا ! آنٹی کے موبائل کی بیٹری کا خیال کر لینا۔ پانچ منٹ بعد ہم نے وائی فائی بند کردیا۔ بچی نے تھوڑی دیر بعد بور ہوکر موبائل رکھ دیا ۔ 
ان کے جانے کے بعد ہم نے دیکھا تو بچی نے ان پانچ منٹوں میں دس سیلفیاں بنالی تھیں بلکہ اپنی ماما کے علاوہ 20سہیلیوں کو سینڈ بھی کردی تھیں۔ اس نے چائے پیتے ہوئے ہماری وڈیو بھی بنالی تھی۔ ان بچوں کو اگر موبائل مل جائے تو نہ کسی کے آنے کا ہوش نہ کسی کے جانے کا ملال۔ اپنی دنیا میں گم۔
آج کل کے بچوں کو ناشتہ کرنے ، دودھ پینے سے چڑ ہے البتہ پیزا، برگر، ڈونٹ کچھ بھی مل جائے ، وہ شوق سے کھالیں گے۔ اسرائیل اور فلسطین کا فرق نہیں معلوم،لاہور اور پنجاب کو ایک ہی” شہر“ سمجھتے ہیں۔ کشمیر سے زیادہ کشمیری شال کو پہچانتے ہیں۔ 
ایک روزہماراپڑوسن کے گھر جانا ہوا۔ وہ کچن میں تھیں۔ میں بھی وہیں چلی گئی۔ اتنے میں ان کی بیٹی آگئیں۔ اُف ماما اتنی گرمی میں اکیلی کام کررہی ہیں۔ ساتھ ہی ہتھیلی پھیلائی، بوسہ دیا اور ہوا میں اڑا دیا۔ ماں خوشی سے نہال ہوگئی، دیکھو بیٹا! میں نے تمہارے لئے اسپائسی بریانی بنائی ہے ، اندر آجاﺅ۔ لڑکی نے یہ کہہ کر دروازہ بند کرلیا کہ نہیں ماما کچن سے مسالے کی بو کے باعث میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ 
ان کی بیٹی چند دنوں کے لئے ہاسٹل سے آئی ہوئی تھی۔ وہ میڈیکل کے آخری سال میں ہے۔ یہ سب اس کی ماں نے بڑے فخر سے بتایاتو ہم نے کہا خوشی ہوئی، آپ نے دکھی انسانیت کی خدمت کے پیشے کا انتخاب کیا۔ یہ سن کر لڑکی نے حیرت سے ہماری طرف دیکھا اور مسکرانے لگی۔ ہم نے اسکا جائزہ لیا۔ چھوٹے چھوٹے پھولوں والی چھوٹی سی شرٹ کے ساتھ جینز اور پٹی نما دوپٹہ لگائے ہوئے تھی۔ اس کا حلیہ دیکھ کر اپنے دکھی انسانیت کے الفاظ پر ہمیں تو کم ازکم بہت " دکھ" ہوا۔ لڑکی کا حلیہ اور نیٹ دیکھ کر سوچاکہ آنے والے زمانے کا کیا حال ہوگا، اللہ کریم ہی جانتا ہے۔ 
یورپ میں چائنہ میں کال کسی قدر مہنگی ہے لیکن نیٹ کو سستا کرکے ہمارے بچوں کے مستقبل کو سستے داموں خرید لیا گیاہے۔ خود تو یہ لوگ بامقصد زندگی گزارتے ہیں اور ہمارے بچے نیٹ اور فیس بک کے پیچھے لگ کر اپنی پڑھائی اور مستقبل کوداﺅ پر لگائے ہوئے ہیں۔ آج کی مائیں خود کو پرسکون رکھنے اور چیٹنگ کے لئے فراغت حاصل کرنے کیلئے بچوں کو موبائل فون پر یو ٹیوب میں کارٹون فلمیں لگاکر دے دیتی ہیں۔ 

شیئر: