Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیغمبر اسلام ﷺ کا احترام قرآن و سنت کے آئینے میں

گزشتہ سے پیوستہ
 محمد اقبال۔ مدینہ منورہ 
رسو ل اللہ کی اطاعت اور اتباع تو امت پر فرض ہونا ہی چاہئے تھا کیونکہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بھیجنے کا مقصد اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا لیکن حق تعالیٰ نے ہمارے رسول مقبول کے بارے میں صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ امت پر آپ کی تعظیم وتوقیر اور احترام وادب کو بھی لازم قرار دیا اور قرآن کریم میں جا بجا اسکے آداب سکھائے ہیں ۔ اللہ پاک نے شعائراللہ کی تعظیم کرنے کو تقویٰ کی علامت قرار دیا ۔سورۃ حجرات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اجازت سے پہلے تم کسی قول یا فعل میں سبقت مت کیا کرو ( یعنی جب تک قرائن قویہ یا تصریح سے اذن گفتگو کا نہ ہو ، گفتگو مت کرو ) اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اقوال کو سننے ولا اور تمہارے افعال کو جاننے ولا ہے ۔ اے ایمان والو! تم اپنی آوازیں پیغمبر () کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو ۔ جیسے ایک دوسرے سے کھل بولا کرتے ہو ۔ کبھی تمہارے اعمال  برباد ہو جاویں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین با وجودیکہ ہر وقت ہر حال میں شریک کار رہتے تھے اور ایسی حالت میں احترام وتعظیم کے آداب ملحوظ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ان کا یہ حال تھا کہ آیت مذکورہ نازل ہونے کے بعد حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کچھ عرض کرتے تو اس طرح بولتے جیسے کوئی پوشیدہ بات کو آہستہ کہا کرتا ہے ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سے زیادہ کوئی مجھے دنیا میں محبوب نہ تھا اور میرا حال یہ تھا کہ میں آپ  کی طرف نظر بھر کر بھی دیکھ نہیں سکتا تھا اور اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ مبارک دریافت کرے تو بیان کرنے پر اس لئے قادر نہیں کہ میں نے کبھی آپ  کو نظر بھر کر دیکھا ہی نہیں ۔ ترمذی نے حضرت انس  ؓ  سے نقل کیا ہے کہ مجلس صحابہ رضی اللہ عنھم میں جب آنحضرت  تشریف لاتے تھے تو سب نیچی نظریں کر کے بیٹھتے تھے ۔ صرف صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ عنھما آپ کی طرف نظر کرتے اور آپ ان کی طرف نظر فرماکر تبسم فرماتے تھے ۔ 
محبت اور بغض کا تلازم …بہت اہم بات :
جس طرح حضور اکرم  سے محبت اور آپکا ادب و تعظیم مطلوب ہے اسی طرح حضور  کی خاطر بغض رکھنے کے معاملے میں بروایت بخاری شریف صلح حدیبیہ کے موقع پر انہی صدیق اکبر ؓ نے حضور اکرم  کے سامنے عروہ بن مسعود کو جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے جب کفار کی طرف سے بطور سفیر گفتگو کر رہے تھے اور سفارتی گفتگو میں نرمی اور اکرام کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ اس نے اصحاب
 رسول  کو بزدل کہہ دیا تو یہ سن کر حضرت صدیق اکبر  ؓ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا۔ اس نوع کے صحابہ کرام ڑضی اللہ عنھم کے بے شمار واقعات ہیں ۔ آج کل اللہ تعالیٰ جل شانہ اور رسول اللہ  کیلئے بغض کو برا سمجھا جاتا ہے اور باطل سے صلح کی مدح کی جارہی ہے جو صراحۃ ً ایمان کے خلاف ہے نفاق کی علامت ہے ۔ ایسوں کی محبت کا عقلاً و شرعاً کوئی اعتبار نہیں ۔ 
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کا ارشاد : یاد رہے کہ پیغمبراسلام کا ادب واحترام دین کا یک شعبہ اور حصہ نہیں بلکہ دین کا دوسرا نام ہے ۔ اگر وقار اور احترام ہے تو دین موجود ہے ورنہ دین ہر گز نہیں ۔
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ؒ نے ارشاد فرمایا :رسول اللہ کی شان اقدس میں گستاخی یہ اللہ تعالیٰ کے دین کے بالکل خلاف ہے ۔ کیو نکہ رسول اللہ کے درپے ہونے سے احترام اور تعظیم با لکل ساقط ہو جاتا ہے ۔جس سے رسالت کے احکام ساقط ہو جاتے ہیں  اور دین باطل ہو جاتا ہے اس لئے امام الانبیاء  کی مدح و ثناء تعظیم و توقیر ہی پر سارے دین اسلام کا قیام ہے اور اس احترام اور تو قیر کے نہ ہونے سے سارا دین ختم ہو جاتا ہے ۔ 
( مرتب : ڈاکٹر سید اشرف الدین ۔مدینہ منورہ)
 

شیئر: