Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی خارجہ پالیسی کی کامیابیاں

کراچی (صلاح الدین حیدر) پاکستان کی خارجہ پالیسی روز نت نئی کامیابیاں حاصل کررہی ہیں۔ اس کا سہرا وزیراعظم کے سر جاتا ہے۔ انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہے پھر ان کی نیک نامی سب کے سامنے ہے۔ پاکستان جہاں بدعنوانیوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔دنیا ہمیں شک کی نظروں سے دیکھتی تھی ۔ پی ٹی آئی کے برسراقتدار آتے ہی دنیا ہی بدل گئی۔ اگر وزیراعظم نے خود سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کے لیڈروں کو اپنا ہمنوا بنایا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے دورہ کابل، تہران، بیجنگ اور ماسکو کے دوروں میں کامیابی حاصل کی۔ چین نے تو پاکستان کی افغان پالیسی کی کھل کر حمایت کردی۔ روس میں بھی وزیر خارجہ کی ملاقاتیں بہت مثبت ثابت ہوئیں اور وہاں سے بھی ہمیں بہترین نتائج کی توقع ہے۔
وزیر خارجہ ابھی اپنے 4 ملکی دورے سے لوٹے نہیں ۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی اور اعلان کیا کہ اس سے پاکستان اور افغانستان میں امن کی راہ ہموار ہوگی۔ ایران نے بھی ہماری کوششوں کی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تعریف کی۔ روس میں شاہ محمود قریشی نے اپنے ہم منصب سے ملاقات کی۔ بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ میں اب یہ احساس تیزی سے بڑھتا جارہا ہے کہ جنگ سے فائدہ کوئی نہیں اس لئے امن کی راہ ہی کو اپنانا ہوگا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے خط کے مطابق عمران خان نے طالبان اور امریکی مذاکرات کا انتظام کیا جو کہ ابو ظبی میں ہوئے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہے ایسا لگتا ہے کہ کابل کی حکومت امریکی فوجوں کی واپسی سے نروس ہے۔ طالبان نے ملک کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ تقریباً روز ہی طالبان افغان سرکاری دفاتر پر حملے کرتے ہیں۔ جواباً افغان فوج ان پر حملہ کر کے درجنوں طالبان کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنی امن پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہے۔ امریکی وزارت دفاع نے جسے وہاں پینٹاگون کہتے ہیں امریکی فوجیوں کی واپسی کی مخالفت کی۔ اس طرح کا اعلان بعد میں افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ طالبان میں بھی کئی دھڑے ہیں جس سے امن مذاکرات کے اہداف حاصل کرنے میں کچھ زیادہ ہی مشکلات نظر آتی ہیں۔ پھر بھی پاکستان اپنی جدوجہد میں لگا ہوا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ خود افغان حکومت اور اس کی اپنی فوج اتنی تربیت یافتہ نہیں کہ گوریلا جنگ کو روک سکے۔ امریکی صدر نے 14000 فوجیوں میں سے 7000 فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ بدلتے ہوئے حالات میں شاید اس میں کچھ تبدیلی نظر آئے۔ انہی تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے بیرونی ممالک کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ نتیجہ خیز ثابت ہوئی لیکن فیصلہ تو کابل اور واشنگٹن نے کرنا ہے۔ چینی وزیر خارجہ پاکستان کے موقف سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں جلد سے جلد امن بحال ہونا چاہیے ورنہ خطہ کی امن و سلامتی کو خطرہ ہر وقت موجود رہے گا۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کی کامیابی ہے کہ چین اور روس جیسے بڑے ممالک اسلام آباد کے نکتہ نظر سے متفق ہیں بلکہ یہ تو قدرت کا انعام ہی سمجھیں کہ روس، امریکا تعلقات آج کل اچھے نہیں ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان بھی تجارتی معاملات پر اختلافات بڑھتے جارہے ہیں۔ ایسے میں فطری طور پر پاکستان کو چین اور روس کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے۔ چین سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر روس کے ساتھ کئی دہائیوں تک پاکستان کے تعلقات خراب رہے ہیں۔ 1987ءمیں سابق سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد پچھلے5,4 سال سے روس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے جس سے فوریطور پر فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاک روس تعلقات بہتر سے بہتر ہوتے جارہے ہیں۔شروع میں ڈر تھا کہ امریکہ، پاکستان اور ایران کے تعلقات کو شاید نامنظور کرے لیکن جب نیتیں نیک ہوں تو قدرت بھی مدد کرتی ہے۔ امریکی حکومت کا تازہ ترین بیان کہ چین، روس اور ایران افغانستان میں خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں ایک طرح سے پاکستان پالیسیوں کی حمایت ہے۔ پاکستان نے برسراقتدار آتے ہی ایران اور سعودی عرب کی دوریاں ختم کرانے کی پیش کش کی ۔ وہ اپنی پالیسیوں میں خاصی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ مختصر یہ کہ وزیر خارجہ کا موجودہ 4 ممالک کا دورہ انتہائی کامیاب رہا ہے۔ پاکستان کا نکتہ نظر ہر جگہ پسند کیا گیا۔ یہ عمران خان کی کامیابی ہے۔

شیئر: