Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ناڈرا سے نادرا

***شہزاد اعظم***
ویسے تو ہم پیدائش سے ہی پاکستانی ہیں مگر قوم پر” عوامی“ نامی حکومت مسلط ہونے کے بعد ہمیں ایک کارڈ کی شکل میں شناخت عطا کی گئی۔ اس پرایک چوکھٹے میں ہماری تصویربھی چسپاں تھی ۔اس کارڈ پریہ اعتراف تحریرتھاکہ ہم نہ صرف پاکستانی ہیں بلکہ ہماری پیدائش بھی پاکستان کے ایک شہر میں ہوئی تھی ۔ ہمیں یہ بھی باور کرایا گیا کہ ہمارے بائیں گال پر سیاہ تل ہے۔پھر جب ہم نے کالج میں داخلہ لیا تو وہاں لیڈی کلرک نے ہمارا داخلہ فارم چیک کیا اور بولی کہ آپ نے ”مارک آف آئڈینٹی فکیشن“ یعنی ”شناختی علامت“ نہیں لکھی۔ اپنا شناختی کارڈ لائیں۔ ہم نے شناختی کارڈ دکھایا تو اس نے انگریزی میں ایسا جملہ لکھا جس نے ہمیںاپنی شخصیت کے بارے میں ازسرنورائے قائم کرنے پر مجبور کر دیا۔ آپ بھی ذرا تصور میں یہ سارا ماحول سجا کر دیکھئے کہ ایک نوجوان لڑکا، غیر شادی شدہ،دولہا بننے کے لئے تیار،اپنا مستقبل روشن کرنے کے لئے کالج میں داخلہ لینے آیا ہے اور اس کا فارم پُر کرنے والی ایک لڑکی ہے اور وہ بھی بظاہرغیر شادی شدہ ہے۔ اس نے ہمارے فارم پر شناختی علامت تحریر کرنے کے لئے انتہائی گورے بائیں ہاتھ میں سرخ قلم تھاما ۔اس جنبش سے اس کی کلائی میں موجود کانچ کی چوڑیاں آپس میں متصادم ہوئیں اور یوں ہوا کے دوش پر ”سحر انگیز کھنک “ ہماری سماعتوں سے ٹکراگئی ۔ اس کے ساتھ ہی اس صنف نازک نے فارم پر ہمارے بارے میں لکھا”بلیک بیوٹی اسپاٹ آن لیفٹ چیک“۔اب آپ تصور کیجئے کہ ہمارے دل میں اس شناختی علامت کی قدر و قیمت میں کتنا اضافہ ہوا ہوگا کہ جس نے ایک دوشیزہ کو ہمارے ”حُسن“ کی تحریری تعریف پر مجبور کر دیا؟ 
اُس دور کو ہم کارڈوں کا دور بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ شناختی کارڈ کے علاوہ ہمیں کالج کا کارڈ بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک اور کارڈ بھی دیا گیا جسے راشن کارڈ کہا جاتا تھا۔ اس کے بل پر ہمیںآٹا شاٹا ، چینی شینی بازار سے ذرا سستی مل جاتی تھی۔بہر حال ”عوامی حکومت “کا تسلط ختم ہوا تو دوسرے آگئے مگر کارڈوں کا ا لتزام باقی رہا ۔وقت گزرتا گیا ،2008 ءمیں نیا شناختی کارڈ بنوانا پڑا۔ ہم نے اپنے دوست سے کہا کہ شناختی کارڈ بنوانے کے لئے وہ ہمیں اپنے ساتھ سائیکل پر لے جائے تو اس نے کہا ، بھائی میرے، مجھے ”ناڈرا“ ہم نے کہا کہ ہاں ہاں ، وہیں جانا ہے ۔ اس نے پھر کہا ”یار! مجھے” ناڈرا“۔ ہم مصر ہوئے تو وہ رات کے وقت ہمیں ساتھ لے گیا۔ وہاں جا کر ہم نے دیکھا تو چھوٹا سا دفتر تھا جو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہم یہ منظر دیکھ کر ڈر گئے ۔ ہم نے سوال کیا کہ یہاں کتنی دیر لگے گی؟ اس نے کہا کہ چند گھنٹے لگیں گے۔ ہم نے کہا کہ ”یار!ہمیںنا ڈرا۔“اس نے کہا کہ میں تو پہلے سے ہی رو رہا ہوں کہ ”نا ڈرا، نا ڈرا۔“بہر حال مرتا کیا نہ کرتا، ہمیں ضرورت تھی چنانچہ لائنوں میں لگ کر شناختی کارڈ جمع کر وا ہی دیا جو ہمیں چند ہفتوں کے بعد مل گیا۔اس پر واضح الفاظ میں تحریر تھا کہ یہ کارڈ 10سال کی مدت کے لئے ہے ۔2018ءمیں اس کی تجدید کرانی ہو گی ۔ہم یہ دیکھ کر پھرڈر گئے کہ صرف 10سال کے بعد پھر یہاں آنا پڑے گا۔پھر یوں ہوا کہ وقت پر لگا کر اُڑتا گیا اور بالآخر2018ءآگیا۔ ہمارے کارڈ کی میعاد ختم ہوگئی ۔ اب ہمیں دوبارہ”ناڈرا“ جانا تھا۔ فرق اتنا تھا کہ اس تجدید کے لئے ہم اپنے بیٹے کے ساتھ گئے۔ ہم رات ایک بجے کراچی کے نارتھ ناظم آباد والے ”نادرا “آفس گئے۔ وہاں ہال میں موجود تمام کرسیوں پر مرد، خواتین، بچے ، بوڑھے براجمان تھے۔باقی لوگ کھڑے تھے۔ اتنا رش دیکھ کر ہمارے صاحبزادے نے کہا کہ پاپا! غلطی ہوگئی، ہمیں صبح کا ناشتہ ساتھ لے کر آنا چاہئے تھا۔ہم نے کہا کہ بیٹے ! ہمیں”ناڈرا“۔ بہر حال مرتا کیا نہ کرتا، کارڈ کی تجدید تو کرانی ہی تھی ہم ٹوکن لینے کے لئے قطار میں کھڑے ہوگئے۔ 30، 40افراد کے بعد ہماری باری آئی۔ ہمیں بھی ٹوکن دے دیا گیا جس پر 3971لکھا تھا۔ ہم نے یہ عدد پڑھ کر اندازہ کرنا چاہا کہ ہمیں کب بلایاجائے گا، اس کے لئے وہاں نصب اسکرین پر ہم نے نظر ڈالی تو منظر دیکھتے ہی حیرت و استعجاب کے مارے ہماری چیخ نکل گئی ، ہم گرنے لگے تو ہمارے بیٹے نے پریشان ہو کر ہمیں تھاما،سب لوگ مدد کے لئے دوڑے، چند خواتین بھی متوجہ ہوئیں۔ چاروں سمت سے ہمیں مختلف رشتوں سے پکارا جا رہا تھا، کوئی کہہ رہا تھا کہ بھائی میاں کیا ہوا، کوئی پوچھ رہا تھا، انکل! سب خیر ہے ناں؟ کوئی آواز آرہی تھی ، بھیا ! ہوش میں تو ہیں ناں؟ہم نے سب کو خیریت کا اشارہ کیا ۔ اب بیٹے نے ہم سے رازدارانہ انداز میں دریافت کیا کہ پاپا! ہوا کیا تھا۔ ہم نے کہا بیٹے اسکرین پر دیکھو، ہمارے ٹوکن کا نمبرچمک رہا ہے۔ اس نے اسکرین پر دیکھا تو وہ بھی کہنے لگا، ہائیں پاپا! یہ کیسے ہوا، غلطی ہوگئی ہوگی۔ اسی اثناءمیں اسپیکر پر خاتونی آواز میں اعلان ہوا کہ ٹوکن نمبر 3971سے درخواست ہے کہ کاﺅنٹر نمبر 10پر تشریف لے جائیں۔ ہم بھاگ کر وہاں پہنچے۔ ہمیں بٹھایاگیا، تصویر لی گئی۔ رسید دی گئی اور کہہ دیا گیا کہ 7روز بعد کارڈ لینے آجائیے گا۔ یوں ہم ٹوکن لینے کے بعد 10منٹ میں فارغ ہو کر گھر پہنچ گئے۔ پھر یوں ہوا کہ صرف4دن کے بعد ”نادرا“ سے موبائل فون پرتحریری پیغام موصول ہوا کہ آپ کا کارڈ تیار ہے، جہاں جمع کرایا تھا ، وہیں سے وصول کر لیں۔ ہم پہنچ گئے۔ 4کھڑکیاں تھیں، سب خالی، ہم نے جا کر رسید دی، اس ہستی نے ہمیں کارڈ نکال کر دے دیا۔ہم حیران ہو گئے۔ ہمارے بیٹے نے سینہ تان کر کہا کہ پاپا!اب یہ ادارہ ”ناڈرا“نہیں رہا بلکہ ”ندرتِ عمل“ کے باعث ”نادر“ بن چکا ہے ۔ اسی تناظر میں سمجھئے کہ یہ ”نادرا“ ہے، اسی لئے تو کہتے ہیں کہ تبدیلی آچکی ہے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں