Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکیوں کی شام واپسی

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
شام سے انخلاءسے متعلق امریکی صدر ٹرمپ کی پسپائی علاقائی طاقتوں کی ناکامی کا فطری نتیجہ ہے۔ علاقے کے ممالک نے شام سے امریکی افواج کے انخلاءکو امن منصوبے کی حیثیت سے نہیں دیکھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ علاقے کے ممالک نے اسے شکست خوردہ انخلاءکے طورپر لیا۔ عراق نے جو امریکہ کا اتحادی ہے، ایران کے سامنے پسپائی اختیار کرلی۔ اسکے دباﺅ میں آگیا۔ ترکی نے جلدی سے روس اور شام کے حق میں دستبرداریاں دیدیں۔ شامی کرد ملیشیا نے جو امریکہ کے اتحادی کے طور پر معروف ہے، شام اور ایران کی طرف جھکاﺅ کرلیا جبکہ ایران نے معرکہ گاہوں کیلئے فوجی کمک میں اضافہ کردیا۔
سفارتی سطح پر علاقائی ممالک نے شام سے امریکی انخلاءکو ایسا مرحلہ قرار دیا جس کی باگ ڈور ایران اور ترکی کے ہاتھ میں ہے۔ ایرانی ، ترکی، قطری اتحاد کے قیام کی تیاریاں ہونے لگیں۔ عرب لیگ اور خطے کے ممالک نے شامی نظام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی تگ و دو شروع کردی جبکہ شامی نظام نے اس حوالے سے کسی بھی نیک نیتی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شامی حکمراں اپنے یہاں سے نقل مکانی کرنے اور دیگر ممالک میں پناہ لینے والے لاکھوں شامیوں کے حوالے سے مثبت اقدام کرسکتے تھے، نہیں کیا۔
یہ سب کچھ صدر ٹرمپ کے ٹویٹر میں اپنے اکاﺅنٹ پر ٹویٹ کے باعث ہوا۔ ٹرمپ نے اعلان کیاتھا کہ وہ شام سے اپنی افواج بلانے کا عزم کرچکے ہیں۔ انہوں نے جواز یہ پیش کیا تھا کہ داعش کے خلاف جنگ ختم ہوچکی ہے لہذا شام میں امریکی افواج کی موجودگی کا کوئی مقصد نہیں رہ گیا ۔ ٹرمپ کے فیصلے کا نتیجہ المناک اور برعکس نکلا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ اب صدر ٹرمپ نے شام سے تدریجی انخلاءکی پالیسی اپنائی ہے۔ 
شام میں معرکے جاری ہیں البتہ ایران نے لبنان اور عراق کو شام کے راستے کنٹرول کرنے کی حکمت عملی اپنالی ہے۔ ایرا ن اردن اور اسرائیل کےلئے خطرات پیدا کررہا ہے۔ اس طرح خطے میں طاقت کا نیا اور خطرناک توازن بن رہا ہے۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ٹرمپ کے وزراءنے شام سے انخلا ءکی کہانی کا تدارک طاقت کی زبان استعمال کرکے کیا۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ترکوں کو خبردار کیا کہ جب تک ترکی شام میں امریکہ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی کارروائی نہ کرنے کا عہد نہیں کریگا تب تک امریکہ شام سے اپنی افواج نہیں بلائے گا۔ انہوں نے ترکی کو یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس نے ترک جنگجوﺅں پر حملہ کیا تو اسکے نتائج سنگین ہونگے۔ ترک حکام نے امریکہ کے اس انتباہ کو غرور کی علامت سے تعبیر کیا البتہ اس نے امریکہ سے ٹکر لینے والی کوئی بات نہیں کی۔ اگر ترک کردوں پر حملہ نہ کرنے کا عہد کرلیتے ہیں تو ایسی صورت میں امریکہ، ایرانیوں کی لائی ہوئی ملیشیاﺅں کے ساتھ کیا کریگا، یہ ایک اہم سوال ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جسکی بنیاد پر مجھے شک ہے کہ امریکہ ترکی اور ایران کے تئیں مختلف پالیسی اپنائے بغیر شام سے نکلے گا۔ مختصر طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ابھی شام میں قیام امن کا وقت نہیں آیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: