Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرینکا میں اندرا گاندھی کا عکس

***سید اجمل حسین۔دہلی***
کانگریس کارکنوں کے ہی نہیں بلکہ پارٹی لیڈروں کے بھی زبردست تقاضوں کے بعد جیسے ہی پرینکا گاندھی کو باقاعدہ جنرل سیکریٹری مقرر  کیا گیا ملک گیر پیمانے پر خاص طور پر اترپردیش میں کانگریسی کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس طرح جشن منایا جانے لگا گویا عام انتخابات سے پہلے ہی کانگریس دو تہائی اکثریت کے ساتھ لوک سبھا میں داخل ہو گئی ہے یا پھر کانگریس کارکنوں کے ہاتھ الہٰ دین کا چراغ   لگ گیا ہو۔ کانگریس میں ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی حلقوں میں پرینکا کی آمد پر منفی و مثبت ردعمل کا اظہار کیاجارہا ہے۔ کچھ کانگریسی عناصر تو یہ باور کرانے پر تلے ہیں کہ پرینکا کو سیاسی میدان میں آنے سے اب راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
 ادھر بہار میں عظیم اتحاد کی روح رواں راشٹریہ جنتا دل(آر جے ڈی) لیڈر تیجسوی یادو نے تو پرینکا کے وارد ہوتے ہی راہول گاندھی کی قصیدہ خوانی شروع کر دی ۔انہوں نے وزارت عظمیٰ کا انہیں مضبوط دعویدار تو نہیں بتایا لیکن یہ کہہ کر دل کا حال بتادیاکہ راہول میں وزیر اعظم بننے کی تمام خوبیاں ہیں۔دراصل جب بھی انتخابات ہوتے ہیں کانگریس کارکن پرینکا کو سیاست میں لانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے لیکن ہر بار کانگریس کو یہ احساس رہا کرتا تھا کہ نامساعد حالات میں بھی وہی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی اور غیر بی  جے پی پارٹیاں حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر بائیں بازو کی پاٹیاں بھی اس کی بیساکھیاں بن کر اسے مخلوط حکومت کی سربراہی سونپ دیں گی لیکن 2014میں اپنی حالت غیر دیکھ کر 2019میں اس حالت سے ہر حال میں بچنے کے لیے کانگریس کو اقتدار میں واپسی کو ممکن بنانے کے لیے کوئی دقیقۃ فرو گذاشت نہ کرنے کے عزم کے ساتھ تنظیمی ردو بدل اور پرینکا کو سرگرم سیاست میں لانے کے پاٹی کارکنوں کے دیرینہ مطالبہ کی تکمیل کر نیکا فیصلہ کرنا پڑا۔ اس سے جہاں ایک طرف مایوسی کے شکار کانگریس کارکنوں میں نیا جوش اور جیتنے کی امنگ جاگ اٹھے وہیں کانگریس کے اقتدار میں واپسی کی راہیں ہموار ہوسکیں گی۔ 
پرینکا گاندھی کی سیاست میں آمد کانگریس کی اقتدار میں واپسی کی ضمانت ہو یا نہ ہو اس سے کانگریس کے نوجوان اور ضعیفوں میں ضرور ایک جوش پیدا ہو گیا۔ نوجوان کارکنوں کو پرینکا جیسی پر کشش شخصیت کا ساتھ مل گیا اور بوڑھوں کو ان میں اندرا گاندھی کا عکس نظر آنے لگا۔ انہوںنے پرینکا کے انداز تکلم اور طور طریقے دیکھ کر کو اندرا گاندھی کا فطری جانشین سمجھ لیالیکن اس کا کیا کیا جائے کانگریس کا ہی نہیں بلکہ سبھی غیر بی جے پی پارٹیوں کا مقابلہ نریندر مودی نام کی اس شخصیت سے ہے جو نہ صرف مسحور کن ہے بلکہ جملے باز کہے جانے اور 2014میں کیے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہ کرنے کے باوجود آج بھی عوام کی اکثریت مودی سحر میں مبتلا ہے۔
مودی حیران کن صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔وہ پوری دنیا میں واحد لیڈر ہوں گے جو کسی ٹیم کے بغیر پارٹی کی انتخابی مہم تنہا چلا کر حریف پارٹیوں کے نہ صرف چھکے چھڑانے اور ان کے لیڈروں کو لاجواب کرنے میں زبردست مہارت رکھتے ہیں بلکہ پارٹی کو خوا ہ گجرات اسمبلی ہو یا2014سے لوک سبھا ہو دو تہائی اکثریت سے داخل کرنے کی زبردست صلاحیتوں کے حامل ہیں۔مودی کو اگر درخت شاہ بلوط کہا جائے تو غلط نہ ہوگاکیونکہ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے نہ آر ایس ایس کو بخشا اور نہ ہی وشو ہندو پریشد کو در خور واعتنا سمجھا۔پروین توگڑیا اور سنجے جوشی کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔آر ایس ایس کی مہربانی سے وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے کے باوجود احسان کا بدلہ احسان سے دینے کے بجائے آر ایس ایس پر پی ایم او کے دروازے ہی بند کر دیے گئے۔اس لیے نہیں کہ آر ایس ایس یا وشو ہندو پریشد سے انہیں کوئی خطرہ تھا ۔وجہ صرف یہ تھی کہ مودی کا مزاج اکیلے ہی فیصلہ لینے اور کام کرنے کا رہا ہے۔ اگر پی ایم او کے دروازے آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد پر بند نہ کیے جاتے تو ان دونوں کا عمل دخل بڑھنے لگتا جبکہ مودی کو اپنے کام میں کسی کی مداخلت پسند نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ لال کشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے سینیئر اور اوما بھارتی جیسی شعلہ بیان سادھوی کنارے کی جاچکی ہیں۔یہاں تک کہ بی جے پی کے اندر سے بھی مودی کی قیادت سے اظہار بیزاری کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں ۔اس کے باوجود مودی کسی کو ساتھ لے کر چلنے تیار نہیں۔ بس ایک یہی کمزور پہلو ہے جو مودی کو اقتدار کی راہ سے بھٹکا سکتا ہے اور اس کا فائدہ برہ راست کانگریس صدر راہول گاندھی یا پرینکا گاندھی کو مل سکتا ہے ۔ 
مودی کی شکست کی صورت میں ان دونوں میں سے ہی کوئی ایک ملک کا آئندہ وزیر اعظم ہوگا۔ کانگریس کے ہوتے ہوئے مایا وتی، ممتا بنرجی، اکھلیش یادو یا چندر بابو نائیڈو میں سے کسی کو بھی یہ عہدہ نہیں مل سکتا ۔ 2014کے انتخابات میں ووٹنگ کا پیٹرن صاف بتاتا ہے کہ اس وقت جتنے ووٹ ان تمام پارٹیوں کو  ملے تھے اس سے دوگنے ووٹ کانگریس کو ملے تھے۔ 2014میں کانگریس سے ناراض اعلیٰ طبقہ کانگریس سے رجوع کر سکتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس ، مودی اور عظیم اتحاد ایسی کون سی چال چلتے ہیں جس سے تینوں میں سے کسی ایک کا لوک سبھا پر قبضہ ہو سکے۔
 

شیئر: