Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گاندھی جی کا دوسرا قتل

***معصوم مرادآبادی***
30جنوری کی تاریخ اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے کہ 1948 میں اسی دن آزاد ہندوستان میں دہشت گردی کی پہلی کارروائی عمل میں آئی تھی۔ یہ شرمناک کارروائی تھی۔ بابائے قوم مہاتماگاندھی کا وحشیانہ قتل۔ہندومہاسبھا کے رکن ناتھورام گوڈسے نے انہیں نئی دہلی میں گولیوں سے بھون دیا تھا۔ الزام تھا کہ انہوں نے ملک کو تقسیم کرایا اور پاکستان کو اس کے حصے کی رقم دینے کیلئے بھوک ہڑتال پر بیٹھے۔ ایک ہندوانتہا پسند جنونی کے ہاتھوں مہاتماگاندھی کے قتل کو صدی کا سب سے شرمناک واقعہ بھی قرار دیاجاتا ہے چونکہ مہاتماگاندھی ہندوستان کی تحریک آزادی کے سرخیل تھے اور انہوں نے عدم تشدد کے فلسفے پر کاربند ہوکر ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا تھا۔ گوڈسے نے اپنے اس گھناؤنے جرم سے ہندوستان کا سر پوری دنیا میں نیچا کردیاتھا۔ ناتھورام گوڈسے کو عدالتی کارروائی کے بعد پھانسی پر ضرور چڑھادیاگیا لیکن تب سے ملک میں ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوگیا جو گوڈسے جیسے دہشت گرد کو اپنا ہیرو اور مہاتماقرار دیتا ہے۔ یہ لوگ ہرسال گاندھی جی کے یوم کو’’ یوم فخر‘‘ کے طورپر مناتے ہیں ۔ اب تک یہ کارروائی پوشیدہ طورپر انجام دی جاتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ ناتھو رام گوڈسے کے پیروکاروں نے ایک ایسی شرمناک حرکت انجام دی جس سے ایک بار پھر ہندوستان کا سر نیچا ہوا۔ ہندومہاسبھا کے کارکنوں نے 30جنوری کو گاندھی جی کے قتل کے واقعہ کو دہرایا اور’’ مہاتماناتھورام گوڈسے امر رہے‘‘ کے نعرے لگائے۔ یہ شرمناک واقعہ اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں پیش آیا۔ حالانکہ پولیس نے اس واردات میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے اور ان کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں لیکن دفعات اتنی معمولی لگائی گئی ہیں کہ انہیں فوری طورپر ضمانت بھی مل گئی۔ 
تشویشناک بات یہ ہے کہ جب سے مرکز میں بی جے پی کی سرکار اقتدار میں آئی ہے، تب سے اس قسم کی شرمناک وارداتوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے اور جولوگ ایسی حرکتیں پردے کے پیچھے انجام دیتے تھے، وہ اب کھل کر میدان میں آگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 30جنوری کو علی گڑھ میں جو کچھ ہوا وہ باقاعدہ میڈیا کو بلاکر کیمروں کے سامنے انجام دیا گیا۔ اس موقع پر گاندھی جی کا پتلا کھڑا کرکے ان کی تصویر پر تین گولیاں چلائی گئیں اور نیچے خون بھی بہتا ہوا دکھایاگیا۔ گولیاں چلانے کے دوران شرکاء نے باقاعدہ ’’مہاتماناتھورام گوڈسے امررہے‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔ اس کارروائی کی ویڈیو پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اس پر سوشل میڈیا میں شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ یہ کارنامہ ہندومہاسبھا کی قومی سکریٹری پوجا پانڈے کی قیادت میں انجام دیاگیا جنہوں نے سب سے پہلے گاندھی کے پتلے پر گولیاں چلائیں۔ پوجا پانڈے کے بارے میں بتایاجاتا ہے کہ ان کی کئی بی جے پی لیڈروں مثلاً اومابھارتی ، شیوراج سنگھ چوہان اور سنتوش گنگواڑ کے ساتھ تصویریں موجود ہیں۔ وہ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حلف برداری کی تقریب میں بھی شریک تھیں اور انہیں وی آئی پی کرسیوں پر بٹھایاگیا تھا۔ پوجا پانڈے نے ملک میں پہلی ہندو عدالت بھی قائم کی ہے جس کی وہ خودساختہ جج ہیں۔ یہ کام انہوں نے شرعی عدالتوں کے جواب میں شروع کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گاندھی کو گوڈسے نے قتل نہیں کیاتھا۔ 
مہاتماگاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو ہیرو قرار دینے کی کوششیں اس ملک میں نئی نہیں ہیں۔ آپ کو یادہوگا کہ پچھلے دنوں کئی مقامات پر گوڈسے کے مندر بھی بنائے گئے تھے، خود بی جے پی ممبرپارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے گوڈسے کی شان میں قصیدہ خوانی کی تھی۔ دراصل حکمراں طبقے کی گوڈسے کے ساتھ ہمدردی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گوڈسے کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ آر ایس ایس کا سرکردہ کارکن تھا اور گرو گولوالکر سے بہت متاثر تھا۔ حالانکہ آر ایس ایس والے اپنے دفاع میں یہ کہتے ہیں کہ گوڈسے نے آر ایس ایس سے علیحدگی اختیار کرلی تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سنگھ پریوار کے لوگوں نے آج تک کھل کر گوڈسے کی مذمت نہیں کی بلکہ وہ دبے لفظوں میں اس کی تحسین ہی کرتے رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مہاتماگاندھی کو آزادی کے بعد قوم کے مسیحا کے طورپر یاد کیاگیا اور انہیں بابائے قوم کا درجہ بھی ملا۔ ہندوستان کے کرنسی نوٹوں پر مہاتماگاندھی کی تصویریں اس کی گواہ ہیں۔ مہاتماگاندھی کو پوری دنیا میں اس اعتبار سے احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے کہ ایک دھان پان سے آدمی نے عدم تشدد کے فلسفے پر کاربند رہتے ہوئے ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا۔ پوری دنیا میں مہاتماگاندھی کو احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ خود راقم الحروف نے امریکہ اور انگلینڈ جیسے ملکوں میں گاندھی جی کے مجسمے دیکھے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جس قوم کے لئے انہوں نے سب کچھ کیا اسی کے گمراہ افراد نے انہیں خون میں نہلا دیا۔ گاندھی جی کا قتل یوں تو 30جنوری 1948کو ہوا تھا لیکن اس کے بعد سے ان کے نظریات اور فکر کو اس ملک میں تسلسل کے ساتھ قتل کیاجاتا رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر المیہ اور کیاہوسکتا ہے کہ لوگ گاندھی کی بجائے ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو مہاتماکہہ کر پکارتے ہوں اور گوڈسے کو گاندھی کے قتل سے بری کرانے کی کوشش کرتے ہوں۔ آپ کو یادہوگا کہ 2016میں ممبئی ہائی کورٹ میں ایک ایسی پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں گاندھی کے قتل کی دوبارہ جانچ کرائے جانے کا مطالبہ کیاگیا تھا۔ اس پٹیشن میں کہاگیا تھا کہ 1964میں جس کپورکمیشن نے گاندھی قتل سازش کیس کی تحقیقات کی تھی وہ صحیح نہیں تھی لہٰذا اب دوبارہ اس قتل کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔
 

شیئر: