Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرآن مجید ، بْرہانِ الٰہی

 بُرہان کے لغوی معنی ’’دلیل اور حجت‘‘ کے ہیں، دلیل رہنما کو بھی کہتے ہیں اور اس سے مراد وہ نظریہ، عقیدہ، فکر اور اصول بھی ہے
 
ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم ۔  نئی دہلی
قرآنِ مجید وہ مہتم بالشان صحیفۂ ہدایت ہے جس نے نہ صرف تاریخِ انسانی کا دھارا موڑا بلکہ فکروعمل کا معیار بھی یکسر تبدیل کردیا۔ قرآنِ مجید کی صورت میں الہامی تعلیمات نے نہ صرف حیاتِ انسانی کو متاثر کیا بلکہ اس کائنات کے حیرت انگیز اسرار کی پردہ کشائی کے ساتھ مدتِ دراز سے مروج ہرنوع کے افکار و نظریات کے علی الرغم کائنات کی اَبدی اور کھلی حقیقتوں پر مضبوط، مؤثر اور مستحکم دلائل پیش کیے۔
    قرآنِ مجید روے زمین پر کائنات کے خالق، مالک، آقا و حاکم اور مقتدرِ اعلیٰ کی حقانیت بلکہ وجود پر سب سے بڑی، روشن اور شان دار دلیل ہے۔ اسی لیے سورۃ النساء میں اسے ’ ’  برہان‘‘ قرار دیا گیا۔
     بُرہان کے لغوی معنی ’’دلیل اور حجت‘‘ کے ہیں۔ دلیل رہنما کو بھی کہتے ہیں اور اس سے مراد وہ نظریہ، عقیدہ، فکر اور اصول بھی ہے، جو کسی بھی معاملے میں واضح اور فیصلہ کن رہنمائی عطا کرے۔
    قرآنِ مجید کی ہرآیت اور ہر حرف تاقیامت دلیل و حجت اور کامل رہنمائی ہے۔ وہ لوگ جو حق و راستی کے طالب ہوں، ان کے قلوب و اذہان ہر نوع کی کجی اور ٹیڑھ سے پاک ہوں، قرآنِ کریم انھیں ہمہ پہلو دلائل و براہین سے حق کا شعور و آگہی، عمل کی توفیق اور استقامت عطا کرتا ہے۔
    قرآنِ مجید نے اپنے طرزِ استدلال میں وہ تمام اسالیب اختیار کیے، جن کا تعلق انسان کی عقل و فہم ، سماعت اور مشاہدے سے ہو۔ قرآن نے مروج ادبی معیارات سے کہیں بڑھ کر بلند تر معیار کو اپناکر دقیق سے دقیق بات پاکیزہ، واضح اور مؤثرانداز میں اس طرح بیان کی کہ ہرشخص نے اپنی فہم و دانش اور ظرف کے مطابق اس سے نہ صرف صراطِ مستقیم کا شعور حاصل کیابلکہ اس کے جلال و کمال اور ہیبت و عظمت کے سامنے مبہوت ہوکر رہ گیا۔
    ٭دلائل و براھین:قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل و براہین پر جن لوگوں کو غوروفکر کی دعوت دی، ان میں اہلِ عقل و دانش ، اہلِ ایمان اور اہلِ علم کے ساتھ اللہ کا خوف رکھنے، آیات کو سننے اور انھیں سمجھنے کی صلاحیت رکھنے، ان سے نصیحت پکڑنے اور اس نعمت عظمیٰ پر شکر بجا لاتے ہوئے اس کی عطا کردہ راہِ ہدایت پر استقامت دکھانے والے شامل ہیں۔
    ٭کتاب لاریب:قرآنِ مجید کے دلائل و براہین کا اوّلین موضوع خود اس کا اپنا وجود ہے۔ اس کی پہلی دلیل :ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرہ 2)، یعنی یہ کتابِ مقدس ہر نوع کے شک و شبہے سے بالا، ہرآمیزش سے مبرا، ہرکجی سے پاک اور دونوں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل کردہ ہے۔
    قرآن نے خو د کو ہدایت، موعظت، شفا، رحمت، حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا اور نصیحت قرار دیتے ہوئے نہایت قوی دلیل دی کہ: میرا بیان کردہ راستہ ہی سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اسی کی پیروی میں نجات اور اس سے انحراف سراسر گمراہی ہے(الانعام153)۔     قرآن نے اپنے وجود ِمسعود و محمود کے ساتھ اپنے محفوظ ہونے پر بھی دلائل دیئے کہ یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں، اس کا نازل کرنے والا اللہ بزرگ و برتر ہے اور وہی اس کا محافظ بھی۔ قرآن نے اپنے وجود کی عظمت اور حقانیت پر دلیل دیتے ہوئے تمام جِنّ و انس کو چیلنج دیا کہ وہ سب مل کر اس کے افکار و نظریات تو دْور کی بات، اس کی ایک سورۃ یا آیت جیسا کلام بناکر دکھائیں۔ پھر خود ہی اعلان بھی کردیا: سارے جِنّ و انس مل کر بھی ایسا ہرگز نہ کرسکیں گے۔
    قرآن نے اپنے وجود پر ایک اور قوی دلیل یہ پیش کی کہ: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ  مُّدَّکِر(القمر32) ، یعنی یہ معانی و مفاہیم، قرأت و تجوید اور حفظ و عمل کے اعتبار سے نہایت آسان ہے۔فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِر  ’’ تو ہے کوئی اس سے نصیحت حاصل کر کے اپنے سینوں میں اْتارنے اور کتابِ حیات پر نافذ کرنے والا؟‘‘
    ٭صاحبِ قرآن: قرآن نے اپنے براہین کا دوسرا موضوع صاحبِ قرآن کو بنایا اور صاحبِ قرآن کے اْمّی ہونے کو اپنے لاریب ہونے پر دلیل بنایا کہ وہ ذاتِ اقدس جو اْمیوں کے معاشرے سے اْٹھی اور الہامی تعلیم و تربیت اور رہنمائی کے سائے میں اْس اخلاق و کردار سے متصف ہوئی ، جو خود قرآن کا پرتو، اس کی عملی تصویر اور ہمہ پہلو مجسم دلیل قرار پائی۔ کَانَ خُلُقُہُ القُرآن،    اور یہی وجودِ اقدس تابہ اَبد انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور اسؤحسنہ ، معیارِ ہدایت و ضامنِ نجات قرار پایا۔ قرآن نے نہ صرف                                            بعثتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل فراہم کیے، بلکہ منصبِ رسالت پر بھی ہمہ پہلو دلائل پیش کیے۔
    ٭جبریلِ امین ؑ :قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل کا تیسرا موضوع بارگاہِ الٰہی سے بارگاہِ رسالت میں لانیوالے کو بنایا، کہ وہ بھی نہایت محترم، معتبر و مستند  واسطہ ہے۔ یہ پیام رساں جبریل امین ؑ نہایت عظیم المرتبت، بارگاہِ الٰہی کا نہایت قوی مقرب، فرمانِ الٰہی کا پابند اور صاحبِ امانت ہے ۔
    ٭ ہستی باری تعالیٰ:براہین قرآنی کا چوتھا اور کلیدی موضوع وجودِ باری تعالیٰ اور ا سکی توحید، عظمت و جلال، اختیار واقتدار، وسعت و قوت کا اعلان و اظہار ہے اور نہ صرف نزولِ قرآن اور بعثتِ رسالت مآبکا مقصد ہے بلکہ تحقیق کائنات کی غرض و غایت بھی یہی ہے۔ قرآنِ حکیم نے انسان کے اپنے وجود، تخلیق، تکوین کائنات اور بے شمار ظاہروباطن، مظاہرقدرت اور مناظر فطرت کو دلیل بناکر اللہ کی وحدانیت، عظمت، کبریائی، قوت و اختیار و اقتدار، جلال و جمال اور ذاتِ باری کے ہرپہلو کو نمایاں اور واضح کیا۔ قرآن نے اپنے دلائل سے تخلیق کائنات کا یہ مقصد واضح کیا کہ نہ تو یہ کھیل تماشے کیلئے ہے اور نہ بے مقصد۔ تخلیق   جِنّ و انس اور تکوین کون و مکاں کا واحد مقصد اللہ کی ہمہ پہلو، مکمل ومسلسل عبادت، یعنی بندگی ہے:میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کیلئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں (الذاریات56)۔
     ٭    حقیقت ِ کائنات:قرآنِ حکیم اس حقیقت پر بھی برہان ہے کہ یہ کائنات اَبدی نہیں، فانی ہے۔ بقا و دوام تو فقط ذاتِ باری تعالیٰ کو ہی ہے۔ اس کائنات کا انجام آخرت ہے، جو بہرصورت اور بہت جلد برپا ہوگی۔ عدلِ الٰہی کا تقاضا ہے کہ حیاتِ دنیوی میں آزمائش کے لیے بھیجے جانے والوں کی مہلتِ عمل مکمل ، امتحان کا اختتام ہو اور فیصلے کا دن برپا کر کے جزا و سزا کے ذریعے اہلِ کفر اور اہلِ ایمان میں وعدے کیمطابق فرق و امتیا ز کیا جائے۔ قرآنی دلائل کی روشنی میں دنیا تو دارالعمل، متاعِ قلیل اور بے وقعت ہے جبکہ آخرت بہتر، دائمی اور دارالجزا ہے: وَالآ خِرَۃُخَیْرُ وَّاَبْقٰی(الاعلٰی17)۔  
    ٭  تسخیرِ کائنات: براہین قرآن کا چھٹا موضوع تسخیر کائنات ہے کہ یہ بحروبَر، شمس و قمر، لیل و نہار، سب بندۂ مومن کے لیے اور اس کی میراث ہیں: کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کررکھی ہیں (لقمان20) ۔ مومن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انھیں امانت تصور کرتے ہوئے آقا و مولا کی مرضی و منشاء  کے مطابق استعمال تو کرے، لیکن ان میں گم اور غرق ہوکر نہ رہ جائے۔ اس کائنات کے اسرار و رُموز سے آگاہی حاصل کرکے اپنے رب کی معرفت اور اپنی شب تاریک سحر تو کرے، اس دنیا کے زینت و تفاخر اوردھوکے میں ڈالنے والی رعنائی و د  ل کشی کا اسیر ہرگز نہ بنے۔
    ٭    قوموں کا عروج و زوال:ساتواں موضوع جسے قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل و براہین کا مرکز بنایا، وہ قوموں کا عروج و زوال ہے۔ اُممِ سابقہ کے تذکرے، انبیا اور ان کے اصحاب کے قصے، قوموں کے انفرادی و اجتماعی کردار، معاشرتی رویئے، آیاتِ الٰہی کی تکذیب، عناد اور مخالفت کے انجام، اہلِ کفر اور اہلِ ایمان کے معرکہ ہائے حق و باطل، ظلم و جبر کی داستانیں، صبرواستقلال اور عزیمت کے واقعات، انسانوں پر انسانوں کی خدائی کے جھوٹے دعوے اور ان کے عبرت ناک انجام…ان سب کو قرآن نے اس امر پر دلیل بنایا کہ حق و باطل ہمیشہ سے برسرِپیکار رہے ہیںلیکن غلبہ بالآخر اہلِ حق کو ہی حاصل ہوا:  تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو(آلِ عمران139) ۔
    * دوسرا یہ کہ اہلِ حق خواہ تھوڑے ہی ہوں، مگر صبرواستقامت کے کوہِ گراں ہوں، تو فتح و نصرت اْنہی کا مقدر ہے: بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے(البقرہ249) ۔
    *تیسرا یہ کہ وہ قومیں جو اپنے اجتماعی و انفرادی کردار کی طرف توجہ اور اصلاحِ احوال کی کوشش سے غفلت برتیں، اللہ ان کا ساتھ نہیں دیتا۔
    *چوتھا یہ کہ جس قوم کے اصحابِ ثروت عیش و عشرت اور بدکاریوں میں مبتلا ہوں، جہاں عدل و انصاف کے بجاے ظلم کا بازار گرم
 ہو، وہ قومیں جو اللہ کے دین سے اعراض اور اسکے رسولوں کی تکذیب کی مجرم ہوں، کبھی سربلند اور معزز نہیں رہ سکتیں۔ ان کا انجام دنیا میں بھی رسوا کن اور عبرت ناک ہوا،ان کی زندگیاں تلخ سے تلخ تر اور مصائب شدید سے شدید تر ہوئے اور آخرت کی اَبدی ذلت اور دائمی عذاب بھی اْن کا مقدر بنا۔قرآن نے اہلِ حق کو یہ دعوت دی کہ: زمین میں عبرت کی نگاہ لیے چلو پھرو اور دیکھو کہ مفسدین و مکذبین کا انجام کیا ہوا؟ (انعام11)۔
    ٭          چند مزید حقائق:قرآنِ حکیم نے ان چند بنیادی موضوعات پر بار بارتفصیلی اور مستحکم دلائل دینے کے علاوہ بعض دیگر اْمور اور حقائق کے بارے میں بھی مدلل رہنمائی عطا کی، جن میں:    
    «    شیطان کو انسان کا کھلم کھلا دشمن قرار دیکراسکی چالوں سے آگاہ و خبردار رہنے کے ساتھ، اس کے نقشِ قدم پر چلنے سے منع فرمایا۔
    «   جنت: اللہ کا وعدہ اور اس کی رضا و خوشنودی کی مظہر ہے۔ یہ ہرمومن کا مقصد، تمنا اور آرزو ہے۔ قرآن نے دلائل سے واضح کیا کہ جنت کا راستہ اس قدر آسان نہیں۔ اس کی قیمت تو اللہ کا تقویٰ، ہوائے نفس سے اجتناب، رسولکی کامل اطاعت و اتباع اور قرآن کی پیروی کے ساتھ راہِ حق کی ہر آزمائش میں صبرواستقامت کا مظاہرہ ہے اور جو اس کا امیدوار اور خریدار ہو، اسے بطورِ قیمت اپنی جان اور مال اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا ہوگا:حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں (التوبہ111)۔
    «                                                           بلاشبہ قرآنِ حکیم اس امر پر بھی بُرہان ہے کہ اللہ کا دین اس کی نعمت بن کر مکمل ہوچکا ہے۔ اس میں نہ کمی کا اختیار ہے، نہ اضافے کی گنجائش۔ دین اسلام ہی اللہ کا پسندیدہ اور اس کی بارگاہ میں مقبول ترین ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الاِسْلَامْ (آل عمران19)۔     اس کے علاوہ کوئی اور نظریۂ حیات، فلسفۂ تہذیب و تمدن، اصولِ اخلاق و سیاست، نظامِ معیشت و معاشرت اللہ کے نزدیک غیرمقبول ہیں۔
    «   دلائل قرآنی میں ایک اور قوی دلیل معیارِ تقویٰ و فضیلت کے بارے میں ہے۔ اس کے براہین کی روشنی میں قوم، زبان، رنگ، وطن، دولت وقوت، شان و شوکت ہرگز معیارِ فضیلت نہیں: اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُم  (الحُجُرات13)’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ اللہ کی بارگاہ میں معیارِ شرف و عزت فقط ’’تقویٰ‘‘ یعنی خوفِ خدا ہے۔ تقویٰ بہترین توشۂ آخرت، اہلِ دانش کی میراث ہے۔ تقویٰ مسجد کی دیواروں، ماتھے کی محرابوں اور تسبیح کے دانوں میں نہیں، اس کا مرکز تو دل ہے۔
    «  قرآن نے اس حقیقت پر بھی بْرہان پیش کی کہ نیکی کا مروّج تصور اور اللہ کا عطا کردہ ضابطہ معروف و منکر مختلف ہیں۔ اللہ کی نگاہ میں مشرق و مغرب کی طرف رْخ کر کے عبادت کرنا، قربانی کا خون اور گوشت اسکی نذر کرنا، مقدس مقامات کی تعمیر، یا مفادِ عامہ کے چندکا م انجام دے لینا ہی نیکی نہیں، بلکہ نیکی تو حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی تکمیل کا نام ہے۔
    «              قرآن اس حقیقت پر بھی بْرہان ہے کہ اللہ کے طے کردہ ضابطوں کے مطابق کوئی اچھا یا بْرا عمل خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے۔ اللہ جو انسان کے ظاہر وباطن سے آگاہ اور خبردار ہے، انھیں حکم دیتا ہے کہ تمہارا کام تو فقط خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ عمل کرنا ہے۔ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُہٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ  (التوبہ105)’’تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسول() اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزِعمل اب کیا رہتاہے‘‘۔
    قرآنِ مجید کی ہر آیت کسی نہ کسی انسانی رویئے کے حْسن و قبح پر دلیل اور کسی نہ کسی اَبدی اور سچی حقیقت کی غماز ہے۔ یہ سب دلائل و براہین انسان کی ہدایت کا سامان اور قلب ونظر کے اطمینان  اور دنیا کی فلاح اور عقبیٰ کی نجات کا باعث ہیں۔
    ٭    قرآن کا مطالبہ :قرآن دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہ انسان کی بیش بہا خوش بختی ہے کہ وہ حاملِ قرآن ہے مگر بحیثیت مجموعی اس کی سب سے بڑی بدبختی بھی یہی ہے کہ وہ تارکِ قرآں ہے۔ وہ اس سے غافل ہی نہیں ، بلکہ اپنی زندگی کے ہرمعاملے میں اس سے اعراض برتے ہوئے ہے۔ اسی کا نتیجہ اس کی ذلت و رْسوائی، بے سکونی اور بے اطمینانی ہے۔
    قرآنِ مجید کی تمام تعلیمات اور دلائل و براہین اپنے مخاطبین سے صرف ایک ہی تقاضا کرتے ہیںاور وہ ہے ایمان باللہ اور اس کی عطا کردہ تعلیماتِ قرآنی کو تھام لینا۔ گویا اللہ کی ذات، صفات، اختیار وغیرہ پر کامل ایمان کے ساتھ اس کے لازمی تقاضوں پر بھی غیرمتزلزل ایمان کے بعد       اعتصام بحبل اللہ…یعنی عقائد کی درستی اور پھر اعمالِ صالح۔ سورۃ العصر بھی انہی امور کی تفصیل بیان کرتی ہے کہ ایمان، عملِ صالح اور حق کی وصیت کے ساتھ باہم صبرواستقامت کی تلقین۔ یہ چیزیں اللہ کی رحمت، فضل، اس کی جانب سے صراطِ مستقیم کی رہنمائی اور اس کی رضا کا موجب ہیں۔
    قرآنی فلسفۂ حیات میں معاشرتی زندگی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن اس میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانے کا درس دیتا ہے اور اس کی تعلیمات کا مرکزو محور یہ نکتہ ہے کہ اجتماعی زندگی گزارتے ہوئے سعادت اور کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ کوئی حق دار محروم نہ ہو اور کسی پر زیادتی اور ظلم نہ ہو۔ قرآن میں بیان کردہ تمام اخلاقی قوانین اسی محورکے گرد گھومتے ہیں۔
    غیبت، سوء  ِظن، تمسخر، بدعہدی، ناپ تول میں کمی، فحش گوئی وغیرہ سے اجتناب کی ہدایت، اہلِ خانہ اور والدین سے حْسنِ سلوک ، عفو و درگزر، تحمل و وقار، پاک بازی، راست بازی ، امانت کا تحفظ، عدل و انصاف کا قیام، ہر فرد کے حقوق کا تحفظ، انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے معاشرے کی صلاح و فلاح، ایک دوسرے کی ضرورتوں کی تکمیل کا احساس …ہمارے معاشرتی رویوں سے متعلق قرآنی ہدایات کے چند نکات ہیں۔
    قرآن کے تمام ہمہ پہلو دلائل و براہین ساری انسانیت اور بالخصوص اہلِ ایمان کو دعوت دے رہے ہیں کہ اگر ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے نہیں، تو وہ ان پر غور کریں، ان سے نصیحت اور  رہنمائی حاصل کر کے انھیں اپنی زندگیوں کا مرکز و محور بنائیں۔
    قرآن کی پکار ہے: اے اہلِ ایمان! اگر تم مسلمان کی حقیقی آن بان اور شان کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہو تو نِیست ممکن جذ بہ قرآں زیستن…قرآن کے بغیر باعزت زندہ رہنے کا تصور ممکن ہی نہیں۔اور ڈرو میدانِ حشر کے اُس لمحے سے جب رسول بارگاہِ الٰہی میں فریاد کناں ہوں گے: یٰرَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوْرًا (الفرقان30)’’ کہ اے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘… اور تب یہ قرآن بھی ہمارے خلاف حجت بن کر اْٹھ کھڑا ہوگا۔
مزید پڑھیں:- - - - -نبی کریم پر صلٰوۃ و سلام کی فضیلت

شیئر: