Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک جیالے کے نام

***محمد مبشر انوار***
فی زمانہ پاکستانی سیاست میں نظریاتی کارکن خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں کہ سیاسی کارکنوں کی اکثریت ’’شخصیت پرستی‘‘میں غرق دکھائی دیتی ہے۔ تحریک پاکستان کے سیاسی کارکنان کو نظریاتی بنیادوںپر پرکھا جا سکتا ہے تو بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی کارکنان کو نظریاتی کہا جا سکتا ہے اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ وہ سیاسی وژن جو سیاسی کارکنان کی تربیت کرتا ہے،سیاسی شعور عطا کرتا ہے۔وہ پاکستان کے سیاسی افق پر کمیاب ہوچکا ہے۔ 
بہر کیف سیاسی جماعتوں کی بقا اگر ایک طرف وقت کے ساتھ ہم آہنگ پالیسیاںہیں تو دوسری طرف تنظیمی اعتبار سے مضبوط سیاسی جماعتیں ہی عوام میں اپنی جڑیں قائم رکھ پاتی ہیںوگرنہ سیاسی جماعتوں کا تارو پود خش و خاشاک طرح ہوا میں اڑ جاتا ہے،بند مٹھی میں ریت کی مانند سرکتے سرکتے بس خالی مٹھی رہ جاتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں اپنے وقت کی وہ معروف ترین جماعت رہی ہے جسے قائد عوام اپنی مصروفیات کے باعث منظم نہ کرسکے مگر اپنی کرشماتی شخصیت کے باعث ان کی سیاسی وراثت کسی نہ کسی حد تک متحد رہی اور حوادث زمانہ اس میں نقب لگانے سے قاصر رہے۔ یہی صورتحال محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی رہی مگر محترمہ کی رحلت کے بعد پیپلز پارٹی کا کنٹرول بہت حد تک غیر نظریاتی لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا،جس نے پارٹی کی پنجاب میں رہی سہی ساکھ کو بھی ختم کر دیا۔ اس پس منظر میں بلاول نے راست اقدام اٹھاتے ہوئے اندرون و بیرون ملک تنظیموںکو تا اطلاع ثانی معطل کر دیا۔ بلاول نے چند سالوں کی معطلی کے بعد گذشتہ ماہ پارٹی کی تنظیم نو کی ہے اورنامزدگیوں میں جیالے پن کے ساتھ ساتھ پارٹی کی نظریاتی اساس سے وابستگی کو ترجیح دیتے ہوئے ایسے جیالوں کو تعینات کیا ہے جو واقعتاً دلیل کے ہتھیار سے لیس ہیں،اور مخالفین سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ا س ہتھیار کا صحیح استعمال کرنے کے ہنر سے بہرہ مند بھی ہیں۔اس سب سے بڑھ کر وفاداری ان کا خاصہ ہے۔ ایسی ہی دو تعیناتیوں کے متعلق میں ذاتی طور پر واقف ہوں اور حقیقتاً بلاول کو اس کے انتخاب پر داد دینے پر مجبور ہوں۔پاکستانیوںکی سب سے زیادہ تعداد مشرق وسطی میں مقیم ہے جبکہ یورپ میں بسنے والے پاکستانی گو کہ دہری شہریت کے حامی ہیں مگر ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے جنرل سیکرٹری کے لئے جس شخصیت کو نامزد کیا گیا ہے وہ  ریاض کی ایک معروف اور جانی پہچانی شخصیت ہے ، جس نے ابتلاء کے دور میں بھی پارٹی کا جھنڈا پورے اعتماد سے تھامے رکھا اور اپنے حسن سلوک سے مخالفین کو بھی اپنا گرویدہ بنائے رکھا ۔ رانا محمد خالد کی شخصیت میں ایک طرف خود اعتمادی ہے تو دوسری طرف طالبعلمی کے زمانے سے ہی سیاست و فلسفہ اس کا من پسند مشغلہ رہاہے۔ کینیڈا میں مقیم راؤ طاہر کی پارٹی سے وابستگی کسی شک و شبہ سے بالا ہے اور دونوں شخصیات ہی علمی اعتبار سے انتہائی مضبوط پس منظر رکھتی ہیں۔ 
نئی ذمہ داریوں کے بعد۔ان کا نیا امتحان شروع ہو چکا ہے ،جس میں سب سے اہم ایک طرف گوشہ نشین پارٹی ورکرز کو دوبارہ کارزار سیاست میں لانا ہے تو دوسری طرف نئے کارکنان کو پارٹی افکار سے روشناس کروا کر انہیں پارٹی میں شامل کرنا ہے۔برادرم راؤ طاہر کی نسبت محترم رانا محمدخالد کی ذمہ داریاں کئی گنا زیادہ ہیں کہ ایک طرف ناراض اراکین کو اکٹھا کرنا کٹھن کام ہو گا تو دوسری طرف نئے خون کو پارٹی کا حصہ بنانا کارواردکہ انہیں ایسے وقت میں پارٹی کی طرف سے اتنی اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے جب سعودی عرب کے گذشتہ 30 سال سے صدر رہنے والی شخصیت پی ٹی آئی کو پیاری ہو چکی ہے۔ گذشتہ 2 ہفتوں سے اہل ریاض مسلسل رانا محمد خالد کے اعزاز میں تقاریب بپا کئے ہوئے ہیں اور ان تقاریب میں ایک مثبت پیش رفت یہ دیکھنے کو ملی ہے کہ پارٹی کے ناراض اراکین بھی شریک ہوئے ہیں او ر انہوں نے رانا محمد خالد کو اپنی بھر پور حمایت کا یقین دلایا۔یقیناً یہ امر نئے جنرل سیکرٹری کے لئے باعث اطمینان ہو گا کہ پہلے ہی مرحلے میں وہ اپنے ہی شہر کے ناراض اراکین کو ایک جگہ اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو گئے تو دوسری طرف یہ ان کے اعتماد کو تقویت بخشے گا اور ان کے آئندہ لائحہ عمل میں انہیں رہنمائی بھی فراہم کرے گا۔ رانا محمد خالد کو یہ احساس بھی یقینا ہو گاکہ نئی ذمہ داری پھولوں کی سیج قطعی نہیں بلکہ نئی ذمہ داری ان سے بے شمار تقاضے کر رہی ہے کہ وہ اپنے قائد کی جماعت کو پھر سے عوامی جماعت بنائیں جو بوجوہ ڈرائنگ روم کی جماعت بن چکی ہے اور ایسی جماعت کے متعلق ماسوائے یہ کہنا کہ وہ عوامی سیاست کی بجائے جوڑ توڑ کی سیاست کرتی ہے،چنداں غلط نہ ہو گا۔ نئے جنرل سیکرٹری کو اللہ کریم نے خداداد صلاحیتیوں سے نواز رکھا ہے اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو حقیقی معنوں میں بروئے کار لا سکے توو ہ یقینی طور پر قائد عوام کی پارٹی کو پھر سے عوامی جماعت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ اس مقصد کے لئے انہیں قائد عوام کا منشور ہمیشہ سامنے رکھنا ہو گا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں ۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والا پارٹی کا وہ کارکن ،جو حالیہ مفاہمتی پالیسی سے دلبرداشتہ ہو کر پی ٹی آئی کو پیارا ہو چکا ہے،وہ پی ٹی آئی سے بھی تقریباً دلبرداشتہ ہو چکا ہے اور نئے ٹھکانے کی تلاش میں ہے۔ میدان کھلا ہے اور اب آپ کو اپنی صلاحیتیں آزمانی ہیں،جو اللہ کریم نے آپ کو ودیعت کی ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ اپنی قیادت کو زمینی حقائق سے بھی آگاہ رکھنا ہے نہ کہ ماضی کی طرح سب اچھا ہے کی گردان دہرانی ہے۔ دعا اور خواہش ہے کہ رانا محمد خالد اپنی شخصیت سے عہدے کی رونق بنے نا کہ عہدہ ان کی شخصیت کے لئے رونق بنے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں