Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”ماحول کا اثر“

شہزاد اعظم
ماہرین، ناقدین،حاضرین، ناظرین، شائقین، محققین اور مبصرین خواہ یہ بات مانیں یا نہ مانیں، ہم تو دل و جان سے یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کی ذات، حرکات، سکنات، عادات اور خیالات پر ماحول کا انتہائی گہرا اثر ہوتا ہے۔پرانے وقتوں کی بات ہے ،جب ہم نے اخباری دنیا میں ”ڈبیو“ کیا تھا، ہمیں ایک ایسے ”باس“ ملے جو ملازمین کی تضحیک کر کے خوش ہوتے اور انہیں ملازمت سے فارغ کر کے اپنے گھمنڈ کو پروان چڑھاتے تھے۔ان کی موجودگی میں دفتر کا ماحول انتہائی ناقابلِ یقین ہوگیاتھا۔ ہم سمیت دفتر کے جمعداروں سے لے کر افسران و بااختیار صاحبان، سب کی سٹی گُم ہوچکی تھی۔دفتر میں ”قبرستانی سناٹا“چھا یا رہتا تھا۔سر پر لٹکنے والی تلوار کے خوف سے ہر شخص آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایک دوسرے سے اشاروں ہی اشاروں میں پوچھا کرتا تھا کہ باس کا موڈ کیسا ہے؟یہاں تک کہ گھر میں بھی ہم اشاروں سے باتیں کرنے کے عادی ہوگئے۔دفتر میں موجودہر شخص کام میں مگن رہنے کی کوشش کرتا تھا کیونکہ باس جسے فارغ بیٹھا دیکھتا، اسے بے کار قرار دے کر نوکری سے نکال دیتا تھا۔اس ماحول کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے نین نقش ہی بدل گئے،سب دفتر والوں کی آنکھیں مستقل پھٹی رہنے لگیں،اخبارات کے دیگر دفاتر میں ہم ”پھٹی آنکھوں والے کارکنان“ کے نام سے پہچانے جانے لگے۔ پھر یوں ہوا کہ باس بدل گیا،ملازمین نے کام کرنے میں لیت و لعل شروع کر دیا۔وضع وضع کے میسنجرزڈاﺅن لوڈ کر لئے گئے ۔ لوگ دھڑلے سے چاٹنگ کرتے دکھائی دینے لگے۔ ”قبرستانی سناٹا“ غارت ہوگیا اور اس کی جگہ دفتر ”مچھلی مارکیٹ“لگنے لگا۔تو برادرم ! یہ ہوتا ہے ماحول جو صرف انسانوں یا جانوروں کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ پیڑ پودوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب ہم لال اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ ہماری جماعت کے نگراں ماسٹر صاحب انتہائی بدمزاج تھے۔ بچوں کو بات بات پر ڈانٹتے اور ڈنڈے کی زبان میں بات کرتے۔ ان کے کمرے میں کسی گملا لا کر رکھ دیا جس میں گیندے کے پھول کھل رہے تھے۔ دو ہفتے کے بعد اس پودے میں نمودار ہونے والے تمام پھول نیست و نابود ہوگئے۔ اس کی شاخیں کسی خود سر جھاڑ کی طرح اِدھر اُدھر بڑھنے لگیں اور یہ پودا ایسی پود نظر آنے لگا جسے کسی طور قابو کرنا ممکن ہی نہ رہا ہو۔یہ گملا ماسٹر صاحب کے کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کی بجائے وحشت کی علامت بن چکا تھا۔کچھ عرصے کے بعدہمارے والدین نے ہمیں لال اسکول سے اٹھا کر کانونٹ میں داخل کر دیا۔ وہاں ہماری کلاس کی انچارج”سچ مچ کی مِس“تھیں۔ ان کا مزاج بھی پھول کی مانند نرم تھا۔ ہم نے اپنے ”ماحولیاتی تجربے “ کی توثیق کے لئے اپنی مِس کو گیندے کے پودے والا گملابطور تحفہ پیش کیا اور لے جا کر ان کے آفس میں رکھ دیا۔ہم گملے کو دیکھنے کے لئے روزانہ مس کے آفس میں جاتے اور گملے کو بھی غور سے دیکھتے اور حیرت زدہ رہ جاتے کیونکہ شاخیں انتہائی خوبصورتی سے منظم انداز میں بڑھتی جا رہی تھیں۔ ہر روز ہمیں اس گملے میں کلیاں چٹکتی، پھول کھِلتے اور نئی کونپلیں پھوٹی نظر آتی تھیں۔ بلا شبہ یہ ہماری مس کے مزاج کی شگفتگی، عادت کی دلکشی اورگفتگو کی نرمی کانتیجہ تھاکہ گیندے کا پودا ان کے کمرے میں خوب پھل پھول رہا تھا۔ 
جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو ماحول کے حوالے سے اپنے تجربات کو مزید پرکھنے کی کوشش کی اور ہم ایک تھانے میں جا گھسے۔ وہاں کے تھانیدار صاحب روایتی قسم کے تھے۔ اپنے ماتحتوں کوصرف نام لے کر نہیں بلاتے تھے بلکہ نام سے پہلے ”گلوچ“ کا قافیہ ضرور لگاتے تھے۔ رشوت لینے کے عادی تھے، مظلوم اگر ان کی جیب گرم کرنے کے قابل نہ ہوتا تو اس کی لترول کرواتے اور جو ظالم انہیں منہ مانگی رقم پیش کر دیتا اسے بصد احترام گھر جانے کی اجازت دے دیتے ۔ان تھانیدار صاحب کے کمرے ہی کیا برآمدے اور تھانے کے صحن میں بھی جو پودے اور درخت موجود تھے ، انہیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ بہاروں کو ان سے روٹھے ہوئے عرصہ گزر گیا ہے، ہر شاخ پر اُلوﺅں کا بسیرہ ہے۔ یہاں تک کہ میز، کرسی، پنکھا ، نوٹس بورڈ، الماری اور کھڑکی دروازے جیسی بے جان اشیاءسے بھی وحشت اور دہشت ہی ٹپک رہی تھی۔
چند روز قبل ہمارے ایک دوست پاکستان سے چھٹی گزار کر واپس لوٹے تو ملنے چلے آئے۔ پھپھولے پھوڑنے کے انداز میں انہوں نے ہمیں وطن عزیز میں گزرے ایام کی چیدہ چیدہ روداد سنانی شروع کی۔ ہم بہت شوق کے ساتھ ہمہ تن گوش ہوئے مگر پھر یوں لگا جیسے ہم لمحہ بہ لمحہ افسوس کی دلدل میں اترتے جا رہے ہیں۔اسی دوران یوں لگا جیسے کسی نے ایک ہی جھٹکے میں ہمیں دلدل سے نکال کر پختہ زمیں پر کھڑا کر دیا ہو۔ ہوا یوں کہ ہمارے دوست نے اپنی صاحبزادی کا واقعہ سنایا۔وہ اپنے دوبھائیوں سے چھوٹی ہے۔5ویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ ہمارے دوست نے اس سے کہا کہ بیٹی اگر تمہیںبڑا بھائی تنگ کرے، یا چھوٹا بھائی ستائے تو آپ مجھے مس کال دے دینا، پھر دیکھنا میں ان کی کیسی درگت بناتا ہوں۔ یہ سن کر بیٹی بہت خوش ہوئی اور دونوں بھائیوں کو احساس دلایا کہ ابو کی نظر میں میری قدر تم دونوں سے زیادہ ہے۔باپ نے بیٹی سے کہا کہ بیٹی اب تو خوش ہو ناں؟ بیٹی نے جواب دیا ”پاپا!مجھے پوری خوشی اُس وقت ہوگی جب آپ میری بات مان لیں۔“ باپ نے کہا کہ وہ کیا بات ہے؟ بیٹی نے کہا کہ ”جب یہ دونوں مجھے تنگ کریں تو ان کی پٹائی ہونی چاہئے اور جب میں دونوں بھائیوں کو تنگ کروں تو بھی بھائیوں کی ہی لترول کی جانی چاہئے۔“باپ نے کہا کہ بیٹی ! یہ بات تو صریحاًبعید از عقل، نامعقول، ناانصافی، بد دیانتی اور بے ایمانی پر مبنی ہے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ بیٹی نے ایک نہیں مانی اور ضد کرنی شروع کر دی۔ باپ نے مجبور ہو کر بیٹی کی بات مان لی۔ہمارے دوست نے کہا کہ میں نے یہی بات اپنے بڑے بھائی سے کی تو انہوں نے کہا کہ اس میں حیرت کی کیا بات ہے، یہ تو ماحول کا اثر ہے۔ہمارے ہاں عوام غلطی کریں تو سزا عوام بھگتتے ہیں، سیاستدان غلطی کریں تو سزا عوام بھگتتے ہیں ، یہاں تک کہ حکمراں غلطی کریں تو بھی سزا عوام ہی بھگتتے ہیں۔ہے نا ںماحول کا اثر؟
 
 

شیئر: