Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ کامیابی کی اتھاہ بلندیوں کو چھو گیا

ولی عہد کا ایک ایک جملہ نپا تلا، جذبات سے بھرپور، صدق دل سے نکلی ہوئی آواز تھی، الفاظ وعدے وعید نہیں تھے، ان کی پاکستانیوں سے محبت کا بھرپور اظہار تھا
صلاح الدین حیدر۔بیورو چیف
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے 2 روزہ دورے میں پاکستانیوں کے دل جیت  لئے۔ 17 اور 18 فروری 2019ء پاکستان کی تاریخ کا درخشاں ترین باب بن گیا۔ کوئی اتفاق نہ کرنا چاہے تو اس کی مرضی لیکن قوم ایسے تمام منفی رجحانات کو رد کر چکی۔ چمکتے دمکتے چہرے، 22 کروڑ لوگوں میں امید کی ایک نئی جھلک صاف دکھائی دے رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دورہ ناصرف کامیاب بلکہ کامیابی کی اتھاہ بلندیوں کو چھو گیا۔ ایسے کامیاب دورے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
منفی رجحانات تو اب بھی دیکھنے میں آئیں گے مگر انہیں صرف یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ تنقید برائے تنقید کی اب کوئی جگہ نہ رہی۔ ایسے رجحانات جلد ہی دم توڑ جائیں گے۔ اعلیٰ مقام ولی عہد کے دو تین جملے ہی ایسے لوگوں کو خاموش کرنے کیلئے کافی ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے جاتے وقت پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا۔ کسی اور نے پہلے کبھی ایسی بات نہیں کہی تھی۔ پھر وزیراعظم عمران خان نے اپنے عشائیہ میں قوم کی بھرپور ترجمانی کی کہ پاکستان کے 3000 قیدیوں کو رہائی دی جائے اس لئے بحیثیت ایک لیڈر ان کا دل ان غریب لوگوں کیلئے بھر آتا ہے۔ وہ رحم کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ ولی عہد انہیں رہا کر کے ان کی دعائیں حاصل کرینگے جو کہ اللہ وحدہ لاشریک کی طرف سے کسی بھی انسان کیلئے سب سے بڑا تحفہ ہے۔ ولی عہد نے پاکستان سے واپس جانے سے پہلے ہی 2107 قیدیوں کی رہائی کا اعلان کر کے ان کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیر دیں جس کا انعام صرف باری تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔ عمران نے اس جذبے کو پاکستان سے عشق و محبت سے تعبیر کیا۔ عمران نے فوراً ہی ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر خیرسگالی کا مظاہرہ کر ڈالااور کہا کہ ہم واقعی ولی عہد کے شکر گزار ہیں۔ 
پاکستانیوں نے ولی عہد کے 2 روزہ قیام کے دوران اپنا دل و دماغ فرش راہ کردیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے لوگ روحانی رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ دورے کے دوران صدر عارف علوی نے انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ نشان پاکستان سے نوازا جو کہ ہر پاکستانی کی خواہش کے عین مطابق تھا۔ اگر اس سے بڑا بھی کوئی اعزاز ہوتا تو وہ بھی انہیں پیش کرنے میں پاکستانی قوم فخر محسوس کرتی۔ دورہ تو صرف اسلام آباد تک ہی محدود رہا لیکن کراچی سے لے کر خیبر تک ہر پاکستانی خوشی سے جھوم رہا تھا اور مشترکہ اعلامیہ جو دورے کے اختتام پر جاری کیا گیا اس میں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ہر گھڑی ساتھ رہنے کا عہد کیا گیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ دوسری بڑی بات جس نے ہر پاکستانی کے دل کو ولی عہد کیلئے دعائوں سے بھر دیا وہ تھا کہ میں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر ہوں۔ جو کچھ مجھ سے ہو سکا میں ضرور کروں گا۔ عمران نے عوامی نمائندگی کی اعلیٰ مثال قائم کی تھی، ان کی عشائیہ پر تقریر لوگوں کی بھلائی کیلئے تھی اور ولی عہد کا جواب سن کر عمران تو خیر خوشی سے پھولے سمائے ہوں گے بلکہ پوری پاکستانی قوم ان کی رہین منت تھی۔
ولی عہد کا ایک ایک جملہ نپا تلا، جذبات سے بھرپور، صدق دل سے نکلی ہوئی آواز تھی، عمران کی درخواست کے پاکستانی حجاج کیلئے سعودی ایئر پورٹ پر امیگریشن کی سہولت پر نظر ثانی کی جائے کا بھی مثبت جواب ملا اور شاید چند ہفتوں میں اس پر عمل ہوتا نظر آنا شروع ہوجائے گا۔ ولی عہد کے الفاظ وعدے وعید نہیں تھے، ان کی پاکستانیوں سے محبت کا بھرپور اظہار تھا۔ 
20 کھرب کے معاہدے کوئی معمولی بات نہیں ہوتی، مگر ولی عہد کی سادگی ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے اسے محض 2 طرفہ تعلقات کی ابتداء سے تعبیر کیا، آگے بہت کچھ ہوگا۔ سعودی عرب کی طرف سے گوادر میں آئل ریفائنری، پٹرولیم کمپلیکس، توانائی کے دوسرے منصوبے، معدنیات کی صنعت کو وسعت دینے میں سعودی امداد کا اظہار دونوں ملکوں کی تجارتی اور صنعت کاروں کے درمیان گفتگو بہت کچھ رنگ لائے گی۔ تھوڑا وقت ضرور لگے گا لیکن نیتیں جب صاف ہوں تو وقت خودبخود درد کا درماں بن جاتا ہے پھر سب سے بڑی بات ولی عہد کا پاکستان کی نئی قیادت کو خراج تحسین پیش کرنا اور یہ فرمانا کہ 2030ء تک وہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن دیکھ رہے ہیں۔ دوسرے معنوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عمران کی قیادت کو ناصرف سعودی عرب بلکہ دنیا اب تسلیم کرنے لگی ہے۔ وجہ صاف ہے، پچھلے دس بارہ برسوں میں پاکستانی قیادت ملک و قوم کی خدمت کرنے کی بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہی۔ حکمراں امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور عوام غریب سے غریب۔ دونوں ہی ممالک رشوت ستانی، دہشت گردی اور کرہ ارض پر امن و سلامتی کی جدوجہد میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ دنیا میں امن ہوگا تو پاکستان بھی ترقی کی راہ پر تیزی سے فاصلے طے کرے گا۔ فلسطین اور افغانستان میں امن و سلامتی کی امید ظاہر کی گئی اور شاہ فیصل کا عہد کہ بیت المقدس جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول تھا پھر سے فلسطین کا دارالحکومت ہوگا۔ یہ ہیں وہ باتیں جس کا کھل کر اظہار کیا گیا۔ پاکستان نے سعودی عرب کی حفاظت کو اپنا نصب العین ظاہر کیا جو کہ پاکستانی قائدین کی عزم و ہمت کا بھرپور اظہار تھا۔
ایک اور خاص بات جو اس دوران دیکھنے میں آئی وہ تھی چین کی طرف سے باضابطہ اعلان کہ چین سی پیک میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرے گا۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جس کا شدت سے انتظار تھا۔ شروع شروع میں چین کی طرف سے کچھ تحفظات دیکھنے میں آئے تھے لیکن اب یہ بات بالکل صاف ہوگئی، اسی طرح متحدہ عرب امارات بھی چین پاکستان راہداری میں شمولیت کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ تجارتی مقاصد کا اظہار جسے مفاہمتی یادداشتیں بھی کہتے ہیں پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ایسی ہزاروں مفاہمتی یادداشتیں سرکاری الماریوں میں گرد کھارہی ہیں لیکن اس شبہات کو دور کرنے کیلئے ایک مشترکہ کونسل کا قیام عمل لایا گیا جس کی مشترکہ سربراہی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیراعظم عمران خان خود کرینگے تاکہ منصوبوں پر بھرپور طریقے سے عمل درآمد ہوسکے اور راہ میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ ساتھ میں مشترکہ وزارتی کونسل بھی قائم کردی گئی جو سال میں 2 بار اجلاس منعقد کرے گی اور منصوبوں کی ترقی اور تکمیل پر نظر رکھے گی۔ یہ بذات خود ارادوں کی مضبوطی کا بلاجھجک اظہار ہے۔ قصہ مختصر، دورے کی کامیابی اور مقاصد کی تکمیل میں کسی شبہے کی گنجائش باقی ہی نہیں رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: