Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعداد پر تنازعہ

معصوم مرادآبادی
ایئراسٹرائک میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پر تنازعہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ عالمی میڈیا کی تازہ خبروں میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ ہندوستانی حملوں کے بعد بالاکوٹ میں جیش محمد کے مدرسے سمیت 6 عمارتیں وہاں اب بھی نظر آرہی ہیں۔ اپنے دعوے کیلئے انہوں نے سان فرانسسکو میں واقع ایک پرائیویٹ سٹیلائٹ آپریٹر کی 4مارچ کی تصویروں کو بنیاد بنایا ہے۔ اس میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ عمارتوں کی چھتوں پر کوئی سوراخ نظر نہیں آرہا\ یہاں پر جلنے ، مدرسے کے آس پاس درختوں کے اکھڑنے یا فضائی حملوں کے نشان بھی موجود نہیں۔ ان ہی دعوؤں کے درمیان دفاعی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی آئی ہے کہ فضائیہ نے جیش محمد کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں سے متعلق 12صفحات کی ایک رپورٹ حکومت کو سونپی ہے۔ جس میں حملے سے وابستہ سبھی ثبوت اور بالا کوٹ علاقے کی ہائی ریزولوشن تصویریں بھی ہیں۔ فضائیہ نے واضح کیا ہے کہ 26فروری کو پاکستان کے خیبرپختونخوا صوبے میں داخل ہوکر کئے گئے حملے میں اس کے 80فیصد نشانے صحیح لگے ہیں۔ اس دوران جن بموں کو داغا گیا۔ وہ وہاں موجود عمارتوں کی چھتوں میں سوراخ کرکے سیدھے اندر گئے۔ اسی وجہ سے جو بھی تباہی ہوئی ہے، وہ اندر ہوئی ہے۔ ضروری نہیں کہ بنکر بسٹنگ حملوں میں عمارت پوری طرح تباہ ہوجائے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سب سے پہلے عالمی میڈیا نے ہی بی جے پی لیڈران کے ان بیانات پر سوال کھڑے کئے تھے جو انہوں نے بالاکوٹ میں ہلاک ہونے والوںکی تعداد کے حوالے سے کئے تھے۔ اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے اس تعداد کو چیلنج کرنا شروع کیا اور اب حکمراں بی جے پی کی حلیف جماعت شیوسینا نے اس پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ شیوسینا نے اپنے مراٹھی ترجمان ’سامنا‘ میں لکھا ہے کہ عوام کو ہوائی حملے میں ہلاک ہونے والے انتہا پسندوں کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ اس قسم کی اطلاعات دے دینے سے مسلح افواج کا حوصلہ پست نہیں ہوگا۔‘‘ یہ سوال یقینا اہمیت کا حامل ہے کہ جب آپ ایئر اسٹرائیک کا ہدف حاصل ہونے کی بات کہیں تو اس کے حق میں ٹھوس ثبوت بھی پیش کئے جانے چاہئیں۔ حالانکہ اس قسم کے حملوں کے بارے میں ثبوت اکٹھا کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ احتیاط بھی لازم ہے کہ اس معاملے میں کسی بھی تنازع سے بچنے کی خاطر بلند بانگ دعوؤں سے گریز کیاجائے۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت ایئر اسٹرائیک سے ایسا ہی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے جیسا کہ اس نے سرجیکل اسٹرائیک سے اٹھایا تھا۔
جولوگ ایئراسٹرائیک میں ہونے والی ہلاکتوں پر سوال کھڑے کررہے ہیں ان کے بارے میں وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ مسلح افواج کا حوصلہ توڑنے کا کام کررہے ہیں۔ کیونکہ یہ کارروائی فوج نے انجام دی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہلاکتوں پر سوال اس لئے کھڑے کئے جارہے ہیں کہ اس قسم کے دعوے خود سیاسی قیادت کی طرف سے کئے گئے ہیں اور اس معاملے میں فوج نے حد درجہ احتیاط سے کام لیا۔ خود ہندوستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل بی ایس دھنوا کا کہنا ہے کہ’’ فضائیہ لاشیں نہیں شمار کرتی بلکہ اس کا کام نشانے پر بم گرانا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہاکہ’’ ہم یہ نہیں گن سکتے کہ کتنے لوگ مارے گئے ہیں، اس کی اطلاع سرکار ہی دے گی۔ ‘‘ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ جب ایئر اسٹرائیک کرنے والی فضائی فوج کے سربراہ ہلاکتوں کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کررہے ہیں تو پھر حکومت کے پاس ایسے کون سے ذرائع ہیں جن کی بنیاد پر وہ دعویٰ کرسکتی ہے۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا دعویٰ بی جے پی صدر امت شاہ نے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 26فروری کی ایئر اسٹرائیک میں 250ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ سینئر کانگریسی لیڈر دگوجے سنگھ نے فضائیہ کی کارروائی کے بارے میں یکے بعد دیگرے کئی ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہاکہ ’’پلوامہ حادثے کے بعد ہماری فضائیہ کے ذریعے کی گئی ایئر اسٹرائیک کے بعد غیر ملکی میڈیا میں بھی شبہ پیدا کیاجارہا ہے۔ جس سے ہماری حکومت کی صداقت پر بھی سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہاکہ حکومت کے کچھ وزیر کہتے ہیں کہ 300دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ بی جے پی صدر امت شاہ کہتے ہیں کہ 250مارے گئے ہیں۔ یوپی کے وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ 400 مارے گئے ہیں اور ایک دیگر وزیر ایس ایس اہلووالیہ کہتے ہیں کہ’’ ایک بھی نہیں مارا گیا۔‘‘ انہوں نے وزیراعظم کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ ملک جاننا چاہتا ہے کہ اس میں جھوٹا کون ہے۔ دگوجے سنگھ نے الزام لگایا کہ’’ مسٹر مودی اور بی جے پی فضائیہ کی کارروائی کو انتخابی موضوع بنانے میں مصروف ہیں۔‘‘ دگوجے سنگھ کے بیان کا آخری جملہ ہی دراصل حقیقت بیان کرنے کے لئے کافی سے زیادہ ہے۔ کیونکہ حکمراں جماعت ایئر اسٹرائیک کو باقاعدہ انتخابی فائدہ کے لئے استعمال کررہی ہے۔ کئی مقامات پر ایسے پوسٹر اور ہورڈنگ دیکھے گئے ہیں جس میں ایئر اسٹرائیک کا فائد ہ ووٹوں کی شکل میں وصول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کوشش میں بی جے پی کے بعض لیڈر تو اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں وہ باقاعدہ فوجی وردی میں ملبوس نظر آرہے ہیں۔

شیئر: