Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیگ اور پی پی کو عمران کے کمزور ہونے کا انتظار

 اندرون ِ خانہ کیا کھچڑی پک رہی ہے ، اہل نظر و فکر اس کو دیکھ اور محسوس کررہے ہیں، پیپلز پارٹی کا لب ولہجہ جارحانہ ہوچکا
احمد آزاد، فیصل آباد
 اپنے سیاسی دشمنوں کو ساتھ لے کر چلنے والے آصف زرداری موسم سرما میں بھی گرمی کی شدت محسوس کررہے ہیں ۔حکومت کی عیاشیاں لوٹنے والے اب احتساب سے گزررہے ہیں ۔اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی بھی اس وقت نیب کی گرفت میں ہیں اور حالات وواقعات اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ بہت جلدپیپلز پارٹی کے اچھے خاصے پختہ و بالغ نظر سیاسی لوگ احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے ۔نوازشریف پہلے ہی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں اورمسلم لیگ ن مرکزی قیادت کے بغیر دیگر افراد کے بل بوتے پر چل رہی ہے ،پیغام و پروڈکشن آرڈر آتے ہیں تو بنیادی فیصلے ہوپاتے ہیں ۔ ایسے میں جہاں تحریک انصاف کو شروع دن سے ہی سخت ٹائم دینے کا عندیہ دیا جاتا رہا ہے وہیں دونوں جماعتوں کی طرف سے باہمی اتفاق کم ہی دیکھنے کوملا ہے ۔پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب ہو یاپھر صدرپاکستان کا انتخاب،دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے کاز پر کام کرتے ہوئے اپنی سیاسی بساط بچھانے کو ترجیح دی اورتحریک انصاف کو سخت ٹائم دینے کو ایک طرف کیے رکھا ۔ایسے میں ایک بار پھرمسلم لیگ ن کے میاںنوازشریف سے ملنے کیلئے بلاول بھٹو زرداری کوٹ لکھپت جیل میں جاپہنچے اوران کی عیادت کی جس میں پیپلزپارٹی کی سینئرقیادت بھی ہمراہ تھی ۔اس ملاقات میں کیا کچھ ہوا اور کیا باتیں ہوئی ہیں یہ تو ایک طرف رکھیے لیکن ایک بات لازمی ہوئی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں ایک پلیٹ فارم پر ہونے کے پر تول رہی ہیں ۔اگرچہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کی جماعت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ دونوں شخصیات کی ملاقات غیر سیاسی ہے اور مقصد نوازشریف کی عیادت کرناتھی ۔لیکن اندرون ِ خانہ کیا کھچڑی پک رہی ہے ، اہل نظر و فکر اس کو دیکھ اور محسوس کررہے ہیں ۔سیاسی منظرنامے پرنظررکھنے والے لوگ اس ملاقات کو عیادت سے زیادہ سمجھ رہے ہیں کیونکہ جہاں پیپلزپارٹی کے گردگھیرا تنگ ہورہا ہے وہیں مسلم لیگ ن بھی اس احتساب سے اُکتا چکی ہے ۔ نوازشریف ہسپتال منتقل نہ ہونے پر بضد ہیںاورباوجودکوشش کہ  نوازشریف کے قریبی افراد انہیں راضی نہیں کرسکے۔اگرچہ مستقبل قریب میں تو یہ میثاقِ جمہوریت کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہ دے پائے لیکن تحریک انصاف کو احساس دلا سکتا ہے کہ اپوزیشن مضبوط ہے ۔اگرچہ اس پر ابھی بات کرنا قبل ازوقت ہے لیکن ابھی اس پر نہ تو تحریک بن پائے گی اورنہ ہی کوئی اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔ہاں بس اپنے اپنے مال کو بچانے اورسیاسی ساکھ کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔دونوں جماعتیں اس وقت سخت مشکلات میں گھری ہوئی ہیں ایک طرف اگر کرپشن، آمدن سے زائداثاثے ہیں تودوسری طرف جعلی بینک اکائونٹس اورمنی لانڈرنگ اپنے دانت دکھا رہی ہے ۔موجودہ حکومت اپنی ناتجربہ کاری اوروزراء کے تندوتیز حملوں کے باوجودچل رہی ہے اوراداروں کو ساتھ ملاکر ایک بہتر حکومت کررہی ہے اسی لیے دونوں جماعتوں کو عمران خان کے کمزور ہونے کا انتظار ہے تاکہ وہ شب خون مارسکیں۔اس وقت نواز شریف بھی خاموشی کے ساتھ پیپلز پارٹی کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہے ہیں۔جہاں وہ اپنے موقف پر قائم ہیں کہ وہ اسپتال نہیں جائیں گے وہیں جیل کے باہر ان کی جماعت کے رہنماء بھی عمران خان کی حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں اور اس میںاب بلاول بھٹو زرداری کی آواز بھی شامل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف دبائو کا شکار نظرآرہی ہے۔ گزرتے دنوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کا لب ولہجہ بھی تیز اور جارحانہ ہوچکا ہے ۔کالعدم جماعتوں سے مبینہ تعلق کی بناء 3وزراء کومستعفی ہونے اور وزیراعظم سے ایکشن لینے کا مطالبہ بھی بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے سامنے آیا ہے ۔الیکشن کمپیئن میں لگائے جانے والے نعروں اور وعدوں کی وجہ سے تحریک انصاف تذبذب کا شکارنظر آرہی ہے اس لیے حکومتی وزراء دفاعی پوزیشن پر جاکر کھیل رہے ہیں۔ چوہدری برادران جوکہ حکومتی اقتدار کا حصہ ہیں ان کے خلاف بھی کیس کھلنے جارہے ہیں جس کی وجہ سے وہ بھی دفاعی پوزیشن میں چلے گئے ہیں اور کھل کر حکومتی اقدامات کی حمایت کرتے نہیں پائے جاتے ۔اندرون خانہ تو لگتا ہے کہ چوہدری برادران مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر ان کیسوں سے بچنے کی کوشش کریں گے ۔اگرایسا ہوتا ہے تو پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوسکتا ہے جس کے اثرات یقینی طور پر وفاق کی سطح پر بھی جائیں گے ۔
ماضی میں کیا گیا میثاق آمریت کے خلاف تھا اور موجودہ بننے والا میثاق جمہوریت جمہوریت کے ہی خلاف ہوگا۔ماضی میں کیا گیا میثاق آمریت سے لڑنے کیلئے بنایا گیا تھا اور موجودہ میثاق نظام سے لڑنے کے لیے بنایا جائیگا تاکہ آل،مال اور کھال بچائی جاسکے۔آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری یقینی ہونے کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی کا لب ولہجہ بدل چکا ہے اور وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر چلنے کو تیار نظرآرہی ہے ۔موجودہ حکومت کوشش کررہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وہ باہر سے روپیہ واپس پاکستان لاسکے لیکن اگر وہ اس کام میں ناکام ہوجاتی ہے تو تحریک انصاف ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گی ۔اس بات کا ادراک عمران خان کو ہے اس لیے وہ ہرقدم دیکھ بھال کررکھ رہے ہیں ۔پاک ہند کشیدگی میں جس طرح سے انہوں نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے اس نے پاکستان کا امیج پوری دنیا میں بہترسے بہترین کردیا ہے ۔آرمی چیف بھی اس سال ریٹائر ہورہے ہیں اگرچہ فوج جیسے ادارے اپنی پالیسیوں کے ساتھ چلتے ہیں لیکن سربراہ کی تبدیلی بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کیلئے نئے آرمی چیف کا تقرر بھی ایک معنی خیز تبدیلی کاباعث ہوسکتا ہے ۔بلاول بھٹوزرداری کی شکل میں پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کی راہ پر قدم رکھ دیا ہے۔اب گیند مسلم لیگ ن کی کورٹ میں ہے کہ وہ کب اس پر کھیلتی ہے ۔
 
مزید پڑھیں:- - - -حبیب جالب

شیئر: