Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عام انتخابات کی ہلچل

معصوم مرادآبادی
عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے۔ پچھلے لوک سبھا انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ تقریباً ساڑھے 8 کروڑ ووٹروں کا اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طورپر اس بار 90کروڑ لوگ ووٹ ڈالیں گے جن میں 18، 19 سال کے ڈیڑھ کروڑ ووٹر پہلی مرتبہ حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں نے جال بچھانا شروع کردیا ہے۔ ایک طرف جہاں بی جے پی نے دوبارہ اقتدار میں آنے کیلئے اپنے تمام گھوڑے کھول دیئے ہیں تو وہیں دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں نے بی جے پی کو ہرانے کیلئے لنگوٹ کس لیا ہے۔ کانگریس صدر راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ ہر جگہ نفرت پھیلائی جارہی ہے اور کانگریس نے بی جے پی کے فاشزم، نفرت وعداوت اور تفرقے کی سوچ کو شکست دینے کا اعلان کیا ہے اور اس کوشش میں وہ کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں حالانکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ انتخابات کے دوران جو کچھ کہاجاتا ہے اس کا تعلق حقائق سے کم اور ووٹروں کو لبھانے سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت حکمراں بی جے پی ملک کے اندر قوم پرستی اور جارحانہ ہندتوکا جنون پیدا کرنے کی جو کوشش کررہی ہے ،اس نے سبھی کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے خلاف کی گئی کارروائی کو بڑھاچڑھا کر پیش کیاجارہا ہے اورسیاسی طورپر اس کا کریڈٹ لینے کی پوری کوشش کی جارہی ہے حالانکہ الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے دوران فوج یا اس کی سرگرمیوں سے متعلق کوئی بھی تشہیری مواد شائع کرنے پر پابندی لگادی ہے۔ بی جے پی لیڈروں کی انتخابی تقریروں میں اس کا اثر باقی ہے اور گھما پھرا کر وہی بات کہی جارہی ہے جس کے براہ راست کہنے پر انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوتا ہے۔ آئندہ ماہ 11اپریل سے شروع ہونیوالے انتخابات 7مرحلوں میں 19مئی تک جاری رہیں گے۔ ووٹوں کی گنتی 23مئی کو ہوگی اور 6جون سے قبل نئی سرکار وجود میں آجائے گی۔ الیکشن کمیشن نے جن تیاریوں کاحوالہ دیا ہے، اس سے واضح ہے کہ اس مرتبہ انتخابات میں تکنیک ایک اہم کردار ادا کریگی۔ اپوزیشن جماعتوں نے ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کی بجائے بیلٹ پیپر کے ذریعے چناؤ کرانے کا مطالبہ کیا تھا چونکہ پچھلے دنوں ای وی ایم مشینوں کو ہیک کرنے کے جو دعوے کئے گئے تھے، اس سے ملک میں کافی بے چینی کا ماحول تھا اور تمام اپوزیشن پارٹیاں ای وی ایم کی کارکردگی پر سوال کھڑے کررہی تھیں لیکن الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کی صداقت پر ہی مہر لگائی ہے اور اپوزیشن کے خدشات کو مسترد کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس مرتبہ تمام ممکنہ چیلنجوں سے نپٹنے کی تیاریاں کی ہیں۔ اس کی سب سے زیادہ توجہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر مرکوز رہے گی۔ جعلی خبروں پر نگاہ رکھنے اور غیر شائستہ زبان کے استعمال پر روک لگانے کیلئے کچھ خاص لوگوں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ سبھی امیدواروں کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی جانکاری الیکشن کمیشن کو دستیاب کرانی ہوگی اور سوشل میڈیا کے سبھی پلیٹ فارموں پر انتخابی عمل کے دوران صرف انہی سیاسی اشتہارات کو قبول کیاجائے گا جو پہلے سے تصدیق شدہ ہوں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ الیکشن میں پہلی مرتبہ قومی سطح پر ایک مخصوص موبائل ایپ کا استعمال کیاجائے گا جس کے ذریعے کوئی بھی شہری کسی بھی ہیراپھیری کی شکایت براہ راست الیکشن کمیشن سے کرسکے گا۔ اس شکایت پر 100منٹ کے اندر کارروائی عمل میں آئے گی۔ ای وی ایم کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے ان کے نقل وحمل میں شریک پولنگ پارٹیوں کی گاڑیوں میں جی پی ایس نصب ہوگا۔ ای وی ایم پر انتخابی نشان کے علاوہ امیدواروں کی تصویریں بھی شائع کی جائیں گی۔ ان تمام پیش بندیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس مرتبہ ہرقسم کی گڑبڑ کو روکنے کی پوری تیاری کرلی ہے۔ انتخابی تاریخوں کا اعلان ہونے کے بعد سیاسی پارٹیوں کے مسلم قائدین کی طرف سے یہ اعتراض درج کرایاگیا ہے کہ ووٹنگ کے آخری 3 مرحلوں کی تاریخیں رمضان کے دوران پڑ رہی ہیں لہٰذا ان تاریخوں میں تبدیلیاں کی جائیں تاکہ مسلمان بھی بڑھ چڑھ کر پولنگ میں حصہ لے سکیں۔ عام خیال یہ ہے کہ رمضان کے دوران ہونے والی ووٹنگ میں مسلمانوں کا فیصد کافی کم رہ جائے گا اور اس کا فائدہ حکمراں بی جے پی کو ملے گا جو مسلم ووٹوں کو ناکارہ بنانے کی اعلانیہ پالیسی پر گامزن ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جان بوجھ کر رمضان کی تاریخوں میں انتخابات کرائے جارہے ہیں ۔رمضان کے دوران جن صوبوں میں انتخابات ہوں گے، ان میں مغربی بنگال، بہار اور اترپردیش کی تقریباً 40سیٹیں شامل ہیں۔ جہاں مسلمانوں کی خاطرخواہ آبادی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ’’ کسی جمعہ کے دن یا کسی تہوار کے موقع پر کوئی پولنگ نہیں رکھی گئی۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ رمضان کے پورے مہینے میں چناؤ نہ ہو۔ اس سے قبل 1962کے لوک سبھا چناؤ میں رمضان کے پورے مہینے کے دوران ووٹنگ ہوئی تھی لیکن کوئی مخالفت نہیں ہوئی تھی۔‘‘ قابل ذکر بات یہ ہے کہ رمضان کے دوران ووٹنگ کے معاملے پر خود مسلمانوں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ۔ ایک طرف جہاں سماجوادی پارٹی ، ترنمول کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے مسلم لیڈروں نے اس پر سوال کھڑے کئے ہیں، تو وہیں دوسری طرف مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی کا سوال ہے کہ’’ کیا رمضان میں مسلمان کام نہیں کرتے؟ تو پھر ووٹ کیوں نہیں ڈال سکتے؟انہوں نے کہاکہ یہ تنازعہ غیر ضروری ہے اور اس پر بحث مناسب نہیں ہے۔‘‘
مزید پڑھیں:- - - - -جمہوریت ترقی چاہتی ہے

شیئر: