Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سارے جہاں کے درد کا علاج کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہاں

اُم مزمل۔جدہ
    
وہ اپنے جاگرز کو دھوپ کے ختم ہوجانے پر اٹھانے یہاں آئی تھی ۔وہ اپنے لائے ہوئے تمام پھلوں کے کریٹس کو ایک جگہ جمع کر کے انہیں آگ لگانے کے بعد اس احساس کے ساتھ واپس پلٹ رہا تھا کہ وہ انہیں اپنے تینوں عزیز دوستوں کے لئے لایا تھا۔ یہ ان کا حصہ تھا اور اب یہ سب قسم قسم کے پھل اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتے تھے اور اگر وہ ایسی کوئی کوشش کرتا تو وہ بے فائدہ ہی ثابت ہوتی۔
    کچھ دیر ہی گزری تھی۔ وہ اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھا چھت کو سپاٹ نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ چھم سے اس کی نگاہوں میں اس من موہنی کی صورت ابھر آئی۔ وہ اس کے لائے ہوئے پھل اور دوسری چیزیں شوق سے کھاتی اور اپنی پسند کا دل کھول کر اظہار بھی کرتی اور یہ بھی فرمائش کرتی کہ آئندہ بھی اس جگہ سے ہی پھلوں کے ٹوکرے آنے چاہیں کیونکہ ہر کسی جگہ کے پھل اتنے مزیدار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے آپ کو مکمل گھر گرہستی کا ایک ایسا فرد خیال کر رہا تھا جو اپنی گھر والی کے لئے دور دور سے خوشیاں ڈھونڈ کر لاتا ہے۔ اس کے اس تصوراتی
 لمحوں کو ایک تیز آواز نے چکنا چور کردیا۔ وہ بے مزہ ہوکر رہ گیا کہ اس تیز وتند آواز کے جواب میں ایک دھیمی آواز نے اپنا مدعا بیان کرنا
 چاہا تھا۔ وہ اس کی آواز سنتے ہی تیزی سے باہر آیا تھا۔ ہوا میں اس کے ہی آگ لگائے ہوئے پھلوں کے کریٹس کی لکڑیوں کی مہک شامل ہوچکی تھی اور پڑوسن کی غصے بھری آواز پھر ابھری ” تم نے میرے قیمتی پودوں کو جلتی لکڑیاں پھینک کربھسم کر دیا۔ تمہیں اندازہ ہے یہ کتنے نایاب اقسام کے پھولوں کے پودے ہیں۔ وہ چند لمحے پہلے کے تصوراتی پل کو حقیقت کا روپ دھارے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کے لائے ہوئے شریفے کو کھاتے ہوئے پڑوسن سے مخاطب تھی کہ آپ میرے لئے محترم ہیں ۔بھلا بتائیے، شریفے جیسے مزیدار پھل کھاتے ہوئے آگ لگاﺅ، جلاﺅ، گھیراﺅ جیسے خیالات کیسے ذہن میں آسکتے ہیں؟ اس کی منمنی سی آواز ہی اس کی چغلی کھا رہی تھی۔ اسی لئے خاتون نے مزید اشتعال کا مظاہرہ کیا اور کہاکہ اس کی تلافی تو تمہارے گھر والوں کو کرنی پڑے گی۔
     وہ جو اب تک خاموش تھا، اس نے یکایک اپنے آپ کو یہ کہتے سنا کہ آنٹی یہ آگ انہوں نے نہیں لگائی، میں ہی پتہ نہیں کس ذہنی رو میں انہیںسلگاتا رہا تھا بہرحال کل آپ کے تمام پودے آجائیں گے۔وہ خشمگیں نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنے لان میں درختوں کے درمیان سے اپنے برآمدے کی جانب بڑھ گئیں۔
     وہ بھی عمارت کی اندرونی جانب دوڑ ی اور پھر کئی نسوانی آوازوں نے اسے متوجہ کیا جواس کی برہم پڑوسن سے جان چھوٹ جانے پر اس کے چاروں طرف جمع ہو گئی تھیں۔ اس نے جلدی سے اپنی شہادت کی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر”شی، شی“کہتے خاموش رہنے کا عندیہ دیا کہ کہیں ارد گرد کے لوگ ان لڑکیوں کی موجودگی سے آگاہ نہ ہوجائیں۔ اس نے فوراً یاد دلایاکہ بڑے لالا نے ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو کہا ہے ۔اس کی خالہ زاد نے کہاکہ تم نے ہی اپنے نئے نویلے جوگرز دھوکر دھوپ میں سکھانے کے لئے رکھے تھے اور تمہیں اس جھٹپٹے کے وقت یہاں تیز روشنی نظر آئی تو تم نے ہمیں بھی بلا لیا کہ دیکھیں یہاں اتنی تیز روشنی کیسے ہو رہی ہے اور جب ہم سب یہاں پہنچے تو دیکھا کہ پھلوں کے نصف درجن کریٹس میں آگ لگی ہوئی ہے۔ صاف ظاہر تھا کہ انہیں کسی نے جان بوجھ کر جلایا ہے۔ فوراً ہی اس نے جلتی لکڑیوں کو اٹھا اٹھا کر دور پھنکنا شروع کیا اور ہم لوگ سارے پھل اٹھا لائے۔ اس کی ایک کزن نے کہا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اتنے مزیدار آم، امرود، شریفہ اور آڑو یہاں کیوں پھینکے گئے اور نہ صرف پھینکے گئے بلکہ اس میںآگ بھی لگا دی گئی کہ کوئی اس کو لے جا نہ سکے اور اسی وقت تیسری کزن نے امرود کھاتے ہوئے کہا کہ بھئی ” جنت“ کو کریڈٹ دو کہ اس نے ہی ان سلگتے کریٹس کو ایک ایک کر کے جلنے سے بچایا اور مدد کے لئے مسنون دعائیں پڑھتی رہی اورہم لوگوں نے دیکھا کہ اس جگہ ایک بھی پھل آگ کی تپش سے نہیںجلا ۔ان میں سے ایک نے یاد دلایا کہ جس نے پڑوسن کے پودے لاکردینے کا کہا ہے، وہ معلوم نہیں یہ کام کرے گا بھی کہ نہیں ۔اس صورت میں گھر والوں کو پوری بات بتانی پڑے گی کیونکہ وہ تو لڑاکا طیارے کی مانند تھیں کہ کچھ سننے پر آمادہ ہی نہیں تھیں۔ آڑو کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ایک دوسری کزن نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی کہ اتنے زبردست پھل ضائع ہوجاتے اگر یہ بروقت آگ سے دور نہ کر لئے جاتے اور اس وقت اس نے کہاکہ جس رزق پر کھانے والے کا نام لکھا ہو وہ بھلا کہاں جائے گا۔ اس کے لہجے میں اتنا یقین تھا کہ وہ ششدر رہ گیا ۔
    وہ لوگ اب جنگ کی تباہ کاریوں پر باتیں کر رہی تھیں کہ اگر ریاست اپنی حفاظت کرتی رہے اور دوسروں کی زمین اپنی ریاست میں
 شامل کرنے کے جنون میں مبتلا نہ ہو تو اس وادی میں کتنا سکون ہو جائے ۔ وہ لوگ 70 سال سے عالمی قرار دادوں کو نہ مانتے ہوئے جبر کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ کہہ اٹھی کہ معلوم نہیں، سارے جہاں کے درد کا علاج کرنے والوں کا دعویٰ کہاں چلا جاتا ہے جب اس دنیا میں موجود جنت ِ ارضی کی بات کی جاتی ہے۔
    ٭٭جاننا چاہئے کہ ظالم کو ظلم سے نہ روکنا، ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
 

شیئر: