Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میلبرن سے وزارت عظمیٰ تک

 
شاہد عباسی
 
عمران خان نے دوڑنا شروع کیا، گیند پھینکی، رچرڈ لنگ ورتھ نے قدموں کا استعمال کرتے ہوئے اونچی ہٹ لگائی، تماشائیوں کا جوش و خروش عروج پر، فیلڈر تیزی سے گیند کے نیچے آتے ہوئے، اور رمیز راجا نے کیچ کر لیا۔ متعدد پاکستانی کھلاڑی سجدہ میں گر پڑے، پاکستان نے ورلڈ کپ جیت لیا۔
عالمی کرکٹ کپ 1992 کا فائنل ریڈیو پر سننے والوں نے کمنٹیٹر کے منہ سے یہ الفاظ سنے اور پاکستانی شائقین کرکٹ جھوم اٹھے۔ 27 برس قبل آج ہی کے دن پاکستانی ٹیم نے کرکٹ کا عالمی کپ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں اپنے نام کر لیا تھا۔
کرکٹ ورلڈ کپ کا پانچواں میلہ 22 فروری سے 25 مارچ تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں منعقد کیا گیا تھا جس میں پاکستان نے فائنل میں انگلینڈ کو 22 رنز سے شکست دے کر کامیابی اپنے نام کی تھی۔
اس ٹورنامنٹ میں پہلی بار کھلاڑیوں کے لیے رنگین یونیفارم متعارف کرایا گیا، سفید گیند اور سیاہ سائٹ سکرینز استعمال کی گئیں۔ 21 برس کی پابندی کے بعد جنوبی افریقی ٹیم پہلی بار عالمی کپ کا حصہ بنی تھی جب کہ ٹورنامنٹ کا فارمیٹ بھی تبدیل کیا گیا تھا۔
ٹورنامنٹ میں اپنے ابتدائی ساتوں میچز جیت کر اپنے گروپ کی ٹاپ ٹیم بننے والی شریک میزبان کیوی ٹیم کو ورلڈ کپ میں شریک ہر ٹیم پر برتری حاصل رہی لیکن پاکستان کے خلاف نیوزی لینڈ کو اپنے دونوں میچوں میں شکست ہوئی۔ آخری گروپ میچ میں سرفہرست ٹیم کو شکست دینے والی پاکستانی ٹیم اپنے ابتدائی پانچ میچوں میں سے صرف ایک میں کامیابی حاصل کی تھی۔
گروپ میچز کے سٹیج کے بعد پوائنٹ ٹیبل پرپاکستانی ٹیم چوتھے نمبر پر تھی۔ یہ پوزیشن بھی ایک حسین اتفاق کا نتیجہ تھی، انگلینڈ کے خلاف بارش سے متاثرہ میچ کا ایک پوائنٹ ملنے اور آسٹریلیا کے ہاتھوں ویسٹ انڈین ٹیم کی شکست نے پاکستانی ٹیم کو آگے بڑھنے کا موقع دے دیا۔
ناک آؤٹ مرحلہ شروع ہوا تو ٹورنامنٹ کی سب سے کامیاب ٹیم نیوزی لینڈ ایک بار پھر پاکستان کے مقابل تھی۔ گروپ میچ میں رمیز راجہ کے 119 رنز اور وسیم اکرم کی 32 رنز کے عوض چار وکٹوں نے پاکستان کو کامیابی دلائی تھی۔ آکلینڈ، نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے سیمی فائنل میں انضمام الحق کے 37 گیندوں پر برق رفتار 67 رنز نے گرین شرٹس کو پہلی مرتبہ عالمی کپ کے فائنل میں پہنچانے میں اہم کردار اد کیا۔
آسٹریلیا کے شہر میلبرن کے گراؤنڈ پر پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے چھ وکٹوں کے نقصان پر 249 رنز بنائے۔ 110 گیندوں پر کپتان عمران خان کے 72 رنز اور جاوید میانداد کے 58 رنز کی اننگز نے یہ مجموعہ ترتیب دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ انگلش ٹیم نے ہدف کا تعاقب شروع کیا لیکن پچاسویں اوور کی دوسری گیند پرتعاقب ناکامی پراحتتام پذر ہوا۔ اس بار مشتاق احمد اور وسیم اکرم کی تین، تین وکٹیں نمایاں رہیں۔ وسیم اکرم 18 وکٹوں کے ساتھ ٹورنامنٹ کے کامیاب ترین بالر اور مشتاق احمد 16 کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔
انگلش ٹیم کے آخری کھلاڑی رچرڈ لنگ ورتھ نے عمران خان کی جانب سے اننگز کے آخری اوور کی دوسری بال پر اونچا شاٹ کھیلنے کی کوشش کی رمیز راجا نے بائونڈری لائن کے قریب ان کے کیچ لینے میں کوئی غلطی نہیں کی، یوں ایک غیرمتوقع کامیابی پاکستانی ٹیم کے نام ہوئی۔
پلے بوائے سیلبریٹی کا تاثر رکھنے والے عمران خان 40 برس کی عمر میں ورلڈ کپ جیتا تو اپنی توجہ کینسر کے علاج کے لیے ہسپتال قائم کرنے پر مرکوز رکھی۔ اسی عرصہ میں انہوں نے متعدد مرتبہ کہا کہ وہ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
طویل مقدمے کے بعد اس وقت جیل میں موجود نواز شریف 1992 میں پاکستان کے وزیراعظم تھے اور انہوں نے ہی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کو اسلام آباد میں ایک ایک کنال کے رہائشی پلاٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔ کپتان اور ٹیم کے لیے دیگر انعامات اور قوم کی جانب سے ملنے والی پذیرائی اس کے علاوہ تھی۔
1970 سے شروع ہونے والے دو دہائیوں سے زائد عرصہ پر مشتمل کرکٹ کیرئیر کو کامیابی کے عروج پر پہنچانے والے عمران خان نے ابتدائی انکار کے بعد سیاست کا رخ کیا تو یہاں بھی وہ مختلف نوعیت کے چھوٹے بڑے تنازعات اور مسائل کا شکار رہے۔ 1997 کے الیکشن میں ان کی نوآموز پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور تحریک انصاف کوئی بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ 43 برس کی عمر میں 21 سالہ برطانوی جمائمہ گولڈ سمتھ سے شادی اور بعد میں علیحدگی بھی انہی مسائل میں شامل رہی۔
65 برس کی عمر میں پاکستان کے وزیراعظم بننے والے عمران خان اپنی سیاسی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا ذکر کرتے ہوئے اکثر کرکٹ کیریئر خصوصا ورلڈ کپ کی مثالیں دیتے ہیں۔ عمران خان اپنے مخالفین پر وار کرنے اور سیاسی گفتگو میں بھی کرکٹ کی اصطلاحات بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ گوگہ سیاسی مخالفین عمران خان کی قیادت میں کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی فتح کو عمران خان پر طنز کے لیے استعمال کرتے ہیں تاہم اس بات میں وزن ہے کہ 1992 کی ورلڈ کپ کی جیت کی عمران خان کے سیاسی زندگی کے عروج میں ایک اہم کردار ہے۔
 

شیئر: