Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نادرہ کے پاس ‘مغوی ہندو‘ بہنوں کا ریکارڈ موجود نہیں

 
اعظم خان
 
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا  ہے کہ دو بہنوں کے اسلام قبول کرنے کے واقعے نے سندھ میں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے تنازعے کو جنم دیا ہے۔
دوسری جانب ملک میں شہریوں کی رجسٹرین کے قومی ادارےنادرا کے ترجمان  فائق حسین نے  اردو نیوز کو بتایا ہے کہ نادرہ کے پاس سندھ سے مبینہ طور پر اغوا کیے جانے والی لڑکیوں کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ 
انھوں نے بتایا کہ لڑکیوں کے والد نے  22 مارچ کو  نادرا  سے فارم ضرور حاصل کیا ہے لیکن تصدیق کے بعد وہ واپس نہیں کیا گیا ہے۔ 
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری حکم نامے میں چیف جسٹس اطہر من اللہدونوں لڑکیوں کو „شہید بے نظیر بھٹو ویمن کرائسز سنٹر‘ منتقل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ  لڑکیوں کا طبی معائنہ بھی کروایا جائے۔
عدالت کے مطابق مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کسی بھی شخص کو لڑکیوں سے ملاقات کی اجازت نہیں ہو گی اور مجسٹریٹ روزانہ کی بنیاد پر عدالت میں رپورٹ دیں گے۔
عدالت نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق  شیریں مزاری، خاور ممتاز، ڈاکٹر مہدی حسن اور آئی اے رحمان کو عدالتی معاون بھی مقرر کر دیا ہے۔
اس سے پہلے درخواست گزار بہنیں اپنے نئے ناموں آسیہ اور نادیہ  کے ساتھ اپنے وکلا محمد عمیر بلوچ اور راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کے ہمراہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش  ہوئیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ اطہر من اللہ کی عدالت کھچا کچھ بھری ہوئی تھی۔  میڈیا  کے نمائندوں کی بڑی تعداد  کمرہ عدالت  میں موجود تھی۔ عدالت نے یہ مقدمہ ٹھیک  نو بج کر 44 منٹپر’آسیہ بنام وزارت داخلہ‘ مقدمہ  سننا شروع کیا۔
لڑکیوں  کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل عبدالرحیم نے عدالت سے استدعا کی کہ دونوں بہنوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ’منفی پروپیگنڈہ‘ اور  میڈیا  کو ’جھوٹی خبریں‘ چلانے سے روکا جائے۔
سندھ پولیس کے اہلکار  صاحب دینو اور انور علی  21 مارچ سے درج ایفآئیآر لے کر  عدالت پہنچے جبکہ  دونوں بہنوں کے  شوہر ہونے کے دعویٰ کرنے والے لڑکے بھی میں  کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ دونوں لڑکوں نے بھی حفاظتی ضمانت کے لیے عدالت کے سامنے  درخواست دائر کردی ہے۔
خیال رہے کہ ابھییہ طے ہونا باقی ہے کہ رینا اور روینا اپنی مرضی سے آسیہ اور نادیہ بن گئی ہیںیا پھر ان کو ہولی کے دن ان کے گھر سے  اغوا  کرکے زبردستی مسلمان بنا دیا گیا ہے۔  سندھ سے ان لڑکیوں کو پہلے رحیمیار خان اور اس کے بعد اسلام آبادلایا گیا ہے۔
لڑکیوں کے بھائی شمن داس کے وکیل افتخار احمد چیمہ نے عدالت سے استدعا کی کہ  لڑکیوں کی والدہ اور بھائی راستے میں ہیں، ان کا بھی  انتظار کر لیا جائے تاہم عدالت نے   مقدمے کی ابتدائی سماعت جاری رکھی۔
چیف جسٹس  اطہر من اللہ نے اسلام آبادکےڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات کو مخاطب کرتے ہوئے  لڑکیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا  حکم دیا اور کہا یہ   معاملہ جب تک عدالت میں ہے ان   کو سندھ نہیں لے جایا جا سکتا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈر ہے کہ کہیں لڑکیوں کو کاروکاری نہ کردیا جائے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا  ایسی صورتحال کے پیش نظر  انہیں سندھ  نہ بھیجنے کا  حکم دیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ نے بھی اس معاملے پر انکوائری کا حکم دے رکھا  ہے۔   چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ  وزیر اعظم  عمران خان نے بھی ایک شفاف انکوائری کا حکم دیا تھا، عدالت نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے جس انکوائری کا حکم دیا اس کی رپورٹ کب تک آئےگی؟  ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ ایک ہفتے تک رپورٹ مکمل ہوجائے گی۔
چیف جسٹس  اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیراعظم نے جس انکوائری کا حکم دیا ہے اس کی رپورٹ آئندہمنگلتکعدالتکےسامنےجمعکرائی جائے۔
چیف جسٹس نے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا   ’فائنل رپورٹ آنےتکیہ بہنیںآپکی مہمان ہیں، ان کو شیلٹر ہوم منتقل کریں،  وفاقی حکومت بچیوں کو سکیورٹی مہیا کرے، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو کہیں کہ گارڈین جج کا تقرر کریں،  ایس پی رینک کی خاتون پولیس افسر کو ان کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور کریں۔‘ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے  ریمارکس دیے کہ  اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔
 

شیئر: