Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرین مارچ کا سفر: بھٹو سے بلاول تک

اسرار احمد

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے حکومت مخالف ٹرین مارچ ’کاروان بھٹو‘ کا آغاز کیا ہے جو لاڑکانہ میں اختتام پذیر ہوگا۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے موجودہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے اور مہنگائی اور بے روزگاری کا عذاب عوام پر مسلط ہے۔

منگل کے روزکراچی سے شروع ہونے والے ٹرین مارچ کی قیادت کرتے ہوئے حیدر آباد ریلوے سٹیشن پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے خطاب میں بلاول بھٹو  نے کہا کہ غیر جمہوری قوتیں سمجھتی تھی کہ بے نظیر کو شہید کرکے پیپلز پارٹی کو ختم کیا جا سکتا ہے، مگر پیپلز پارٹی ابھی تک زندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذولفقار علی بھٹو نے جان دے دی، لیکن آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا۔

 بلاول کے ٹرین مارچ نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس روایت کو زندہ کیا جب سیاسی جماعتیںخصوصا ًحزب مخالف کے قائدین ٹرین کے ذریعے ملک کے طول وعرض کا سفر کرتے تھے اور ہر چھوٹے بڑے سٹیشز  پر جمع ہونے والے کارکنوں اور عوم سے خطاب کرتے تھے اور حکومت وقت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اپنی سیاسی زندگی کے اہم موڑ پر ہیں ۔ قومی احتساب بیورو بلاول اور ان کے والد کے خلاف کرپشن کے مبینہ الزامات پر تحقیقات کر رہی ہے اور وہ ٹرین مارچ کے ذریعے حکومت مخالف تحریک شروع کرنے جارہے ہیں۔

بلاول کے مارچ نے نصف صدی پہلے 22 جون 1966 کی یاد تازہ کردی ہے جب تاشقند معاہدے پر صدر ایوب خان سے اختلافات پر اس وقت کے وزیر خارجہ اور بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنما اور پاکستان کے سا بق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے کابینہ سے استعفی دے دیاتھا۔ 16 جون 1966 کو استعفی دے کر بھٹو جب ایوب کابینہ سے باہرآئے تو وہ بھی اپنی سیاسی تاریخ کے دوراہے پر تھے۔

بھٹو نے 22 جون 1966 کو ٹرین کے ذریعے لاہور تک سفر کرنے کا فیصلہ کیا اور جب وہ ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچے تو لوگوں نے ان کا بے مثال استقبال کیا۔

پاکستان کے سیاسی مورخین کا خیال ہے کہ پنڈی سے لاہور تک کے ٹرین کے سفر نے بھٹو پر لوگوں کا حکومت مخالف رجحان واضح کیا جس کے بعد بھٹو نے اپنی پارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور یکم دسمبر 1967 کو لاہور میں مبشر حسن کے گھر پارٹی کی بنیادد رکھ دی گئی۔

پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ٹرین مارچ سیاسی سرگرمی کے لیے ہمیشہ سے ایک موثر ذریعہ رہا ہے۔’اگر آپ ٹرین کو موثر طریقے سے استعمال کریں تو اس کا بہت فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ ٹرین ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جاتی ہے اور راستے میں سینکڑوں سٹیشن آتے ہیں جہاں آپ عوام سے انٹرایکٹ کر سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ٹرین مارچ کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے موثر استعمال ذولفقار علی بھٹو نے کیا۔ بے نظیر بھٹو نے بھی اسے استعمال کیا۔ بلاول بھٹوزرداری اورذوالفقار علی بھٹو کے مارچ میں مماثلت کے سوال پر مظہر عباس نے کہا کہ بلاول اورذالفقار بھٹو کے مارچ میں بہت فرق ہے کیونکہ یہ پارٹی مختلف ہے اورحالات بھی بہت مختلف ہیں۔

پاکستان کے سینئر صحافی سی آر شمسی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں ٹرین مارچ کو اپنی سیاسی نظریے کی ترویج وتشہیر اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی جب ایوب خان کی کابینہ سے الگ ہوگئے تھے تو انہوں نے پنڈی سے لاہور تک ٹرین میں سفر کیا اوراس طرح وہ پاکستان میں ٹرین مارچ کے موجد بنے۔

بلاول اور ذالفقار بھٹو کے ٹرین مارچز میں مماثلت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگرچہ دونوں کے دور اور واقعات میں کوئی مماثلت نہیں تاہم جس طرح ذولفقار علی بھٹو نے سیاست کو ڈرائینگ روم سے نکال کر کھیتوں کھلیانوں،کارخانوں اور گلیوں تک لائے تھے آج بھی قوم کو سیاسی سوچ ابھارنے کی ضرورت ہے۔

 سی آر شمسی کا کہنا تھا کہ 1985 کے الیکشن کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کوغیر سیاسی کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی کے لیے حالات بہت مشکل ہیں اور سنہ 2007 سے پارٹی ’لیڈر کے بغیر‘ ہے لیکن بلاول بھٹو  میں وہ عزم ہے  کہ وہ پارٹی کو دوبارہ منظم کر سکتے ہیں ۔

یہ تو وقت بتا دے گا کہ بلاول بھٹو کا ٹرین مارچ پاکستان پیپلز پارٹی کو متحرک کرنے اور حکومت کو دبائو میں لانے میں کتنا کامیاب ہوتا ہے ، لیکن ہم نے پاکستان میں اب تک ہونے والے ٹرین مارچز کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

 تحریک نجات کے دوران ٹرین مارچ:

سنہ 1995  میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ن)نے نواز شریف کی قیادت میں کراچی سے پشاور تک ٹرین مارچ کیا۔ ٹرین مارچ اس وقت کی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ کی حکومت مخالف 'تحریک نجات' کا حصہ تھا۔ ٹرین مارچ میں نواز شریف کے ساتھ  وزیر اعظم کے بھائی اور پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کے سربراہ میر مرتضی بھٹو بھی شریک تھے۔

پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی کا ٹرین مارچ

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی نے 21  جولائی  1996 کو کراچی سے پشاور تک ٹرین مارچ کا انعقاد کیا۔ جماعت اسلامی نے یہ مارچ حکومت کے مبینہ کرپشن کے خلاف کیا تھا۔ مارچ کی قیادت اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کی۔

ستمبر 2002 میں متحدہ مجلس عمل کا رابطہ عوام مہم کے سلسلے میں ٹرین مارچ

سنہ 2002 کے عام انتخابات سے پہلے مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے بھی رابطہ عوام کے سلسلے میں ٹرین مارچ کیا۔ ٹرین مارچ راولپنڈی سے کراچی تک جانا تھا۔ تاہم مارچ کے دوسرے مرحلہ میں اس وقت کی فوجی حکومت نے مجلس عمل کے لیڈران کو لاہور کے ریلوے سٹیشن سے گرفتار کیا اور انہیں ٹرین میں سوار ہونے سے روک دیا۔

جماعت اسلامی کا مہنگائی بے روزگاری اور مشرف کی پالیسیوں کے خلاف ٹرین مارچ

اکتوبر 2008 میں جماعت اسلامی نے اپنے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد کی قیادت میں مہنگائی، بے روزگاری اور حکومت کی جانب سے مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور مشرف کے احتساب میں ناکامی کے خلاف پشاور سے کراچی تک ٹرین مارچ کیا۔

کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ
مئی 2016 میں جماعت اسلامی نے کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ ٹرین مارچ 25 مئی 2016 کو پشاور سے شروع ہوا اور 27 مئی 2016 کو کراچی میں احتتام پذیر ہوا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے مارچ کی قیادت کی۔

 

شیئر: